افغانستان میں داعش کی پسپائی

0,,18635918_303,00 (1)

افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں امریکی جنگی طیاروں کے بھرپور حملوں اور افغان دستوں کی زمینی کارروائیوں کے نتیجے میں پسپائی کے بعد دہشت گرد تنظیم داعش کے جہادیوں نے اب ہمسایہ صوبے کنڑ کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔

کنڑ صوبے کے اسی نام کے شہر سے جمعرات چوبیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی رائٹرز کی رپورٹوں کے مطابق افغان حکام نے بتایا کہ اس صوبے میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف امریکا اور افغانستان کے فضائی اور زمینی آپریشنز کے نتیجے میں اب تک نہ صرف ان جہادیوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے بلکہ ایسے بیسیوں عسکریت پسند اب تک ننگرہار کے ہمسایہ افغان صوبے کنڑ میں منتقل ہو چکے ہیں۔

کنڑ میں صوبائی پولیس کے سربراہ کے علاوہ افغان فوج کے ایک ترجمان نے بھی تصدیق کی کہ داعش کا حافظ سعید نامی مقامی رہنما بھی اس گروہ کے ان جہادیوں میں شامل ہے، جو ننگرہار سے فرار ہو کر کنڑ پہنچے ہیں۔

عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض شدت پسند گروپ داعش کی افغانستان میں موجودگی کو ابھی بہت عرصہ نہیں ہوا لیکن اب تک اس گروہ کے عسکریت پسند ملک کے مشرقی حصے میں ’مقامی داعش‘ سے بہت بڑی افغان طالبان کی تحریک کے لیے حقیقی خطرہ بن چکے ہیں۔

حکام کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران ننگرہار میں داعش یا آئی ایس کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں امریکی جنگی طیاروں سے ایک باقاعدہ عسکری مہم کی صورت میں جو حملے کیے گئے اور جس طرح افغان حکومت کے دستوں نے زمینی کارروائیاں کرتے ہوئے اس مہم میں اپنے امریکی اتحادیوں کا ساتھ دیا، اس کے نتیجے میں ننگرہار میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیر قبضہ مرکزی علاقوں میں سے کئی کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا جا چکا ہے۔

کنڑ پولیس کے سربراہ عبدالحبیب سعیدخیل نے رائٹرز کو بتایا، ’’ننگرہار میں داعش کو بھاری جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ اسی لیے اس گروہ کے بہت سے جہادی اپنا ’میدان جنگ‘ تبدیل کرتے ہوئے کنڑ آ گئے ہیں‘‘۔

اسی دوران افغان نیشنل آرمی کی 201 کور کے ترجمان شیریں آقا نے بھی روئٹرز کو بتایا کہ داعش کا مقامی رہنما حافظ سعید اپنے فائٹرز کے ساتھ ننگرہار کے ضلع اچین میں تھا،جو ان کے زیر اثر کلیدی علاقہ تھا۔ ’’تاہم اب یہ جہادی کنڑ منتقل ہو چکے ہیں‘‘۔

امریکی فوج کے ایک ترجمان نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ امریکا کے عسکری اندازوں کے مطابق افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کی تعداد ایک ہزار سے لے کر تین ہزار تک بنتی ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق ’افغان داعش‘ کے یہ جہادی یا تو افغان طالبان تحریک کے سابقہ عسکریت پسند ہیں یا ان کا تعلق ماضی میں پاکستانی طالبان سے رہا ہے۔

DW

Comments are closed.