گردوپیش: آصف جیلانی
عصرحاضر کی تاریخ میں پاکستان منفرد ملک ہے جو انتخابات کے راستے عوام کے جمہوری حقوق کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ اسے یہ فخر بھی ہے کہ ایک الگ ملک کے قیام کے مطالبہ کے سات سال کے اندر اندر اسے منزل مراد مل گئی۔کہ دستِ غیب نے اس گھر کی در کُشائی کی ۔
یہ سفر 76سال قبل لاہور کے منٹو پارک میں24 مارچ کوآل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر اس تاریخی قرار داد کی منظوری سے شروع ہوا جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے بر صغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کی تحریک کا آغاز کیا تھا اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرنے میں کامیاب رہی۔
گو قرارداد لاہور کو عام طور پر قرارداد پاکستان کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قرارداد میں کہیں بھی پاکستان کا نام رقم نہیں تھااور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قرارداد میں برصغیر میں مسلمانوں کی واحد مملکت کے بجائے دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس میں چھ سال بعد اس انداز سے ترمیم کی گئی کہ اس پر بنگال کے رہنما سراپا احتجاج بن گئے۔
ان پہلووں کے تفصیلی ذکر سے پہلے ان حالات اور پس منظر پر نظر ڈالنا ضرور ی ہے جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ تاریخی اجلاس منعقد ہوا تھا۔
بر صغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936/37میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعوی کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے ۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔
کانگریس کومدراس، یوپی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی ۔ سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے، کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی ۔ پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینیسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔
غرض ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہوسکا تھا۔ ان حالات میں مسلم لیگ کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بر صغیر کے سیاسی دھار ے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔ اس دوران کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سر شار تھی ، ہندی کو قومی زبان قرار دے کر ، گاو کشی پر پانبدی عائد کر کے اورکانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دینے کے ایسے اقدامات کئے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کردیا۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا۔
اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ تین روزہ اجلاس ۲۲ مارچ کو شروع ہوا۔ اجلاس سے چار روز قبل علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولس نے فائرنگ کی جس سے 35خاکسار جاں بحق ہوگئے۔ اس کی وجہ سے لاہور میں سخت کشیدگی تھی ۔ پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت یونینسٹ بر سر اقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار یہ اجلاس نہ ہونے دیں گے۔ موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ دو قوموں کا مسئلہ ہے،اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتں قائم ہوں۔
دوسرے دن ان ہی خطوط پر 23مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی ، مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قابل قبول ہوگاجب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے ، انہیں یک جا کر کے ان میں آزد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔
مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چوہدر ی خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب ، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی نے کی ۔ قرارداد 24مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
یہ قابل ذکر بات ہے کہ اس قرارداد میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ دراصل یہ ہندو پریس تھا جس نے دوسرے روز اسے قراردادِ پاکستان کا نام دیا تھا۔ یہ نام درحقیقت انگلستان میں مقیم ایک وکیل چوہدری رحمت علی نے بر صغیر میں مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک الگ مملکت کے قیام کے بارے میں اپنے منصوبہ میں تجویز کیا تھا۔ اس وقت تک مسلم لیگ نے اس نام کو قبول نہیں کیا تھا اور لاہور اجلاس میں مسلم لیگ کی قیادت کو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ قرارداد لاہور میں وہ مسلمانوں کے الگ وطن کے لئے جو مطالبہ کررہے ہیں اس کا نام پاکستان ہوگا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ چوہدری رحمت علی اس اجلاس میں شرکت کے لیے کیمبرج سے ہندوستان روانہ ہوئے تھے اور ابھی کراچی پہنچے تھے کہ انہیں لاہور جانے سے روک دیا گیا اور ملک بد ر کر دیا گیا۔
غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ قرارداد لاہور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا۔ یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں مسلم لیگ میں ضم ہوگئی تھی اور سر سکندر حیات خان پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔ سر سکندر نے قرار داد کے اصل مسودے میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر عملی طور پر کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائداعظم نے خود اس مسودہ میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔
سر سکندر اس بات پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے 11 مارچ 1941 کو پنجاب کی اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا پاکستان کا نظریہ جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اس بنیاد پر ملک کی تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ سر سکندر دوسرے سال انتقال کر گئے یوں پنجاب میں قائد اعظم کو شدید مخالفت کے اٹھتے ہوئے حصار سے نجات مل گئی ۔اور 1946میں جب ہندوستان میں صوبائی انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ کو کانگریس کی 923نشستوں کے مقابلہ میں 425نشستیں حاصل ہوئیں اور یوں مسلم لیگ ان انتخابات کی بنیاد پر مسلمانوں نمائندہ جماعت تسلیم کی گئی اور جون 47میں پاکستان کے حصول میں کامیاب رہی۔
قرارداد لاہور کا ایک اہم پہلو جس پر اب بھی بحث جاری ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس میں واضح طور پر دو الگ مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔لیکن لاہور کے اجلاس کے بعد پہلی بار پاکستان کے مطالبہ کے لئے علاقوں کی نشاندہی سات اپریل 1946کو دلی کے کنونشن میں کی گئی تھی جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لئے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں واضح طور پرپاکستان کے علاقوں کی نشان دہی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب ، سرحد، سندھ اور بلوچستان ۔
تعجب کی بات ہے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا حالانکہ یہ شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا۔دلی کنونشن میں بنگال کے رہنما ابوالہاشم نے اس قرارد اد کی پر زور مخالفت کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد لاہور کی قرارداد سے بالکل مختلف ہے جو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ قرارداد لاہور میں واضح طور پر دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اس کنونشن کے بعد وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ بر صغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ہورہی ہے لہذا ، صرف ایک مملکت کاذکر کیا گیا ہے۔ البتہ جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس وقت اس مسئلہ کی حتمی ثالث ہوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورا اختیار ہوگا۔
لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن 56میں ملک کا پہلا آئین منظور ہورہا تھا دو آزاد مملکتوں کے قیام پر غور کیاگیا ۔ 25سال کی سیاسی اتھل پتھل اور کشمکش اور سن71کی خوں ریزی اور بنگلہ دیش کی جنگ کی تباہی کے بعد بر صغیر میں مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ سن40میں لاہور کی قرارداد میں کیا گیا تھا۔
♠