!ابھی ہم لوگ زندہ ہیں

12695990_10206729873699704_2066619818_n

منیر سامی

پاکستان ایک بار پھر لہو لہان ہے۔ ایک دل خراش خبر سے آپ ہم سب واقف ہیں ، کہ اس بارزندہ دلوں کے شہر لاہور میں ایسٹر کا عیسائی تہوار مناتے ہوئے پاکستانی شہریوں پر ظالموں کے حملے میں کم از کم پچھتر افراد جان بحق ہوئے، اور تین سو سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ جن میں بچے ، بوڑھے ، خواتین، نئے شادی شدہ جوڑے شامل ہیں۔ ساری دنیا میں غم پھیل گیا ،ا ور دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک سے پاکستان کی ہمدردی کے پیغام آنے لگے۔ دوسری خبر جو دبائی جاری ہے وہ یہ ہے کہ ظالموں کا ایک ہجوم پاکستان کی پارلیمان کا گھیرائو کیا بیٹھا ہے ، اور ایک قاتل کو سرکاری طو رپر شہید قرار دیے جانے کے مطالبے کر رہا ہے۔

جن کوپاکستان کی دلدوز اور جگر پاش تاریخ یاد ہے ان کے لبوں پر ایک شاعر کا یہ مصرعہ مکرر آیا کہ، ’تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارضِ وطن‘۔ انہیں یاد ہے کہ پاکستان کی بقاکی جدو جہد میں پاکستان کے بیباک شہری قیامِ پاکستان کے روزِ اول سے آج تک اپنی جان اور لہو کے نذرانے پیش کرتے رہے ہیں۔ شہید حسن ناصرؔ کے لہو سے شروع ہونے والی اس داستان میں بھٹو خاندان، شہباز بھٹی، سلمان تاثیر، سبین محمود، پروین رحمان، مرتضی رضوی، اوروہ سینکڑوں شہری بھی شامل ہیں جن کی یاد میں کوئی دیوار کہیں نہیں بنائی گی۔ وہ بھی کہ جن کے لیے کوئی محضرِ خونِ شہیداں نہیں ترتیب دی گئی، سیاسی جماعتوں کے وہ ہزاروں کارکن بھی جو ہلاک کیے گئے اور ان کے اہلِ خانہ کو آج تک انہیں دفن کرنے کی حسرت ہی رہ گئی۔

اس میں سندھ اور بلوچستان کے عمل پرست بھی شامل ہیں، جن کے لیے شاعر نے لکھا تھا کہ، ’وہ ہمیں تھے جن کے لباس پہ سرِ رو سیاہی لکھی گئی‘۔ان میں ملالہ یوسف زئی بھی شامل ہے اور کراچی میں اپنا حق مانگنے والے وہ ہزاروں نوجوان بھی جو ہزاروں بلوچ شہریوں کی طرح آج تک لاپتہ ہیں۔ ان ہی کے لیے شاید کسی نے کہا تھا کہ، ’وہ جو اصحابِ طبل وعَلمـ کے دروں پر، اپنے حق کا تقاضا لیئے، ہاتھ پھیلائے پہنچے مگر لوٹ کر گھر نہ آئے‘۔

پاکستان کو سلامت رکھنے کی خواہش میں پاکستان کی ہر اقلیت نے جن میں ہندو، عیسائی، شیعہ، احمدی،خواتین، سب شامل ہیں، جب جب بھی طلب ہوئی اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ان میں افواجِ پاکستان کے وہ ہزاروں نوجوان بھی شامل ہیں جنہیں کبھی بے سوچی سمجھی بیرونی جنگوں میں اور کبھی خود اپنے ہی شہریوں کے خلاف کشت و خون کا شکار بنایا گیا، اور شاعر خلوصِ دل سے اُن کے لیے لکھتا رہا، ’اے وطن کے سجیلے جوانو، میرے نغمے تمہارے لیے ہیں‘،۔ان کے لیے پاکستان کے شہری دل و جان سے دعایئں کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔

پاکستان کی غمزدہ تاریخ یاد کرتے وقت ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی ملک کے لاکھوں شہری ظلم کے خلاف جدو جہد کرتے ہوئے اپنی جانیں پیش کرکے اپنا الگ وطن بنگلہ دیش بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ہم نے اس وقت بھی پاکستان کے بیشتر شہریوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تھا، اور ہزاروں آج بھی بہت ہی دکھ کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘۔

بحیثیت مسلمان مجھے یقین ہے کہ آج اگر مسلمانوں کے رسول پاکستان میں ہوتے اور مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں ، اقلیتوں، اور حق پرستوں پر اس ظلم پر رنجیدہ اور غمزدہ ہوتے تو، شاید خدا ان سے کہتا کہ ، اے محمد ؐ، اگر آپ کہیں تو میں فرشتوں کو حکم دوں کے وہ ظالموں پر ’چاغی‘ کا پہاڑ الٹ کر انہیں ملیا میٹ کردیں۔ لیکن وہ پھر بھی یہی دعا کرتے کہ اے اللہ انہیں عقل عطا کر۔

آپ نے یہ دیکھا ہو گا کہ پاکستان میں سالہا سال کے جبر اور ظلم کے باوجود پاکستان کے شہری انتہائی کس مپرسی کے ساتھ ساتھ، پاکستان میں بہتری، اس کی خوش حالی، اس کے مستقبل ، اور اس کی بقا کے نہ صرف خواب دیکھتے ہیں، بلکہ اس کے لیئے جان و درہم کی قربانیاں دیتے ہیں ، یہ کہتے ہوئے کہ ’ہمارے خوں میں ضو فشاں تھا اک محیطِ روشنی ۔۔جہاں جہاں طلب ہوئی دیئے جلا دیئے گئے۔۔۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کیا یہ دیوانگی نہیں ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دیوانگی نہیں بلکہ ظلم و ستم کو مٹانے کاایک عزمِ مصمم اور مسلسل ہے۔ انہیں صرف ایک اصول یاد ہے کہ، ’ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ۔۔جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے‘۔ یہی وہ نصب العین ہے کہ جس میں وہ سب شامل ہیں جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔

جہاں ہم نے گزشتہ دنوں معصوموں کے قتل کی خبریں پڑھیں وہیں یہ خبریں بھی آئیں کہ معصوم عیسائیوں کی تدفین کے وقت ایک عیسائی پادری نے ایک پر عزم تقریر میں یہ کہا کہ’پاکستان ہمارا ہے، ہم اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے‘۔ ایک نوجوان ڈاکٹر کے بارے میں خبرآئی کہ وہ اپنے ایک ہاتھ میں خون کا عطیہ دینے کی نالی لگائے، مجروحین کی خبر گیری بھی کر رہا تھا، اور فرصت کے ایک بھی لمحہ میں پھر سے خون کا عطیہ دینے لگتا تھا۔یہ خبریں بھی آئیں کہ لاہور کے ہزاروں شہری جن میں لازماً مسلمان اکثریت میں تھے جوق در جوق اپنا خون عطیہ کرنے کے لیے آرہے تھے۔

اس تفریق کے بغیر کہ مجروحین میں اکثریت عیسایئوں کی تھی۔ یہ خبریں بھی تھیں کہ پاکستان کے ہر علاقہ سے جس میں لاہور سے کہیں دور کراچی بھی شامل ہے، عوام مظلوموں اور معصوموں کے لیئے خون ، پانی، اور ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کے لیے بے چین تھے۔یہ صرف اس ملک میں ہوتا ہے کہ جس کے شہری سالہا سال سے آمریتوں کو انتخابات میں مسلسل شکست دیتے ہیں۔ ان شہریوں کو یقین ہوتا ہے کہ، ’’دل نا اُمید تو نہیں ناکام ہی تو ہے۔۔لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے‘۔

ہمیں ایسٹر کے موقع پر معصوموں پر ظلم پر افسردگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایسٹر علامت ہے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی اور ایک ابدی حیات کی۔ ایسٹر جہاں ایک معصو م کے صلیب پر چڑھنے کویاد کرتا ہے وہیں بہار کی آمد کا مژدہ بھی دیتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی شہری بھی ایسٹر کے اس سانحہ کے بعد اب بھی ایک دوسر ے سے یہی کہ رہے ہیں کہ، ’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘۔

پاکستانیوں کو نہ صرف بہار کی امید قائم رکھنا ہے بلکہ اسے حقیقت میں بھی بدلنا ہے۔ ایسا جب ہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے مسائل کی بنیاد کو ہمیشہ نظر میں رکھیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ پاکستان کے قیام سے اب تک یہاں طویل فوجی آمریتیں قائم رہی ہیں۔ وہاں حکمرانی کے عرصہ میں کم از کم پچاس فی صد وقت ان فوجی آمروں نے جو خود کو عقلِ کُل گردانتے رہے ہیں ، پاکستان کی حالت خراب سے خراب تر کی ہے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی ان ہی کے دورِ اقتدار میں ہوئی تھی۔ پاکستان کو نام نہاد افغان جہاد میں ان ہی کے دورِ اقتدار میں جھونکا گیا تھا۔ طالبان اور دیگر مذہبی شدت پرست بھی ان ہی کے پروردہ ہیں، جنہیں ترجیحی اثاثوں کے طور پر استعمال بھی کیا جاتا رہا ہے اور کیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دیانت داری کے تمام تر دعووں کے باجود یہ فوجی آمر پاکستان کی تباہی میں اپنی آدھی ذمہ داری بھی تسلیم نہیں کرتے، جب کہ براہِ راست اور بالواسطہ یہ پاکستان کے سارے سیاہ اور سفید کے مالک ہیں۔

میں نہ مانوں کی رٹ کے ساتھ ان کا صرف ایک منتر ہے کہ’ پاکستان کے انحطاط کے ذمہ دار پاکستان کے سیاستدان ہیں‘۔ دنیا کے ہر ملک کے با شعور عوام کی طرح پاکستان کے عوام جب جب بھی انہیں موقع ملا ہے ہر جمہوری انتخاب میں سیاسی جماعتوں کو اور خصوصاًغیر مذہبی جماعتوں کو حکمرانی کے لیئے چنتے رہے ہیں۔

ہر انتخاب کے فوراً بعد ہی جموری عمل کو لپیٹنے کا غلغلہ اٹھتا ہے، لیکن جیسے ہی عوام کو موقع ملتا ہے وہ آئین کی سر بلندی کے لیئے پھر مستعد ہو جاتے ہیں جیسے کہ کہہ رہے ہوں کہ وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔پاکستان کے عوام نے بار ہا موت کے منہ میں آنکھیں ڈال کر نعرہ بلند کیا ہے کہ، ’ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں‘، اور یہ کہ’ مانا نہیں ہے ہم نے غَلَط بندو بست کو۔۔ ہم نے شکست دی ہے ہمیشہ شکست کو‘۔

پاکستان کو قائم رکھنے کے عزم کے ساتھ پاکستانی عوام واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ، وہ ایسا نظام چاہتے ہیں کہ جس میں مذہب اور ریاست میں مکمل علیحدگی ہو ۔تاکہ ہر مذہب ، ہر فرقہ ، اور ہر اقلیت کے شہری اپنے عقائد پر عمل کرتے ہوئے ، وطن کی ترقی میں مساوی حصہ لیں اور انہیں مساوی حقوق حاصل ہوں۔ وہ یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ پاکستانی کی افواج کے صادق، امین، دیانت دار ، اور پیشہ ور افسران پاکستان میں شہری حکمرانی ، جمہوریت ، اور آئین کی مکمل بالا دستی کو تسلیم کریں ، اور اپنے ساتھیوں کو مہم جوئی اور آمریت سے بہر طور الگ رہنے پر مجبور کرتے رہیں۔

اگرایسا نہیں ہو گا تو پاکستان مکمل شکست و ریخت سے دوچار ہوتا رہے گا اور لاہور جیسے واقعات اسے کمزور سے کمزور کرتے رہیں گے۔ پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ جہاں بھی ہو پاکستان کی بقا کا خواہاں ہے، اور اپنے اپنے طور اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

Comments are closed.