آصف جیلانی
جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی میں جہاں میں نے آنکھ کھولی تھی ، 1919کے جلیاں والا باغ کے قتل عام کی یاد “یوم آزادی“کے نام سے منائی جاتی تھی۔ اس دن پوری جامعہ کا انتظام طلباء کے سپرد کر دیا جاتا تھا، روز مرہ کی طرح درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ابتدائی اور ثانوی مدرسوں میں بڑی جماعت والے طلباء ، چھوٹی جماعتوں کے طلباء کو پڑھاتے تھے ۔ شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے فرائض بھی طلباء خود سنبھالتے تھے ۔ یہی نہیں پوری جامعہ کی اقامت گاہوں اور حتی کہ بیت الخلاء کی صفائی کا بھی کام طلباء انجام دیتے تھے۔ مقصد اس کا طلباٗ میں خود اعتمادی پیدا کرنا ، انہیں ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور ان پر یہ واضح کرنا تھا کہ کوئی کام حقیر نہیں ۔ اس روز تمام اساتذہ اور ملازمین کی تعطیل رہتی تھی اور رات کو تمام اساتذہ اور ملازمین کی ضیافت ہوتی تھی جس کا کھانا بھی طلباء مطبغ کے باورچیوں کی مدد سے تیار کرتے تھے۔
13اپریل 1943کے دن ایسی ہی ایک ضیافت میں میں اس صدر میز پر مہمانوں کی خاطر تواضح کے لئے تعینات تھا جس پر ڈاکٹر ذاکر حسین ، پروفیسر محمد مجیب، ڈاکٹر عابد حسین ، مولانا اسلم جیراج پوری ، ابتدائی اور ثانوی مدرسوں کے نگران بیٹھے تھے۔ اسی میز پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے ایک سرخ و سفید معمر باریش بزرک بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھوں میں اس بلا کی چمک تھی کہ ان سے نظریں چار کرنا مشکل تھا۔ ان سے نظریں ملاتے ہی ایک عجب جادو طاری ہوجاتا تھا ۔ باریش بزرگ کی چمکیلی آنکھوں سے میں اس قدر سحر زدہ تھا کہ میں ان مہمانوں کی پوری طرح سے کر پا رہا تھا۔ پھر باتیں بھی ان کی بے حد دلچسپ تھیں۔
پوری باتیں تو یاد نہیں لیکن اب صرف اتنا یاد ہے کہ باریش بزرگ ، ذاکر صاحب سے بحث میں الجھے ہوئے تھے اور ذاکر صاحب سے بار بار کہہ رہے تھے کہ انہیں عملی سیاست میں آنا چاہئے ۔ ذاکر صاحب نے جب یہ کہا کہ وہ جامعہ کے تعلیمی ادارے کی ذمہ داریوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو نحیف و کمزور باریش بزرگ نے غصہ کے عالم میں پتھر کی میز پر اس زور سے مکا مارا کہ گلاس جھنجھنا اٹھے اور میرے ہاتھ سے سالن کی قا ب گرتے گرتے بچی ۔ باریش بزرگ کہہ رہے تھے کہ ایسا تعلیمی ادارہ تو اور بہت سے لوگ چلا سکتے ہیں ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو آپ جیسے لوگوں کی سیاست میں اشد ضرورت ہے۔
اب یاد نہیں کہ یہ بحث کیسے ختم ہوئی ، لیکن ان باریش بزرگ سے یوں دبنگ انداز سے ذاکر صاحب سے بات کرنے سے میں سخت حیران تھا۔ ضیافت کے بعد میں نے اپنے بزرگ استاد پروفیسر سرور صاحب سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون تھے؟ کہنے لگے کہ یہ امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی تھے جو اس دور کے ایک بڑے انقلابی ہیں اور افغانستان ، روس ۔ ترکی اور حجاز میں کئی سال جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد ہندوستان واپس لوٹے ہیں۔ یہ پہلاموقع تھا کہ میں نے اتنے بڑے انقلابی کواس قدر قریب سے دیکھا۔ اتنے برس گذر گئے لیکن اب بھی ان کی آنکھوں کی چمک مجھے یاد ہے ۔ جامعہ ملیہ کی اس تقریب کے ایک سال بعد اگست 1944میں یہ خبر آئی کہ مولانا سندھی اس دارفانی سے کوچ کر گئے ہیں ۔ اس روز جامعہ ملیہ میں ایک درد بھراسناٹا تھا۔
کوئی 144 سال پہلے سیالکوٹ کے گاوں چیاں والی کو کیا علم تھا کہ اس کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہونے والابچہ ، بڑا ہو کر ایک دن عالم اسلام کا جید عالم اور انقلابی مجاہد کہلائے گا۔ بچپن ان کا نہایت پر آشوب حالات میں گذرا۔ابھی وہ صرف چار ماہ کے تھے کہ ان کے والد انتقال کر گئے۔ اس کے بعد چند برس ان کے داد نے ان کو پالا ۔ دادا کے گذرنے کے بعد ان کے نانا نے ان کی دیکھ بھال کی پھر نانا کے انتقال کے بعد ان کے چچا نے ان کو اپنے سایہ عاطفت میں لیا ۔ اسی زمانہ میں جام پور کے اسکول میں تعلیم حاصل کی ۔
اسکول میں ان کے ایک آریہ سماجی ہندو دوست نے انہیں مالیر کوٹلا کے ایک نو مسلم عبید اللہ کی کتاب ۔تحفتہ الہند۔ پڑھنے کے لئے دی اس کتاب نے انہیں اسلام کے بارے میں مزید جاننے کا شوق پیدا کیااور انہوں نے اسلام کے بارے میں دوسری کتابوں کے مطالعہ کے بعد خاموشی سے خود اسلام قبول کر لیا اس وقت ان کی عمر 14سال تھی ۔ اسلامی نام انہوں نے ۔ تحفتہ الہند۔ کے مصنف عبید اللہ کے نام پر رکھا اورگھر سے بھاگ کر سندھ میں دین پور پہنچے جہاں انہوں نے حافظ محمد صدیق بھر چونڈی والوں کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کے مدرسہ میں ایک سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مولانا سندھی نے دیو بند کے دارالعلوم داخلہ لیا اور مولانا رشید گنگوہی اور شیخ الہند مولان محمود الحسن کے شاگرد رہے۔
سنہ1891میں دیو بند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعدسکھر میں انہوں نے امروٹ شریف میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور بعد میں انہوں نے گوٹھ پیر جھنڈے والے میں دارالشاد کے نام سے مدرسہ قائم کیا ۔ سند ھ کی سرزمین کو کیا علم تھا کہ اسلام کی خاطر اپنے مذہب اور اپنے خاندان کو چھوڑ کر آنے والا یہ نوجوان روحانی ناتے سے اسے اپنا وطن قرار دے گا اور ساری عمر سندھی کہلانے میں فخر محسوس کرے گا۔ 1901میں مولانا محمود الحسن نے عبید اللہ سندھی کو دیو بند بلایااور عالم اسلام کے اتحاد اور ہندوستان کی آزادی کے لئے انقلابی جدوجہد شروع کرنے کے لئے ایک تنظیم جمعیت الانصار قائم کی ۔ اس مقصد کے لئے شیخ الہند نے عبید اللہ سندھی کو کابل ہجرت کرنے کی ہدایت کی تاکہ وہاں ہندوستان کی آزادی کے لئے عسکری جدوجہدکے لئے امیر حبیب اللہ کی مدد اور حمایت حاصل کی جائے اور خود ترکی کے گورنر غالب پاشاہ کی حمایت اور مدد حاصل کرنے کیلئے حجاز روانہ ہوگئے ۔
مولانا عبید اللہ سندھی 1915میں جہاد کے جذبہ سے سرشار ، خفیہ پولس سے بچتے بچاتے کوئٹہ کے راستے ایک سو میل کی مسافت پیدل چل کر طے کی اور شراوک پہنچے جہاں سے گائے اور بیل پر سوار ہوکر قندھار گئے اور وہاں سے کابل پہنچے جہاں ایک ماہ بعد انہیں امیر حبیب اللہ خان سے ملاقات کا موقع ملا جو تخلیہ میں ہوئی۔ مولانا سندھی کا بنیادی مشن ایک مسلم نجات دہندہ فوج ( جنود ربانی) قائم کرنا تھا جس میں تمام مسلم سلاطین شامل ہوں ۔ اس فوج کا مرکز مدینہ منورہ تجویز کیا گیا تھا۔ اسی کے ساتھ افغانستان میں ہندوستان کی آزادی کے لئے جلا وطن حکومت کے قیام کی تجویز تھی جسکے صدر راجہ مہندر پرتاب ،او وزیر اعظم کے لئے بھوپال کے برکت اللہ کا نام تجویز کیا گیا تھا۔
اس جلا وطن حکومت کا مقصد ہندوستان کی آزادی کے لئے افغانستان کی مدد سے مسلح جدوجہد کرنا تھا جس کے بعد امیر افغانستان کو ہندوستان کا فرماں روا تسلیم کیا جاتا۔ امیر حبیب اللہ سے مولانا عبید اللہ سندھی کی تخلیہ میں بات چیت میں اس منصوبہ پر غور کیا گیاتھا۔ امیر افغانستان مسلم نجات دہندہ فوج کے قیام کی کوششوں میں شامل ہونے کے لئے آمادہ نہیں تھے البتہ انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ ہندوستان کی آزادی کے لئے اپنا مشن جاری رکھیں ۔ امیر افغانستان سے ملاقات کے بعد مولانا عبید اللہ سندھی نے جو نیا منصوبہ تیار کیا اس کی اطلاع شیخ الہند محمود الحسن کو مکہ مکرمہ میں دینے کے لئے اور آیندہ کی حکمت عملی تجویز کرنے کے لئے انہوں نے پیلے رنگ کے تین ریشمی رومال پر خط تحریر کر کے اپنے معتمدوں کے ہاتھ حیدر آباد میں مولانا سندھی کے ایک ساتھی شیخ عبدالرحیم کو بھجوائے تھے ، جو حج پر جانے والے تھے تاکہ یہ خطوط وہاں شیخ الہند تک پہنچ جائیں۔
لیکن ملتان کے ایک زمینداررب نواز خان کے کارندے عبد الحق کوان خطوط کا راز مل گیااور اس نے یہ کہہ کر وہ یہ رومال شیخ عبد الرحیم تک پہنچا دے گا انہیں حیدرآباد لے جانے کے بجائے سیدھا ملتان لے گیا اور زمیندار رب نواز خان کے حوالے کر دئے جس نے یہ ریشمی رومال ملتان کے کمشنر کو دے دئے ۔ یوں یہ سارا منصوبہ جو ریشمی رومال سازش کے نام سے مشہور ہوا فاش ہوگیا۔ اس کے بعد ہندوستان میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں ۔ جب یہ ریشمی خطوط ہندوستان میں پکڑے گئے توانگریزوں نے امیر حبیب اللہ خان سے سخت احتجاج کیا جس کے بعد مولانا سندھی اور ان کے ساتھی نظر بند کردئے گئے ۔ اس دوران امیر حبیب اللہ خان کو قتل کر دیا گیااور امان اللہ خان امیر افغانستان بنے جن سے مولانا سندھی کے بڑے قریبی تعلقات تھے ۔ اتنے قریبی کہ امیر امان اللہ خان نے مولانا عبید اللہ سندھی کو اپنا وزیر اعظم بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن مولانا نے یہ کہہ کر معذرت ظاہر کی اس سے افغان سرداروں میں ناراضگی پھیل جائے گی ۔
اس دوران انگریزوں نے امیر امان اللہ خان پر زور دیا کہ مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے ساتھیوں کو افغانستان سے نکال دیا جائے ،اس کے عوض ان کو وہ تین کڑوڑ پونڈ ادا کردئے جائیں گے جس کا وعدہ پہلی عالم گیر جنگ میں افغانستان کے غیر جانبدار رہنے کے عوض امیر حبیب اللہ خان سے کیا گیا تھا۔ آخر کار امیر امان اللہ خان نے رقم کی لالچ میں آکر مولانا سندھی پر زور دیا کہ وہ افغانستان سے چلے جائیں۔ مولانا نے جب افغانستان چھوڑ کر سوویت یونین جانے کا فیصلہ کیا تو امیر امان اللہ خان نے مولانا سندھی سے درخواست کی کہ وہ سوویت رہنماوں کو افغانستان کو ایک کڑوڑ پونڈ کی امداد دینے پر آمادہ کریں جو افغانستان کو درکار ہے۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نومبر 1922میں دریائے جیحوں عبور کیا اور ترمذ کے راستے سمر قند اور بخارا ہوتے ہوئے ماسکو پہنچے ۔ اس زمانہ میں لینن شدید بیمار تھے اور لوگوں کو پہچانتے بھی نہیں تھے لہذا مولانا سندھی کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی البتہ وزیر اعظم ٹراٹسکی اور وزیر خارجہ چچرن سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ ماسکو کی ایک تقریب میں جہاں دانشور ، پروفیسر اور ادیب شریک تھے ، وزیر خارجہ چچرن بھی موجود تھے ۔ تقریب میں کارل مارکس کے نظریہ پر بات چیت ہورہی تھی ۔ مولانا سندھی سے استفسار کیا گیا کہ آیا کارل مارکس ایسا نظریہ اس سے پہلے انہوں نے کہیں دیکھا ہے۔ مولانا نے کہا کہ ہمارے ہندوستان کے مفکر شاہ ولی اللہ نے کارل مارکس کی پیدائش سے ایک سو سال پہلے یہی نظریہ پیش کیا تھا۔
مولانا نے شاہ ولی اللہ کے نظریہ کے وضاحت کی اور کہا کہ کارل مارکس کے نظریہ میں دین شامل نہیں لیکن شاہ ولی اللہ کے نظریہ میں دین اسلام شامل ہے ۔ اس تقریب کے بعد چچرن مولانا سے ملنے آئے اور پوچھا کہ کیا کوئی ریاست ہے جس کا نظام شاہ ولی اللہ کے نظریہ پر چل رہا ہو؟ مولانا نے کہاکہ ہمارے استاد نے ایسی ریاست بنانے کی کوشش کی تھی لیکن ناکامی ہوئی۔ چچرن نے کہا کاش کوئی اسلامی ریاست ایسی ہوتی تو ہم سب مسلمان ہو جاتے ۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم آپ کو سمرقند دیتے ہیں اس میں آپ دس سال کام کریں اور اگرآپ کامیاب ہوگئے تو اس نظام کو دیکھ کر ہم مسلمان ہو جائیں گے ۔ مگر مولانا سندھی نے یہ پیشکش اس بنا پر قبول نہیں کی کیونکہ سویت رہنما وہاں نگرانی کے لیے اپنا صدر رکھنے پر مصر تھے۔
سوویت یونین میں دس مہینے کے قیام کے بعد مولانا سندھی نے ترکی کے نظام اور قوم کا مطالعہ کرنے کے لئے قسطنطنیہ کا عزم کیا ۔ اس وقت تک کمال اتا ترک بر سر اقتدار آچکے تھے ۔ انقرہ میں مولانا سندھی کی مصطفی کمال اتاترک سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ ترکی میں تین سال کے قیام کے دوران مولاناسندھی نے بر صغیر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ایک جامع پروگرام تیار کیاجو ان کی انقلابی فکر کا مظہر تھا۔ ابتدا ء اس پروگرام کی یوں ہوتی ہے۔ ’’ اللہ اکبر‘‘ مہا بھارت سروراجیہ پارٹی ‘‘۔ اس پروگرام میں ہندوستان کے مسئلہ کو ایک ایسے سوشلسٹ نظام کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس میں مذہب اور چھوٹے پیمانہ پر ذاتی ملکیت کو برقرار رکھا گیا تھا۔
اصول و مقاصد میں سب سے پہلے یہ صراحت کی گئی تھی کہ ہندوستان مختلف ممالک کا مجموعہ ہے اور اسے ایک ملک فرض کر کے نئی نئی ہندوستانی واحد قومیت پیدا کرنے کی کوشش کو اساس آزادی نہ بنایا جائے۔ ہندوستان میں بسنے والی اقوام کو ایک وفاقی نظام میں یک جا کیا جائے ۔ پروگرام میں کہا گیا تھا کہ فواید عام کے تمام ذرایع قومی ملکیت میں دئے جائیں گے ۔ انفرادی ملکیت محدود کر دی جائے گی ۔ اشاعت مذہب کے لئے کسی مذہب کو سرکاری امداد نہیں دی جائے گی۔
مولانا عبید اللہ سندھی کو امید تھی کہ ترکی انہیں ہندوستان کی آزادی میں مدد دے گا لیکن انہیں سخت مایوسی ہوئی ان کا کہنا تھا کہ ترکوں کے حکمران طبقے کا یہ عام تاثر تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں او ر وہ مستقبل میں کچھ نہیں کر سکیں گے۔
پروفیسر محمد سرور صاحب نے مکہ معظمہ میں مولانا عبید اللہ سندھی کے طویل قیام کے دوران ملاقاتوں اور گفتگووں پر مبنی ایک کتاب ’’ افادات و ملفوظات۔ امام عبید اللہ سندھی ‘‘کے نام سے شائع کی تھی ۔ یہ کتاب اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے مولانا کے فلسفہ انقلاب اور ان کی فکرپر روشنی پڑتی ہے۔
گاندھی جی کے بارے میں مولانا کا کہنا تھا کہ ان کی نام نہاد مذہبی سیاست رجعت پسندانہ ہے جو ہندوستان کو آگے لے جانے کے بجائے پیچھے لے جائے گی ۔
مولانا سندھی کا کہنا تھا کہ جواہر لعل نہرو کی انٹرنیشنلزم اور گاندھی جی کے اہنساکے فلسفہ ہی نے سردار پٹیل کے ہاتھ مضبوط کیے اور یوں ہندوازم میں جارحیت پیدا ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان درحقیقت سردار پٹیل بنانا چاہتے تھے تاکہ ہندوستان کو مسلمانوں کے عمل دخل سے پاک کر دیا جائے۔ مسلم لیگ اور پاکستان کی تحریک کے بارے میں مولانا سندھی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کا دعویٰ کہ ہندوستان میں مسلم قوم ہے جو ہندووں سے جدا ہے غلط ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں اسلامی ملت ضرور ہے لیکن اس مسلم قومیت کا نہ یہاں اور نہ باہر کی اسلامی دنیا میں کوئی وجود ہے۔ یہاں سندھی قوم ۔ پنجابی قوم، بلوچ قوم ہے اور پشتون قوم ہے اور یہ اور ہندوستان کی دوسری بہت سے قومیں اس بر صغیر میں برابر کی شریک ہیں۔
علامہ اقبال کے بارے میں مولانا سندھی کا کہنا تھا کہ میں اقبال کی شاعرانہ عظمت کا معترف ہوں لیکن میرے نزدیک سیاسی قیادت اور دین امامت ایک شاعر کے خواہ وہ کتنا ہی بڑا شاعر کیوں نہ ہو سپرد کردینا قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقبال کو بڑا شاعر مانتا ہوں لیکن انہیں قوم کا قاید اور امام تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ مولانا کی رائے تھی کہ غلامی کی سب سے بڑی لعنت یہ ہوتی ہے کہ محکوم اپنے قومی وجود اور اس کی شخصیت کو بھول جاتے ہیں۔ ترکوں ، ایرانیوں اور عربوں نے اپنی جدو جہد آزادی میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا تھا اس کے برعکس مولانا کا کہنا تھا کہ اقبال نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے ملت اسلامیہ کی ایک ایسی سیاسی شخصیت رکھی جس کا دنیا میں کہیں وجود نہیں تھا۔
مولانا سندھی کا کہنا تھا کہ میں روس کے انقلاب کو مانتا ہوں اور اس کو بڑی چیز سمجھتا ہوں ۔ ان کا کہنا تھا کہ روسیوں نے اپنے آپ کو لا دین بنا کر ہزاروں بلاوں سے بچا لیا ۔ روسی اپنی نئی دنیا اور نئی زندگی بنانا چاہتے تھے اگر وہ دین کا سرے سے انکار نہ کرتے تو ظاہر ہے کہ انہیں کسی نہ کسی دین کو ضرور ماننا پڑتا اور کسی مذہب کے قائد کو اپنا سردار ماننا پڑتا جس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتیں۔
بہرحال یہ چند نکات ہیں جو سرور صاحب نے اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیے ہیں ۔ بلا شبہ مولانا عبید اللہ سندھی ایک عظیم انقلابی تھے۔ آزاد اور بے خوف ذہن اوردور رس جرات مند دل اور بلند حوصلہ رکھتے تھے۔ اسلام اور علوم اسلام کے وسیع اور گہرے مطالعہ ، مسلمانوں کی تاریخ و سیاست کے تنقیدی جایزے اور متعدد ملکوں کے انقلابات کے مشاہدات اور تجربات سے ان کی زندگی بھرپور تھی ۔
مولانا سندھی نے تیرہ سال حجاز میں گذارے ۔ اس دوران وہ عملی سیاست سے بالکل الگ رہے ۔ ان کے تمام سیاسی منصوبے ناکام رہ چکے تھے ۔ چنانچہ مکہ معظمہ میں قیام کے دوران ان کا زیادہ وقت درس و تدریس ، تصنیف اور غور و فکر میں صرف ہوا۔ 24 سال جلا وطن رہنے کے بعد مولانا کو 1939میں وطن واپس آنے کی اجازت ملی جہاں 22 اگست 1944 کو انہوں نے راہ عدم کا سفر اختیار کیا ۔
آخر میں یہ بات میں فخر کے ساتھ کہوں گا کہ میں نے بچپن میں اس عظیم انقلابی کو دیکھا ہے۔
♠
One Comment