آئینہ سیدہ
کسی خاص قوم کے لطیفے سنانا گو کہ ایک بہت ہی گھسا پٹا طریقہ کار ہے اور مجھے ذاتی طورپر اس سے سخت اختلاف بھی ہے مگر کیا کروں کہ موجودہ صورتحال پر بات کرنے کے لیے اس لطیفے کا سہا را لینا بہت ضروری ہے اور اگر اس میں سے ” قومی ٹچ ” نکال دیا جائے تو آپ لوگ بھی لطیفے کے اختتام پر کہیں گے ” پھرکیا ہوا ” ؟
لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک سردار جی صبح دفتر جاتے ہوئےکیلے کے چھلکے پر سے پھسل کر ٹانگ میں فریکچر کروا بیٹھے مہینے بھر میں آرام آیا تو پھر دفتر جانے کے لیے اسی سڑک پر سے گزرے ایک اور کیلے کا چھلکا راہ میں پڑا دیکھ کر نعرہ لگایا کہ ” ہائے گرو جی آج فیر ڈگنا پوؤ گا ( آج پھر گرنا پڑے گا )۔
یہی حال ریاست پاکستان پر نام کی حکومتیں کرنے والی عوام کے کروڑوں وٹوں سے منتخب ہونے والی سیاسی پارٹیوں کا ہے کبھی کسی ایک پارٹی کو یہ کیلے کے چھلکے شاہراہ جمہوریت پر پھسلا کر مہینوں نہیں 11 سال تک فریکچر ہوئی ٹانگ کے ساتھ بستر پر ڈال دیتے ہیں تو کبھی دوسری کو اور یہ “بھولی بادشاہ ” ہر بار چھلکے پر یہ نعرہ لگاتی ہوئی پھسلتی ہیں کہ ہائے رے عوام ! آج تو پھر اس چھلکے پر پھسلنے کی باری آگئی۔
پچھلے تقریبا ” ٦٨ برسوں سے پاکستانی جھنڈے کے سبز رنگ اور سفید رنگ نے وہ “رنگ ” نہ جمایا جو اس جھنڈے میں لگے ڈنڈے نے جمایا اور کیا کمال کی بات ہے کہ آج بھی وہی ڈنڈا اپنے نت نئے” کمالات ” کے ذریعے دور دیس کے لوگوں کو مشرف بہ صدارتی نظام کر رہا ہے۔
آپ ” صرف ” دانشور ہیں تو میری بات کو عامیانہ سمجھ کرطنز” یہ کہہ سکتے ہیں ” تو جھنڈے نے کیا کمال دیکھا دیا تھا ” مگر آپ اگر کسی نیوز چینل پر روزی روٹی کمانے والے سینئیر تجزیہ کار ہیں تو پھر آپ ضرور میرے جملوں کا “ڈایسیکشن” کریں گے کیونکہ اسی بات کے پیسے تو آپ کماتے ہیں بال کی کھال نہیں نکا لیں گے تو شو کیونکر چلے گا اور شو نہ چلا تو اشتہارات کیسے آئیں گے ریٹنگ کا کیا ہوگا ؟؟
خیر ہم بات کر رہے تھے موجودہ حکومت کےکیلے کے چھلکے پر سے پھسلنے کی اور اس بار حکومت اور عدلیہ میں اس بات پر ” کبڈی ” جاری ہے کہ کیلے کا چھلکا شاہراہ دستور پر ڈالا کس نے ؟
پچھلے وقتوں کی کہانیوں میں معزز عدالتیں اس طرح پھسل کرمنہ کے بل گرنے کو بڑے فخریہ انداز سے پیش کرتی تھیں مگر اللہ بھلا کرے ایک “وکلاء نامی تحریک ” کا کہ عدلیہ کو آزاد تو نہ کرا سکی مگر بہت سے پول جو ڈرائینگ رومز میں کھولے جاتے تھے سڑکوں ،بازاروں ، شہروں اور دیہاتوں میں کھل گئے۔
اب ا علی عدالتیں اس “شیخی ” کے ساتھ چھلکے پر سے پھسل کر “واہ کیا زبردست پھسلن تھی ” کے نعرے نہیں لگا سکتیں بلکہ انکی اکثر کوشش ہوتی ہےکہ اپنا ملبہ حکومت وقت پر ڈال دیں اگر تو حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہو تو ملبہ گرانے میں فوج ،سرکاری فائلیں کمر پر لادے سرکار کے نوکر اور بڑے بڑے دھانسو پیکیج سروں پراٹھا ئے میڈیا کے درباری پیش پیش ہوتے ہیں اورجو مسند پر بیٹھی ہو پاکستان کی ایک اور سیاسی جماعت جسکی وجہ سے ہمارے بچوں نے اردو کے حروف تہجی سیکھے ہیں یعنی پاکستان مسلم لیگ ” ن” یا ” ق” تو پھر ایسے میں پھسلنے کا معاملہ ہمیشہ کنفیوژن کا شکار رہتا ہے۔
ہر دو طرف کے پاس میڈیائی مجاہد بھی ہوتے ہیں اور سرکار کےغلام بھی برابر تقسیم ہیں ، زیادہ آبادی کے خوش نصیب ۔علاقے تو ایسے وقت میں خدا کی سب سے بڑی نعمت ہیں کہ انکی بھی تقسیم درتقسیم کی جاسکتی ہے ۔
آج بھی کچھ ایسا ہی معاملہ درپیش ہے حکومت اور عدلیہ نے ایک ساتھ نعرہ لگایا ا ج فیر ڈگنا پوؤ گا ” اور دونوں ہی ایک دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پھسل گئیں ہڈی پسلی کی بچت کا اندازہ تو کچھ عرصے بعد ہی ہوگا فی الحال تو ایک ۔دوسرے پر ملبہ ڈالنے کا کام جاری ہے۔
دلچسپ کہانی یہ ہے کہ کہ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں اس کھیل میں اپنے ہاتھ میں آنے والے سرپرا ئیز بال کومیوزک ختم ہونے سے پہلے پہلے ادھر ادھر اچھال رہی ہیں تاکہ کم از کم جب میوزک رکے تو وہ سرپرا ئیز سوال کا سامنا کرنےسےبچ جائیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو پچھلے پانچ سال کا جواب دینا ہے کہ وہ کیوں ایک ڈکٹیٹرکوکیفرکردار تک نہ پہنچاسکی اور مسلم لیگ نواز کو تین سال کی حکمرانی کے بعد یہ جواب دینا ہے کہ وہ کن وجوہات کی بنا پرایک جمہوری حکومت کے تختہ الٹنے والے، نواز خاندان کو جدہ ڈسپیچ کرنے والے اور “ایمرجینسی پلس ” کے نام کا نیا کارڈ استعمال کرنےوالے فوجی غاصب کو عدالت کے ذریعے کیوں مجبور نہ کر سکی کہ وہ آپنی سچی یا جھوٹی بیماری کا علاج اپنے ملک میں ہی کروائے۔
تیسری سیاسی قوت یعنی تحریک انصاف کے تو کیا ہی کہنے کہ انہوں نے صرف نیوز چینلز کے ذریعے زبان ہلانی ہوتی ہے لمبے لمبے ریٹنگ سے بھرے انٹرویوز ایسے میں نیوز چینلز کے لیے ساون میں آلو بھرے چٹپٹے پراٹھوں کا مزہ دےرہے ہیں۔
عوام ہمیشہ کی طرح رنگ برنگے شوز سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہیں چائے تو کہیں لسی کی چسکیاں لے رہی ہے ۔ہاں اگر دوران سیاسی کبڈی بالفرض کرکٹ تماشہ آجاۓ تو کبڈی میں دلچسپی ماند پڑ جاتی ہے اور اگر ان دونوں تماشوں کے دوران بجلی غایب ہوجائے تو عوام کی ایک بڑی تعداد حکومت سے اپو زیشن اور طاقتور سے کمزور ترین اداروں کے شجرہ نسب کو اس طرح اجاگر کرتے ہیں کہ سننے والا جان جاتا ہے کہ یہ ملک کس “چیز ” میں سب سے زیادہ ترقی حاصل کر رہا ہے ایک بار پھر بجلی آئی اور قوم نامی تماشبین دوبارہ سب کچھ بھلا کر کرکٹ کے رن گننے لگتے ہیں یا سیاسی پارٹیوں کی وکٹیں گرنے کا انتظا ر کرنے لگتے ہیں۔
ایک جماعت کا ذکرتو ابھی ہم نے کیاہی نہیں جو کہ سیاسی قوتوں کو کیلے کے چھلکے پر سے پھسل کر منہ کے بل گرتا دیکھ کر دوپٹہ منہ میں ڈال کر بےتحاشہ ہنستی ہے مگرمجال ہے“وقار” میں کوئی کمی آجائے۔یہ جماعت غیرسیاسی بننے کی اداکاری کرتی ہےمگرخدا جھوٹ نہ بلوائے سیاست کے داؤ پیچ کوئی اس جہاندیدہ بڑھیا سے سیکھے۔
نام ہے تو باوقار، پیغام ہے توبے حد اسلامی… اب رہا کام تووہ بنا کیےبھی ” شکریہ ” کہنے والےلاکھوں نہیں کروڑوں ہیں جنکا تا نتا بندھا رہتا ہے پھر کیا ضرورت ہےاس غیر سیاسی دکھائی دینے والی جہاندیدہ بڑھیا کو کہ جان توڑ محنت کرے ہاں !! اس کا اصل کام تو ہے شاہراہ دستور پرہرچھ ماہ بعد کیلے کے چھلکے پھینکنا اور منتظر رہنا عوام کے منتخب سردار جی کا کہ جنہوں نے ہمیشہ کی طرح نعرہ لگانا ہے
” ا ج فیر ڈگنا پووگا ” اور پھر …..دھڑام سے منہ کے بل
2 Comments