مصطفیٰ کمال اور رؤف کلاسرا کا بھونڈا پراپیگنڈہ

12491863_939910766100245_4230327276596795234_oعظمٰی اوشو


متحدہ قومی موومنٹ ایم کیو ایم کے دو اہم رہنماؤں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے گزشتہ ہفتے کراچی پہنچ کر ایک پریس کا نفرنس کے ذریعے ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی جس میں کا فی حد تک وہ کامیاب رہے جس میں ان کا کمال کم اور الیکٹرانک میڈیا کی ریٹنگ کی دوڑ میں بازی لینے کی خواہش نے زیادہ کام کیا ۔

مصطفی کمال نے اپنی پریس کا نفرنس میں جوانکشافات کرنے کی کو شش کی وہ ان سے پہلے کئی بار کئی دوسرے لوگ بھی لگا چکے ہیں ۔ ہاں یہ بات اور ہے کہ مصطفی کمال نے کئی اداروں کی کریڈبیلٹی پر سوال کھڑے کر دیے ہیں ۔ان کے مطا بق بھارتی ایجنسی را ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو 20 سال سے فنڈز فراہم کر رہی ہے اور الطاف حسین ان فنڈز سے نوجوانوں کو تشدد کی سیاست پر اکسا کر کراچی کا امن خراب کر رہے ہیں ۔

شاید یہ الزامات لگاتے ہوئے مصطفی کمال یہ بھول گئے کے وہ خود بھی پارٹی کی مرکزی قیادت میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی کے مےئر اور سینٹر بھی رہ چکے ہیں اگر ان کے الزامات میں سچائی ہے تو کیا انھیں شریک جرم نہیں کہا جائے گا ،ان کی حب الوطنی جو اتنے برس سو رہی تھی اب اس پر یقین کیسے کیا جا سکتا ہے ۔یہ ایسے سوالات ہیں جنہوں نے مصطفی کمال کی شخصیت کو مشکوک بنا دیا ہے ۔مصطفی کمال نے مزید کمال کرتے ہوئے سابقہ وزیر داخلہ رحمن ملک پربھی الزامات عائد کیے کہ انھیں بھی علم تھا کہ ایم کیو ایم کے رابطے را سے ہیں ۔اور دوبئی میں ہونے والی متحدہ کی ایک میٹنگ جس میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور نے ایم کیو ایم کے را سے روابط کے بارے میں بریفنگ دی تھی اس بریفنگ میں رحمن ملک بھی شامل تھے ۔

یہ ایسے بھونڈے الزامات ہیں کہ جن پر کوئی دیوانہ بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہو گا ۔یہ بات درست ہے کہ سابقہ وزیر داخلہ رحمن ملک کئی بار ایم کیو ایم کی قیادت سے ملے جس کے لیے انھیں پارٹی کی اعلیٰ قیادت ہدایات دیتی تھی اور ان ملاقاتوں کا مقصد محض سیاسی استحکام تھا ۔یہ ملاقاتیں ڈھکی چھپی نہیں ہوتیں تھیں بلکہ اس سے میڈیاسمیت ساری قوم با خبر ہوتی تھی۔اس پریس کا نفرنس کے بعدہمار ے ایک معزز ساتھی کالم نویس روف کلاسرا نے ایک کالم لکھ کر فوری اپنا فرض نبھانے کی کوشش کی ۔

موصوف نے اپنے حالیہ کالم میں رحمن ملک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رحمن ملک نے اپنے دور حکومت میں اپنی وزارت کے سیکریٹ فنڈزسے 50 کروڑ روپے نکلوائے اور انھیں اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کیا جس میں راولپنڈی کے جیولرز سے زیورات بھی خریدے گئے اور اپنے پرسنل سیکرٹری کو بھی کروڑوں روپے سے نوازا گیا جبکہ یہ فنڈز دہشت گردی کے خلاف کرائسیز مینجمنٹ سیل کو دیا گیا تھا۔ یہ کالم پڑھ کر موصوف کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔

وزارت داخلہ کا سیکرٹ فنڈ کو مختلف قسم کی لا بنگ ،انفارمیشن کولیکشن یا ایسے دیگر معاملات پر خرچ کیا جاتا ہے لا بنگ کے لیے کئی بار تحفے تحائف دینے سے سے لے کر بیرون ملک دورے بھی شامل ہوتے ہیں اس فنڈ کے استعمال کو پبلک نہیں کیا جاتا کہ یہ کہاں اور کس پر خرچ ہوا ۔اسی کا لم میں مزید لکھتے ہیں کہ رحمن ملک کے لندن والے فلیٹ کے سامنے بڑے بڑے لیڈرزکھڑے ہوتے تھے اب یہ میری سمجھ سے با لاتر بات ہے کہ اگر پارٹی کی قیادت ان پر اعتماد کرتی تھی اور کرتی ہے تو اس روف کلا سرا کو کیا اعتراض ہے ۔

انہوں نے اپنی کسی دیرینہ خواہش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے رحمن ملک کو سینٹ کی کمیٹی برائے داخلہ کی چیر مین شپ سے ہٹا دینا چاہیے ۔ویسے تو میڈ یا ٹرائل ہردور میں انتہائی بے رحمانہ انداز ہوا مگر روف کلا سرا اس کارخیر میں کچھ زیادہ ہی آگے نظر آتے ہیں ۔سابقہ وزیر داخلہ انتہا ئی زیرک اور معا ملہ فہم وزیر داخلہ رہے ہیں وہ کسی بھی معا ملے کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بناتے تھے بلکہ اس میں ملکی مفا د کو آگے رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ انھیں بیرونی لابی بھی عزت دیتی ہے ۔

سیکرٹ فنڈ میں خرد برد کی بات محض کلاسرا صاحب کا ایکسکلوزو کا لم لکھنے کا شوق پورا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔جس زیور کی بات کلاسرا صاحب کرتے ہیں وہ سابقہ دور میں کچھ غیر ملکی شخصیات کو تحائف دیے گئے تھے جن کا مقصد لابنگ تھا ذاتی مفاد نہیں ۔اسی طرح مصطفی کمال کے الزامات محض پراپیگنڈہ ہیں جن پر تبصرہ کرتے ہوئے چوہدری نثار نے بھی کہہ دیا ہے مصطفی کما ل کے پاس کوئی ثبوت نہیں محض لفا ظی ہے ۔

اس لفاظی کے پیچھے کون ہے ؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ کیا ان الزامات سے سند ھ میں سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ؟اگر ان الزامات کی وجہ سے ایم کیو ایم کے رہنما استعفے دے دیتے ہیں تو یقیناًایک سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا یا ان الزامات سے پرویز مشر ف کی سیاسی پارٹی کے مستقبل کا فیصلہ کیا جانا ہے اور اس کے لیے ایم کیو ایم کو توڑا جا رہا ہے ۔یا پھر الطاف حسین کی خرابی صحت کی وجہ سے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کی دوڑ میں مصطفی کمال کی ناکامی اس کی وجہ بنی ہے ۔

کیا اس پریس کا نفرنس کا مقصد پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور اسٹبلشمنٹ کی ساکھ کو متنازعہ بنانا ہے جنہیں 20 سال پتہ ہی نہیں چلا کہ را کی فنڈ نگ سے ایک سیاسی پارٹی ملک میں کام کر ہی ہے ا ور وہ بھی ایسی پارٹی جو ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کی منظور نظر رہی ہے ۔رہی بات رحمن ملک کی تو پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کا ان پر بھر پور اعتمادبھی ان کے خلاف پراپیگنڈہ کی ایک وجہ بنتا ہے جب کہ اس اعتماد کی وجہ ان کی معاملہ فہمی اور سیاسی شعور ہے سازش نہیں۔ 

One Comment