پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی مداخلت کوئی راز نہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستانی ریاست ہرخرابی کا ذمہ دار را ءکو قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوتی چلی آرہی ہے۔کبھی غفار خان و ولی خان اور کبھی جی ایم سید یا بلوچ قوم پرست یا وہ دانشور جو ایسٹیبلشمنٹ کی دی ہوئی لائن پر چلنے سے انکار کر دیتے، بھارتی ایجنٹ قرار دیئے جاتے رہے۔آج کل الطاف حسین راء سے تعلقات کی بنا پر زیر عتاب ہیں۔
سوشل میڈیا پر کسی نے خوب کہا ہے کہ پاکستان آرمی کے ترجمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آئی ایس آئی دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک ہے مگر اسے پچھلے تیس سالوں میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ الطاف حسین کو را کی مدد حاصل تھی۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ آئی ایس آئی کا نام دنیا بھر میں دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس آئی کو پاکستان میں کھلے عام دندناتے دہشت گرد نظر نہیں آتے جو پاکستانیوں کی جان لے رہے ہیں۔ آج پاکستان کی عوام اسی بہترین اور نمبر ون ایجنسی کی پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔
فوجی ایسٹیبلشمنٹ جب حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے راء پر الزام دھر دیتی ہے۔ بلوچستان میں پچھلے کئی سالوں سے یہی کچھ دہرایا جارہا ہے۔ بھلاہو طالبان کو جو ہر دہشت گردی کی واردات کی ذمہ داری فوری طور پر قبول کرلیتے ہیں وگرنہ ریاست کی کوشش یہی رہی ہے کہ ان دھماکوں کی ذمہ دار ی راء پر ہی ڈالی جاتی رہے۔
جب سے جنرل باجوہ نے فوج کے ترجمان کا منصب سنبھالا ہے پاکستان میں راء کی کاروائیوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حال ہی میں پاک فوج نے بھارتی جاسوس کو بھی گرفتار کر لیا اور اس نے کراچی اور بلوچستان میں کاروائیاں کرنے کااعتراف کر لیا ہے۔
یہ جاسوس بھارتی نیوی کا سابقہ افسر ہے جو ایران میں اپنا کاروبار کر رہا تھا۔اس کی ویڈیو ایک ایسے وقت پر منظرعام پر آئی ہے جب پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم پٹھان کوٹ ایئر بیس کے دورہ پر ہے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں موجودہ حالات میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔
بھارت نے پاکستان کی فوج کے اس دعوے کی تردید کر دی ہے کہ انہوں نے پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ایجنٹ گرفتار کر لیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے، ’’ بھارت کی حکومت اس الزام کو مکمل طور پررد کرتی ہے کہ یہ شخص بھارت کے ایما پر پاکستان میں جاسوسی کر رہا تھا، ہماری تحقیقات کے مطابق یہ شخص ایران میں تجارت کے مقصد سے کام کرہا تھا اور اسے اغوا یا لالچ دے کر لایا گیا ہے‘‘۔ بھارت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نئی دہلی کی درخواست کے باوجود بھارت کو اس شخص تک قونصلر رسائی نہیں دی گئی۔
واضح رہے کہ پاکستان کی فوج کے ترجمان عاصم باجوہ نے ایک پریس کانفرنس میں اس بھارتی ایجنٹ کی ویڈیو دکھائی تھی جس میں وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے اور یہاں علیحدگی پسندوں کو فنڈنگ کرنے کا اعتراف کر رہا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے یہ بھی کہا تھا کہ مہران ایئربیس پرحملےکی منصوبہ بندی اور کراچی میں چوہدری اسلم پر حملے کا بھی ’کل بھوشن یادیو‘ نامی بھارتی ایجنٹ کو علم تھا۔
پاکستان اور بھارت کے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ جنوری کےمہینے میں پاک بھارت سکریڑی خارجہ کے مذاکرات ہونا تھے جو کہ بھارت کی پٹھان کوٹ ائیر بیس پر حملے کے بعد معطل کر دیے گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ ان حملوں میں پاکستان کی کلعدم تنظیم جیش محمد ملوث تھی۔
انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد میں پاک بھارت امورکے ماہر نجم رفیق نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ ایسے واقعات تب ہی سامنے آتے ہیں جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ڈائیلاگ عمل میں پیش رفت ہورہی ہو۔‘‘
بھارت کے نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے بھارت کے سابق سفیر ویویک کٹجو نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے اس ایجنٹ کے اعترافی بیان کی ویڈیوایک ایسے وقت میں دکھائی گئی ہے جب پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم پٹھان کوٹ ائیر بیس کا دورہ کر رہی ہے اور جب بھارت اس حملے کے ماسٹر مائنڈ اور تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر تک رسائی مانگ رہا ہے‘‘۔
واضح رہے کہ پاکستان یہ اعتراف کر چکا ہے کہ پٹھان کوٹ ائیر بیس کے حملہ آوروں میں سے ایک حملہ آور کے موبائل فون نمبر کا تعلق بھاولپور میں جیش محمد کے ہیڈ کواٹرز سے ملتا ہے اور یہ کہ آئی ایس آئی نے مسعود اظہر کو 14 جنوری سے حفاظتی تحویل میں رکھا ہوا ہے۔
نجم رفیق اس حوالے سے کہتے ہیں، ’’ جب بھارت کے وزیراعظم نریندر موُدی پاکستان آئے تو کچھ ہی دنوں میں پٹھان کوٹ پر حملہ ہوگیا جب نیپال میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج اور پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز کے مابین بات چیت ہوئی تواس کے بعد اب یہ خفیہ ایجنٹ کا معاملہ سامنے آگیا ہے، اس سب میں سب سے زیادہ نقصان پاک بھارت ڈائیلاگ عمل کو ہو رہا ہے‘‘۔
انہوں نے پاک بھارت مذاکراتی عمل کے مستقبل کے حوالے سے نا امیدی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک میں بداعتمادی مزید بڑھے گی اور موجودہ واقعات بداعتمادی میں مزید اضافہ کریں گے، ذرا سی امید تھی کہ تعلقات بہتر ہوں گے اب وہ امید بھی ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔
دوسری جانب بھارت کے دفاعی تجزیہ کار اُدھے بھاسکر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں کہا، ’’ ایسا لگتا ہے کہ ’کل بھوشن یادیو‘ نامی اس شخص نے یہ بیان کسی دباؤ میں دیا، اگر پاکستان نے بھارتی ایجنٹ گرفتار کیا ہے تو سفارتی عمل کے تحت بھارت کو اس تک رسائی دینا چاہیے۔‘‘
توقع کی جا رہی تھی کہ پاک بھارت وزرائے اعظم حال ہی میں واشنگٹن میں ہونے والی نیوکلئیرسمٹ کے دوران ملاقات کریں گے تاہم لاہور میں حالیہ دہشت گردانہ حملے اور اسلام آباد میں جاری دھرنے کے پیش نظر وزیر اعظم نے یہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔گمان غالب ہے کہ یہ دورہ منسوخ ہی اس وجہ سے ہوا ہے کہنواز شریف کو ملاقات سے باز رکھا جا سکے کیونکہ پاکستان کی ملٹری ایسٹبلشمنٹ سویلین حکومت کی طرف سے پٹھان کوٹ حملوں کی تحقیقات پر خوش نہیں ہے۔
اس سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی اب امور خارجہ پر پاکستان کے وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کریں گے۔ تجزیہ کار نجم رفیق توقع کرتے ہیں کہ اس موقع پر وہ بھارت کے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں مستقبل کے لائحہ عمل پر شاید کوئی بات کر پائیں۔
ادھے بھاسکر نے مستقبل میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کہا، ’’ بھارت میں اب بھی یہ تاثرعام ہے کہ پاکستان کی ایسٹیبلشمنٹ اب بھی بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات نہیں چاہتی، دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی کے لیے اس بد اعتمادی کو دور کرنا ضروری ہے۔‘‘