گریژن ریاست

ارشد محمود

large-p-16-a


گریژن ریاست وہ ریاست ہوتی ہے، جو خود کو مستقل خطرے میں محسوس کرتی ہے۔چنانچہ ضروری ہوتا ہے کہ ریاست کی باگ ڈور ان ہاتھوں میں ہو، جو جنگ اور تشدد کے ماہرہوں۔ پروفیسر اشتیاق کا کہنا ہے کہ پاکستانی ریاست اس لئے گریژن سٹیٹ ہے کہ وہ سمجھتی ہےکہ اسے انڈیا سے مستقل خطرہ ہے۔

دوسرے پاکستان پوسٹ کلونیل وہ ریاست ہے۔ جس میں ریاستطاقت ور ہے اور عوام کمزور ہیں۔ پاکستان کی بانی سیاسی جماعت مسلم لیگ کو اپنے وطن (ہندوستان) کی آزادی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان کا مسئلہ تو تقسیم تھا۔ انہیں جمہوری سیٹ اپ میں ہندووں کی اکثریت قبول نہ تھی۔ برطانیہ تصور پاکستان کوکمیونسٹ روس کے حوالے سے دیکھتا تھا۔ امریکہ پاکستان بننے کے خلاف تھا۔چرچل کی امریکہ کی نسبت اسٹالن کے زیادہ نفرت تھی۔ امریکہ متحدہ ہندوستان کواپنے سٹیرٹیجک مفادات کے لئے بہترخیال کرتا تھا۔

پاکستان کے امریکہ میں پہلے سفیر اصفہانی کو جناح نے خصوصی ہدایت دی، کہ وہ امریکہ کوقائل کرے کہ پاکستان روس کے خلاف امریکہ کے مفاد میں ہوگا۔ آزادی کے فوری بعد پاکستان نے امریکہ سے جب 2 ارب ڈالر کا اسلحہ مانگا، تو امریکہ نے اس مطالبے کا مذاق اڑایا۔ اور ہمارے مطالبے کا صرف 5 ٪ 1951 میں 10 کروڑ ڈالر کا اسلحہ دیا۔

پاکستان امریکہ کے فوجی بلاکس سیٹو اور سینٹو میں بھی شامل ہوگیا۔ امریکہ نواز پالیسی میں پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت دونوں کا اتفاق تھا۔ لیکن پھر بھی امریکہ کو یہ احساس رہا، کہ جنوبی ایشیا میں اصل پاور بھارت ہی ہے۔ ادھر پاکستانی قیادت کی خوش فہمی تھی، کہ سرحد دہلی سے شروع ہوگی۔۔ ہوا یہ دونوں ملکوں کی سرحد لاہور بنی۔

جب 1948 میں 20 ہزار پختون قبائلیوں کو کشمیری کپڑےپہنا کرکشمیر میں داخل کردیا۔ جو کچھ ہی دیر بعد بھول گئے کہ وہ کشمیر کو فتحکرنے آئے ہیں۔ انہوں نے مال و متاع کی لوٹ مار اور کشمیری عورتوں کی عزتیں لوٹنی شروع کردیں۔ کچھ قبائلی جو سرینگرکے قریب پہنچ گے۔ جب انہوں نے وہاں کے بازاروں میں کھانے پینے کی اشیا خریدیں۔توان میں سے کوئی بھی کشمیری زبان نہیں جانتا تھا۔ ان کو یہ بھی پتا نہ تھا، کہ وہاں ناپ تول کا نظام کیا ہے۔ چنانچہ جلد ہی وہ ایکسپوز ہوگے، کہ وہ کشمیری نہیں۔

سنہ 1965 کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان پر اسلحہ کی پابندی لگا دی، تب ہماری قیادت کو احساس ہوا، کہ صرف امریکہ پر بھروسہ کافی نہیں۔ پاکستان چونکہ کوئی صنعتی ملک نہ تھا۔ چنانچہ پاکستانی ریاست کسی نہ کسی کی کلائنٹ ریاست(پیسے لے کرخدمات دینے والی) بن کرہی زندہ رہ سکتی تھی۔ پاکستان کبھی امریکہ کا کلائنٹ ، کبھی چین کا، کبھی سعودیہ کا۔۔۔ جہاں سے جو پراجیکٹہاتھ لگ جائے، ہماری ریاست پیسوں کے عوض اسے قبول کرلیتی ہے۔ یوں اس نے خود کو برقرار رکھا ہوا ہے۔

افغان جہاد میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی زندگی ملی، اس میں چین اور سعودی عرب کی معاونت رہی۔ ہوا یہ پاکستان کی ساورنٹی (خودمختاری) کمپرومائز ہوتی گئی۔۔دوسرے لفظوں میں پاکستان بکتا چلا گیا۔ نتیجہ یہ ہے، کہ پاکستان نامعقول اور کمزور ریاست ہے۔

ڈاکٹر اشتیاق کا کہنا تھا، کہ اگر ہمیں اتنا ہی مسلم امہ کا خیال ہے۔ تو پھرہمارے زیادہ پیار کا حق ہندوستان کے مسلمان ہونے چاہئے۔ ان کے وطن سے ہماری دوستی ہونی چاہئے۔ پاکستان انڈیا سے1/8 ہے۔ ہم مسلسل جنگی صورت حال رکھ کرپاکستان کو ترقی اور عوام کو خوشحالی نہیں دے سکتے۔

انہوں نے یاد کرایا۔ انسانوں کے درمیان مذہب کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یورپ میں عیسائی قومیں جنگوں میں ایک دوسرے کے کروڑوں لوگ مار ڈالے۔ مشرق وسطیٰ میں مسلمان مسلمانوں کو تاراج کرتے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، چین کبھی اس خطے میں جنگ نہیں چاہے گا۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی کاروباری قوم ہے۔ وہ خطے جہاں جنگیں، تشدد، خانہ جنگی ہو، وہاں بزنس نہیں ہوا کرتے۔

چین کے انڈیا کے ساتھ بھی اسی طرح کے معاشی مفادات اور رشتے ہیں۔اگر پاکستان نے قائم و دائم رہنا ہے۔ تو اسے گیریژن ریاست سے سیکولر، جمہوری، فلاحی ریاست بننا ہوگا۔ کروڑوں لوگ کو تعلیم، صحت کی سہولتیں اور زندگی کو باعزت بنانے والے روزگار کی فراہمی کے بغیر اس ریاست کو کب تک قائم رکھ سکیں گے۔

انہوں نے کہا، کشمیرپاکستان انڈیا تصادم کی اصل وجہ نہیں، محض ایک علامت ہے۔اگر طاقت ہے، تو پھر لے لیتے کشمیر، 70 سال میں جنگوں کے باوجود کشمیر کی ایک انچ زمین فتح نہیں کی۔ مسئلہ کشمیر نفرتوں کو قائم رکھنے کا بہانہ ہے۔ ہمیں مذہبی بنیادوں پر ہندو نفرت کو چھوڑ کر جنوبی ایشیا کی 1000 سالہ مقامی دانش کا ساتھ دینا ہوگا جس کے تحت بھگتی، صوفی، یوگی، بابا نانک کی انسان دوستی کا پیغام تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف کے دور میں انڈیا سے انڈرسٹینڈنگ ہوگئی تھی، کہ 15 سال کے لئے دونوں طرف کے کشمیریوں کو زیادہ سے زیادہ داخلی خودمختاری دے دی جائے۔ اور ان کے آنے جانے کی پابندیاں اٹھا لی جائیں، اور اس کے بعد پھر کوئی فیصلہ کرلیا جائے۔ ان کا کہنا تھا،زندگی اور تہذیب کا مطلب انسانوں کا مل کر رہنا ہوتا ہے۔ لڑنا مرنا نہیں۔ لڑائی اور نفرتیں جہالت ہوتی ہیں۔ انہوں نےمتنبہ کیاکہ ان رویوں نے آج تک انتشار کے سوا دیا بھی کچھ نہیں۔

پروفیسر اشتیاق احمد کے لیکچر سے ماخوذ

2 Comments