بلوچستان اور امن کا سوال 

دوستین بلوچ

12345657_790437957745641_8494803770770281213_n
بد امنی کی وجو ہات جاننے اور ان کے خاتمے کے بغیر کسی بھی قیمت پر امن کے قیام کا نعرہ بظاہر جتنا بھی خوش کن پر جوش اور پر عزم سہی مگر عملی صورتوں میں مطلو بہ نتائج حا صل کر نے میں ہمیشہ نا کام رہا ہے ۔یہ نعرہ عمو می طور پر حکمران قو توں کی طرف سے سا منے آتا ہے، جس کا عملی مظاہرہ ریاستی طاقت و محلاتی سازشوں کے ذرائع کے بے پناہ استعمال کی صورت میں کیا جاتا ہے ،کسی بھی قیمت سے مراد انسا نی نسل کشی و سفاکیت سے لے کر عمو می تباہی و بربادی تک سب شا مل ہے،

لیکن اپنی سر توڑ کو ششوں کے با وجود حکمران و بالادست قو تیں امن کی تعریف اور اس کی حقیقی صورتوں کے بارے میں پائے جا نے والے دہرے معیار کو پو شیدہ نہیں رکھ سکی ہیں ۔حکمرانوں کی نظر میں امن سے مراد ایک ایسی سیاسی و سما جی فضا ء کا قا ئم ہو نا ہے جہاں زیر دست محکوم اقوام و عوام الناس محکو می اور جبرو استحصال کو بلا چوں و چراں قبول کرتے ہوئے حکمرانوں کا شکر بجا لائیں اور ان کے نو آبا دیا تی اقتصادی و سیاسی نظام اور ریاستی ڈھانچے کو چیلنج نہ کریں ۔

قو می و طبقا تی جبرو استحصال پر قائم تمام نظام ہائے حکو مت امن کی اسی تعریف کے قا ئل ہیں ،اور انہی بنیادوں پر ان سامرا جی حکو متوں کا آئینی و قا نو نی اور سیاسی و سما جی اور اقتصادی انصاف کا ڈھا نچہ استوار ہے ، لیکن ماہرین کی ایک بھاری تعداد حکمران و با لا دست قو توں کی اس تعریف و تو ضیح یا تصور کو امن کے منا فی قرار دیتی ہے ۔ ان حلقوں کے مطا بق قو می و طبقا تی جبر سمیت انسان کے ہا تھوں انسان کے استحصال پر قائم معاشرہ ایک پر تشدد سماج ہے ،کیو نکہ سما جی و معا شی عدم مساوات اور جبرو استحصال تشدد کے زمرے میں آتے ہیں اور تشدد زدہ کیفیت کو پر امن تصور نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن بالا دست قو تیں اسے بد امنی تسلیم نہیں کر تیں۔

حکمرانوں کیلئے امن کا سوال تب سا منے آتا ہے جب اس نو آ با دیا تی و حاکما نہ تشدد کیخلاف محکوموں و مظلو موں کی طرف سے مزاحمت کی جا تی ہے اور طاقت کا جواب تحریک کی ہر شکل کی طاقت سے دیا جا تا ہے۔ جوقو می و طبقا تی جبرو استحصال پر قا ئم جغرافیائی ،سیاسی معا شی اور سما جی ڈھا نچوں کے خاتمے پر منتج ہو تا ہے ۔با لا دست قو تیں اس تحریکی عمل کو امن دشمن اور دہشت گرد قرار دے کر کچلنے کیلئے طاقت کا ہر سفا کا نہ ذریعہ بروئے کار لا تی ہیں ۔

مبصرین اور بلوچ سیاسی و عوا می حلقے بلو چستان کو بھی امن کے کچھ ایسے ہی تصورات سے دو چار قرار دیتے ہیں ۔ ان حلقوں کے مطا بق بلو چستان میں جب سے نو آبادیا تی تسلط کا آغاز ہوا ہے تب سے امن کی فاختہ گھا ئل ہو کر یہاں سے پرواز کر چکی ہے ۔ بد امنی کی یہ کیفیت حکمرا نوں کی جار حا نہ پالیسیوں کے نتیجے میں کم ہو نے کی بجا ئے شدت اختیار کر تی جا رہی ہے ،جس کی قیمت حکمران قوتوں نے نہیں بلکہ ہر دور حکو مت میں بلوچ قوم نے ہی ادا کی ہے ۔

یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جا ری ہے ، اور آج یہ نئی انتہاؤں کو چھو رہا ہے ۔اگر رواں صدی کے آ غاز سے جاری بلوچ تحریک کے ابھار کو کچلنے کیلئے اختیار کر دہ حکو متی فکرو عمل کے نتا ئج کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ حکمرانوں ’’ امن ‘‘کے قیام کی جو قیمت بلوچ عوام سے آج و صول کی جا رہی ہے اتنی بھاری قیمت کی مثال ما ضی میں کم ہی ملتی ہے ۔ بلوچ سیاسی حلقوں کے مطا بق یہ قیمت بلو چوں کی ماورائے عدالت اغواء نما گرفتار یوں ،جبری گمشد گیوں ،دوران حراست بد ترین ذہنی و جسما نی تشدد ،حراستی قتل عام اور فورسز کی عمو می کارروائیوں میں شہادتیں ،لا پتہ بلو چوں کی مسخ شدہ لا شوں کی بر آمد گی ،آپریشن کے دوران عام بلوچ آبادی کے گھروں کو اجاڑ نے اور مال و متا ع کو لوٹنے اور تبا ہی و بر با دی کی دیگر صورتوں میں بلوچ قوم سے وصول کی جا رہی ہے ۔

اس کی ایک جھلک سر کاری اعداد و شمار میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جو گذ شتہ سال 2015ء میں بلو چستان میں جاری سیکورٹی اداروں کی کارروائیوں کے متعلق ہے۔ ان رپورٹس کے مطا بق اس سال نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلو چستان میں خفیہ معلو مات پر 1940کارروائیاں وعمل میں لائی گئیں جن میں 9ہزار3 سو 69،افرادکو گرفتار کیا گیا ۔کہا جا تا ہے کہ بلو چستان کی تا ریخ میں ایک سال کے عر صہ کے دوران گرفتاریوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے ۔

حکو مت کے مطا بق گذ شتہ سال 129تشدد زدہ لا شیں بر آمد ہو ئیں جن میں بلو چوں کی تعداد 40بیان کی گئی ہے ،لیکن بلوچ سیاسی و عوامی حلقے اور لاپتہ بلوچوں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما ان سرکاری اعدادوشمار کو اصل حقائق سے بہت کم تر قرار دے رہے ہیں ۔

ادارہ سنگر کے ریکارڈ کے مطابق2015 میں385 بلوچ فورسز کے ہاتھوں مارے گئے،615 بار آبادیوں کو نشانہ بنا کر آپریشن کیا گیا۔ یہ کیفیت نئے سال کے آغاز میں بھی گذشتہ سال سے بد تر نظر آتی ہے جنوری 2016 میں28 بلوچوں کو مارو پھینکو کی پالسیے کانشانا بنا کر ،قتل کیا گیا،334 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا گیا، فروری2016 میں 31 بلوچ ،فورسز کی پاکستان بچاؤ کے تحت اسلامی فوج کی گولیوں کا نشانا بن کر ابدی نیند سلا دئیے گئے،قومی ایکشن پلان تحت347 بلوچ گرفتاری بعد مشتبہ قرار دے کر لاپتہ کر دئیے گئے۔(ادارہ کے پاس اپنی جانب سے شائع کردہ اعداد شمار کا مکمل بائیوڈیٹا موجود ہے اور سرکار کی جانب سے تسلیم کردہ گرفتاریوں کا ریکارڈ اور بیانات بھی محفوظ ہیں)

ان رپورٹس سے ظاہر ہوتا کہ بلوچستان میں سال کا کوئی ایسا دن نہیں گذرا جب بلوچ عوام نے ریاستی طاقت کا سامنا نہ کیا۔ متاثرہ بلوچ آبادی کے مطابق حکومتی کارروائیوں کا نشانہ عمومی طور پر عوام کو بنایا جاتا ہے ، اور بے گناہوں کو حراست میں لے کر غائب کر دیا جاتا ہے ، جن پر عدالتوں میں مقدمات چلانے اور منظر عام پر لانے کی بجائے انہیں تشدد سے شہید اور لاشوں کو مسخ کر کے ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے ، گذشتہ سال بھی جن ہزاروں بلوچوں کو گرفتار کیا گیا ان کی بھاری اکثریت کے بارے میں لواحقین کوکوئی پتہ نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں ۔

متاثرہ لواحقین کا کہنا ہے کہ اگر ان کے پیاروں نے کوئی جرم یا خلاف قانون کام کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے ،چاہے فوجی عدالتیں ہی کیوں نہ ہوں ، لیکن اب تک ان کی فریاد سننے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا ۔ مبصرین کے مطابق طاقت کے بے رحمانہ استعمال اور انصاف کی عدم فراہمی بلوچ سماج میں حکمران قوتوں کیخلاف نفرت اور انتقام کی آگ کو مزید بھڑکا رہی ہے ، جس کا اظہار مزاحمت اور تحریک میں شدت کی نت نئی صورتوں میں سامنے آرہا ہے ۔

لہٰذا ایسی کیفیت میں یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ بلوچستان میں حکمران کسی بھی قیمت پر اپنے مطلوبہ امن کو قائم کر سکیں کیونکہ یہ مثل مشہور ہے کہ جہاں ظلم جبر ،استحصال ،عدم مساوات اور ناانصافی ہو گی وہاں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ حقیقی امن قومی و طبقاتی جبر اور محکومی کے مکمل خاتمے سے ہی ممکن ہے ، جس کا راستہ طاقت کے بے مہاراستعمال سے نہیں بلکہ تاریخی حقائق اور بلوچ قوم کی امنگوں وخواہشات کے مطابق بلوچ مسئلے کے حل سے ہو کر گذرتا ہے۔

Comments are closed.