ڈاکٹر پرویز پروازی
سنہ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک سپیشل کمیٹی کی حیثیت سے جماعت احمدیہ کے من مانے عقائد کی بنا پر احمدیوں کو ناٹ مسلم قرار دیا۔ اس کمیٹی کی ساری کارروائی خفیہ تھی۔ اب آکے عدالت عالیہ لاہور کے حکم پر اسے شائع کیا گیا ہے۔ کینیڈا کے ایک وکیل جناب بشیر احمد خاں نے عدالت عالیہ سے درخواست کی تھی کہ یہ کارروائی شائع کی جائے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے۔ عدالت عالیہ نے درخواست گذار کو ہدایت کی کہ وہ قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ سے رجوع کریں۔
جب سیکرٹری صاحب نے لیت ولعل سے کام لیاتودرخواست گذارنے توہین عدالت کی ایک درخواست دائر کردی۔ اس پر سیکرٹری صاحب نے طویل معذرت خواہانہ خط عدالت عالیہ کو لکھا اور وضاحت کی کہ اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی بہت طویل اور ضخیم ہے اس لئے اس کی اشاعت میں وقت صرف ہورہا ہے۔ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ پریس نے کارروائی کو چھاپنے کے لئے کم وبیش اڑتالیس لاکھ کا مطالبہ کیا ہے۔ سپیکر نے کاروائی چھاپنے کی اور75فیصد اخراجات ادا کرنے منظوری دے دی ہے۔ جونہی کارروائی چھپ جائے گی درخواست دہندہ کو بھجوادی جائے گی۔
قومی اسمبلی کی اس سپیشل کمیٹی کا قیام جون1974میں ہوا تھا مگر اس کا پہلا اجلاس یکم جولائی1974ء کو ہوا جس میں ایک راہبرکمیٹی قائم کی گئی۔ چھ جولائی1974ء کو رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اسی شام سپیشل کمیٹی اجلاس منعقد ہوا جس میں جماعت احمدیہ کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنا تحریری بیان داخل کرے اور اسمبلی کے سامنے امام جماعت احمدیہ اسے پڑھیں۔ پھر کہا گیا کہ اس بیان کی جو جماعت کی اصطلاح میں محضرنامہ کہلاتا ہے، 250نقول مہیا کی جائیں جو مہیا کردی گئیں۔
امام جماعت احمدیہ کا بیان ریکارڈ کرنے کے لئے کمیٹی کا پہلا اجلاس23,22جولائی 1974ء کو منعقد ہوا۔ مگر عدالت عالیہ کے احکامات کے باوجود کہ ساری کارروائی شائع او رمہیا کی جائے جو کاروائی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے شائع کی گئی ہے اس میں22اور23جولائی1974ء کو ہونے والے اجلاسوں کی کارروائی شامل ہی نہیں کیونکہ ان اجلاسوں میں امام جماعت احمدیہ کا محضر نامہ پڑھا گیا تھا جو کارروائی کا حصہ تھا مگر جو کارروائی شائع ہوئی ہے وہ5اگست1974ء سے 7ستمبر1974ء تک کی ہے اور اکیس جلدوں پر مشتمل ہے جس میں اور سب کچھ ہے جماعت احمدیہ کا محضر نامہ موجود نہیں۔
یعنی جرح تو موجود ہے جماعت احمدیہ کا اپنے عقائد کے باب میں بنیادی موقف غائب ہے۔ اگر تو جماعت احمدیہ کے امام نے اپنا بیان اسمبلی کے اجلاسات منعقدہ22اور23 جولائی1974ء کو نہ پڑھا ہوتا تو یہ عذرلنگ تو موجود تھا کہ جماعت احمدیہ کے امام نے توبیان کارروائی کا حصہ بنایا ہی نہیں مگر بیان تو کارروائی کا حصہ تھا اور ہے۔ اس کو نہ شائع کرنے کی وجہ سوائے بدنیتی یا بددیانتی کے اور کیا ہوسکتی ہے؟ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟
ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے جو جناب عنایت الرحمن عباسی نے بیان کی کہ’’جو مواد انہوں نے ہمارے سامنے رکھا ہے ہمارے علمائے کرام پر بہت بڑا دھبہ ہے۔ ایک اتنا بڑا چارج ہے میں سمجھتا ہوں اس چارج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے انہیں عوام کے سامنے آنا چاہئے۔ آپ کے یعنی مفتی محمود صاحب کے جوابات میں نے پڑھے۔ طویل ڈکشنری میں جس طرح انہوں نے اپنے تمام علم کا ذخیرہ اکٹھا کردیا تھا سب میں نے دیکھا، میں نے پڑھا، لیکن کہیں ایک جھلک ان چارجز کی، ان حقائق کی، جو انہوں نے(مرزاناصر احمد) پیش کئے(خدا جانے وہ سچے ہیں یا جھوٹے) اگر وہ جھوٹے بھی ہوں تو میں عقلی طور پر انہیں تسلیم کرتا ہوں۔ اب آپ نے ان کی تردید نہیں کی تو میرے پاس کیا جواب ہے؟‘‘(سپیشل کمیٹی کی کارروائی صفحہ1586اس پر کرنل حبیب احمد صاحب نے ایزاد کیا’’عباسی صاحب جو تقریر فرمارہے ہیں وہ نہایت مدلل اورConvincing ہے اب میں یہ کہتا ہوں کہ وہ ریکارڈ پر آئے گی یہ تاریخ ہے اور ایک اسلامی تاریخ ہے تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے(مرزا ناصر احمد نے) جو جواب یہاں دئے۔ ان دلائل کو زیر بحث نہ لایا گیا؟ ان کے موقف کو جو نہایت خطرناک تھا ان کے جوابات کتابی شکل میں کیوں نہ آئے چونکہ میرا بیٹا اور اس کا بیٹا ہماری نسلوں کی نسلیں بھی ان کو پڑھیں گی ہمارے علماء کے بیانات پڑھیں گے تو وہ اپنے ذہن میں کیا تصورکریں گے‘‘(صفحہ2713)
اس لئے گمان اغلب ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے اسی میں عافیت جانی کہ جماعت احمدیہ کا بیان ہی ریکارڈ سے غائب کردیا جائے۔ عزیزی ڈاکٹر مرزا سلطان احمد نے اپنی کتاب سلسلہ احمدیہ جلد سوم میں جماعت احمدیہ کے محضر نامہ اور اس پر اراکین سپیشل کمیٹی کی ردوقدح پر سیر حاصل بحث کی ہے اور وہی اس کے اہل تھے کہ انہیں جماعت کا ریکارڈ میسر تھا ہم جیسے دو ربیٹھنے والوں کے لئے تو اس کارروائی کے شائع کرنے اور روارکھی جانے والی بددیانتی ہی باعث اذیت اور شرمندگی ہے۔ کیا ہماری قومی اسمبلی کی سپیکر میں اتنی بھی جرأت وحمیت نہیں تھی کہ وہ سچ کو چھاپ دیں؟ سچ کو چھپانا کہاں کی غیر جانبداری ہے؟
29مئی 1974کے حادثہ فاجعہ کے بعد ملک گیر ہنگامے شروع ہوگئے چونکہ یہ سارا کچھ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہورہا تھا۔ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنے نوجوانوں کو متنبہ کیا تھا کہ’’پچھلے جمعہ کے موقع پر بھی میں نے ایک رنگ میں جماعت کو خصوصاً جماعت کے نوجوانوں کو نصیحت کی تھی کہ یہ تمہارا مقام ہے اسے سمجھواور کسی کے لئے دکھ کا باعث نہ بنو اور دنگافساد میں شامل نہ ہو اور جو کچھ خدا نے تمہیں دیا وہ تمہارے لئے تسکین کا بھی باعث ہے صبر اور دعا کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گذارو۔مگر اہل ربوہ میں سے چند ایک نے اس نصیحت کو غور سے سنا نہیں اور اس پر عمل نہیں کیا اور جو فساد کے حالات جان بوجھ کر اور جیسا کہ قرائن بتاتے ہیں بڑی سوچی سمجھی سکیم اور منصوبہ کے ماتحت بنائے گئے تھے اس کو سمجھے بغیر، جوش میں آکر، وہ فساد کی کیفیت جس کے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی،(وہ) مخالفت کی اس تدبیر کو کامیاب بنانے میں حصہ داربن گئے اور فساد کا موجب ہوئے‘‘(سلسلہ احمدیہ جلد سوم صفحہ285)۔
حضرت امام جماعت احمدیہ کی اس بات کی تصدیق سپیشل کمیٹی کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے جناب محمود اعظم فاروقی نے فرمادی۔ انہوں نے کہا’’میں اس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ دو ایک باتوں کا چند منٹ میں ذکر کردوں۔ سب سے پہلے تو میں مرزا غلام احمد کو ماننے والی اس نسل کے نوجوانوں کا بڑا مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمارے طلبہ پر حملہ کرکے اس مسئلے کو جو مسائل کے انبار میں دفن ہوگیا تھا ایک بار پھر زندہ کرکے قوم کے سامنے پیش کردیا ہے اور قوم اس مسئلہ پر اتنی منظم ہوکر سامنے آئی ہے کہ یہ ایوان بھی اس بات پر مجبور ہؤا کہ اس پر صحیح سمت میں کوئی قدم اٹھائے اور میں اس بات پر بھی ان کا مشکور ہوں کہ اس مسئلہ کو زندہ کرکے انہوں نے اس ایوان میں یکجہتی کی فضا پیدا کردی ہے۔‘‘(رپورٹ سپیشل کمیٹی صفحہ2943 )۔
اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ نوجوان جماعت اسلامی کے آلۂ کار تھے اور جماعت اسلامی کے ایک جیدرکن ہی ان کا شکریہ ادا کرکے انہیں خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔اب سپیشل کمیٹی میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے پیش ہونے او رخود اپنا بیان پڑھنے کا تھوڑا سا ذکر ہوجائے۔
سولہ (16)جولائی1974ء کو اسمبلی کے سیکرٹری نے صدر انجمن احمدیہ کو فون کیا کہ جماعت کا وفد امام جماعت احمدیہ کی سربراہی میں اسلام آباد آجائے۔ کل سے قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کارروائی کا آغاز کرے گی۔ اس وقت راستے کی امن وامان کی حالت نہایت مخدوش تھی۔۔۔ اس امر کی کوئی تحریری اطلاع نہیں دی گئی تھی صرف زبانی اطلاع دی گئی تھی ان حالات میں صدر انجمن احمدیہ نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں درخواست کرے کہ وہ اسلام آباد تشریف لے جائیں۔ چنانچہ فون پر سیکرٹری صاحب کو اور سٹےئرنگ کمیٹی کے سربراہ کو خط لکھ کر اطلاع دی گئی۔۔۔ ان سے مطالبہ کیا گیا کہ باقاعدہ تحریری نوٹس بھجوایا جائے، راستے کے لئے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ملٹری اسکورٹ مہیا کرے اور کارروائی کے آغاز کی معین تاریخ کو خفیہ رکھا جائے۔ ہمارے پندرہ مسلح محافظ ساتھ ہوں گے او رآخر میں لکھا کہ ہم آپ کے جواب کے منتظر رہیں گے۔ اس کا جواب 17جولائی کو قومی اسمبلی کے سیکرٹری اسلام اسد اللہ خاں صاحب کی طرف سے یہ موصول ہؤا کہ’’نئی تاریخ22جولائی1974ء رکھی گئی ہے اور اسے خفیہ رکھا جائے گا، اسکورٹ مہیا کیا جائے گا مگر مسلح محافظ ساتھ رکھنے کے بارے میں اجازت اس لئے نہیں دی جاسکتی کہ راستے میں مختلف اضلاع کے مجسٹریٹ نے اپنے اضلاع میں اسلحہ لے کر جانے کی پابندی لگائی ہوگی اور قومی اسمبلی میں اسلحہ لے کر آنے کی اجازت نہیں ہوتی‘‘( سلسلہ احمدیہ جلد سوم صفحہ337-336)۔
قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں محضر نامہ پڑھے جانے کے بعد24جولائی1974کو صدر انجمن احمدیہ کے ایڈیشنل ناظراعلیٰ صاحبزادہ مرزا خورشید احمد نے قومی اسمبلی کے سیکرٹری کو خط لکھا کہ’’اس وقت قومی اسمبلی میں دو موشن پیش کئے گئے ہیں جن میں شاہ احمد نورانی کی طرف سے اور دوسری وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب کی طرف سے پیش کی گئی ہے اگر اس مرحلہ پر کوئی اور موشن بھی ایوان کے سامنے پیش ہوئی ہے جس میں کچھ نئے نکات ہوں تو اس کے متعلق بھی ہمیں مطلع کردیا جائے تاکہ ہم ان کے متعلق بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کرسکیں۔‘‘ اس خط کا جواب قومی اسمبلی کے سیکرٹری کی طرف سے25جولائی1974ء کو آیا کہ’’قومی اسمبلی کی سٹےئرنگ کمیٹی نے آپ کے خط کا جائزہ25جولائی1974ء کے اجلاس میں لیا اور فیصلہ کیا کہ آپ کو ان موشن سے ابھی مطلع نہیں کیا جاسکتا‘‘(سلسلہ احمدیہ جلد سوم صفحہ341)۔ ان دو موشنز کی بازگشت سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے دوران29اگست1974کے اجلاس میں سنائی دی۔
’’مفتی محمود: میرا خیال ہے اس سلسلے میں کہ اس وقت دو تحریکیں آئی تھیں پہلی تحریک جو جناب پیرزادہ صاحب نے پیش کی تھی وہ قرار داد کی صورت میں نہیں تھی اس میں صرف یہ تھا کہ ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والوں کی اسلام میں کیا حیثیت ہے اس پر بحث کی جائے اور دوسری جو ہے وہ قرار داد کی شکل اختیار کرچکی تھی تو میرے خیال میں ساری ایک ہی بات ہے‘‘(سپیشل کمیٹی رپورٹ صفحہ1862) پھر آپ نے فرمایا ’’میں اس میں اپنی پوزیشن واضح کردوں کہ ہم یہاں پر بہ حیثیت گواہ کے جیسے کہ وہ دو فریق پیش ہوئے تھے اس طرح ہم پیش نہیں ہوں گے۔ او رہم اس مسئلہ میں ان کے مقابلے میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کرنے کو تیار نہیں‘‘۔۔۔’’اگر ہم گواہ کے طور پر پیش ہوتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں ہم جج نہیں رہ سکتے او رہم اس میں فیصلہ نہیں کرسکتے۔ جناب چےئرمین نے ایزاد کیا’’کیونکہ وہ گواہ کی حیثیت سے پیش ہوگئے تو پھر وہ دوٹ نہیں دے سکتے‘‘(صفحہ1963) مگر سب کچھ علی الاعلان ہوا۔ مفتی محمود صاحب نے حلف اٹھائے بغیر، جماعت احمدیہ کے خلاف الزامات پر مشتمل کوئی ڈھائی سو صفحات کی کتاب بہ طور گواہ پڑھی او راسے کارروائی کا حصہ بنایا۔ مدعی گواہ بھی بنے او رجج بھی بنے اور ووٹ بھی دیا۔ بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست۔
درحقیقت یہ سارا ڈرامہ محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کو کھیلا جارہا تھا۔ اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی جرح کے طریق سے ہی بتادیا تھا کہ فیصلہ تو ہوچکا ہے اب محض اس فیصلہ کی توثیق باقی ہے۔5اگست1974کی جرح میں ہی یہ بات واضح ہوگئی تھی۔ دیکھئے۔
” Mr. Yahaya Bakhtiar: I am just saying that your religion will not be affected because no body is going to stop you from…..
Mirza Nasir Ahmad: But my religion is affected; and if my religious feelings and passions are affected. My religion is affected.
Mr. Yahya Bakhtiar: Once you are declared a minority, your rights are protrected,Mirza Sahib.
Then he further said,
Mr. Yahya Bakhtiar: If you are not declared a minority, then I am not sure, your rights will be protected.
Mirza Nasir Ahmad: Then we don’t want our rights to be protected”
(Proceedings of the Special Committee P. 130)
عزیز مرزا سلطان احمد صاحب کے سامنے اسمبلی کی کارروائی نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے سلسلہ احمدیہ جلد سوم میں کارروائی کا کیس صحیح خلاصہ بیان کیا ہے۔ (صفحہ351) اور ساری قوم پچھلے اڑتیس سال سے احمدیوں کی حق تلفی کا نظارہ دیکھ رہی ہے وراٹارنی جنرل صاحب کے ارشاد
Your rights are protected
کی داد دے رہی ہے۔
یہ سب باتیں ایک طرف قومی اسمبلی کے سپیکر کی بددیانتی ملاحظہ فرمائیں کہ سپیشل کمیٹی کی کارروائی جولائی کے اوائل سے جاری تھی۔22اور23جولائی 1974ء کو امام جماعت احمدیہ نے خود پیش ہوکر جماعت احمدیہ کا موقف ریکارڈ کروایا۔ اور اسمبلی کے ارباب حل وعقد نے عدالت کے حکم کے باوجود سپیشل کمیٹی کی کارروائی 5اگست1974سے شروع کرکے چھاپی ہے اور عوام کو تاثر دیا ہے کہ سپیشل کمیٹی کی مکمل کارروائی چھاپ دی گئی ہے اور عدالت عالیہ کو یقین دلایا کہ ساری کارروائی چھاپ دی گئی ہے۔ چہ دلاوراست وزدے کہ بکف چراغ دارد۔ یہ تو عدالت عالیہ کا مقام ہے کہ وہ اس بددیانتی کا نوٹس لے مگر ایک عام قاری حکومت کی اس دھوکہ دہی او ربددیانتی پر سربگریباں ہے۔ خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے۔ ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہئے؟
کیا مناسب نہیں کہ جماعت کے محضر نامہ کے اختتام پر بانی سلسلہ احمدیہ کا جوانتباہ امام جماعت احمدیہ نے دہرایا تھا وہ عوام الناس، موجودہ حکمرانوں او ران کے چیلے چانٹوں کے بھی گوش گذار کردیا جائے۔
’’میں نصیحۃ للہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی۔ لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تواختیار ہے کہ آپ مساجد میں اکٹھے ہوکر یا الگ الگ میرے پر بددعائیں کریں اور ردروکر میرا استیصال چاہیں پھرا گر میں کاذب ہوں گا تو ضروروہ دعائیں قبول ہوجائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں۔ لیکن یادرکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑجائیں اور اس قدرو روکر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں او رپلکیں جھڑجائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہوجائے۔۔۔ تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں۔۔۔ کوئی زمین پر مرنہیں سکتا جب تک آسمان پر مارا نہ جائے۔ میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ مجھے خدا سے براہیمی نسبت ہے کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کررہے ہیں میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑسکوں۔۔۔ اے خداتو اس امت پر رحم کر۔ آمین۔‘‘(روحانی خزائن جلد17صفحہ471تا 473)۔
اے کاش قوم کے لوگ سوچیں کہ وہ کس راستے پر چل رہے ہیں۔ ترسم کے بہ کعبہ نہ رسی اے اعرابی۔ کیں راہ کہ می روی بہ ترکستان است۔
احمدی اور پاکستان میں مذہبی امتیاز کی سیاست
♠
One Comment