رزاق کھٹی
پاکستان میں اکثر اتفاق بھی منصوبہ بندی سے ہوتے ہیں!
اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
ممتاز قادری کی پھانسی اور مصطفیٰ کمال کی دبئی سے آمد ساتھ ساتھ ہوئی ہیں۔ دونوں واقعات پر ریاست کا رد عمل حیران کن ہے۔ ممتاز قادری کو ملنے والی حمایت کا تعلق جذباتی دینی دلیل سے جڑا ہوا ہے۔ اور دلیل یہ ہے کہ اگر عشق رسول اللہ میں کسی کو قتل کردیا جائے تو اسے سزا نہیں دینی چاہیئے،
اگر توہین قانون پر نظر ثانی کی بات کی جائے تو وہ بھی توہین کےزمرے میں آتی ہے۔ اور اب تو معاملہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس پر بات کرنا بھی اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کے برابر ہے۔ پاکستان میں مولوی ایک طاقتور سیاسی فریق ہے، اس لیے اسے ناراض کرکے اس طرح کی قانون سازی کا تصور بھی ممکن نہیں۔ حال ہی میں پنجاب میں خواتین کے تحفظ کیلئے بنائے گئے قانون پر مذھبی سیاسی جماعتوں کا ردعمل اس کی واضح مثال ہے۔
ممتاز قادری، جس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس شخص کی جان کی حفاظت کرے، جہاں اسے تعینات کیا گیا ہے۔ لیکن جب اس نے اپنے فرائض کے برعکس اپنے ہی صوبے کے گورنر کو قتل کیا تو وہ نہ صرف ایک مکتبہ فکر کا ھیرو بن گیا، بلکہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت نے اس کے گھر جاکر اس کے والد کو اپنے کندھوں پر اٹھالیا اور انہیں مبارک بادی بھی دی۔
پنجاب ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ شریف سمیت اہم وکلا اس کیس میں ممتاز قادری کے بلامعاوضہ وکیل بنے۔ یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلا، عدالت کے جج کے پاس اس کیس سے صرف نظر کرنے کا کوئی چارہ نہیں تھا، فیصلہ سنایا اور ملک سے فرار کی راہ لی۔ اور کرتا بھی کیا؟
فیصلے کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں گئی۔ فیصلہ یہ آیا کہ اس مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات ختم کردی گئیں۔جس پر شدید تنقید ہوئی، اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر غصے کا اظہار بھی کیا، سپریم کورٹ نے نہ صرف ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کیا بلکہ یہ رائے بھی دی کہ عدالتوں کا کام قانون کی تشریح ہے، دین کی نہیں۔
اس فیصلے کے بعد ممتاز قادری کی جانب سے صدر کو رحم کی اپیل کی گئی، ظاہر ہے کہ اس اپیل میں اس نے اپنے کیے گئے عمل پر ندامت کا اظہار کیا ہوگا اور معافی طلب کی ہوگی، لیکن اب ملک کا موسم کچھ تبدیل ہے، اس لیئے یہ اپیل دیگر رحم کی اپیلوں کی طرح فائلوں کے ڈھیر کے نیچے دبنے کے بجائے مسترد کردی گئی۔ انتہائی خاموشی کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل کیا گیا۔ حکومت کو معلوم تھا کہ اگر اس بارے میں تھوڑی سی بھی خبر عام ہوئی تو ردعمل زیادہ سامنےآئے گا۔
ممتاز قادری کے جنازے میں ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے ، بلاشبہ یہ جنازہ پاکستان کے بڑے جنازوں میں شامل تھا، حکومت پنجاب ، پنڈی میں جمع ہونے والے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد پر پریشان تھی۔ پیمرا نے میڈیا پر پابندی عائد کردی تھی کہ جنازے کی کوریج نہ کی جائے ۔ اس لیے ممتاز قادری کے جنازے میں شامل لوگ پیمرا کے بجائے میڈیا پر اپنا قہر برساتے رہے۔
چونکہ سلمان تاثیر کو قتل تو ممتاز قادری نے کیا ،لیکن سچ یہ ہے کہ اس گناہ کا مرکزی کردار ہمارا میڈیا ہی تھا، جس نے یہ تاثر دیا کہ تاثیر جو کچھ کہہ رہے ہیں اصل میں وہ توہین رسالت ہے۔ جبکہ وہ اس قانون کے غلط استعمال کے خلاف بول رہے تھے۔اگر ہمارے میڈیا میں موجودہ میڈیا مین اپنا کندھا حکمرانوں کیلئے استعمال نہ کرتے اور شریف برادران کیلئے بوجھ بن جانے والے گورنر تاثیر کے خلاف اس طرح کی رائے نہ بناتے تو ممتاز قادری کسی مولوی کی جانب سے جنت کی دی گئی ضمانت پر یہ کام نہ کرتا جو اس نے کیا۔
اس مقدمے میں ممتاز قادری نے اقرار جرم کیا ، لیکن ایک حکمت عملی کے تحت اس مقدمے کی زیادہ تحقیقات ہی نہیں کی گئی، اگر کوئی دوسری ریاست ہوتی تو ضرور وہ اس بات کی جانچ کرتی کہ آخر وہ کون سے محرکات تھے کہ ایک ایسا شخص جس کیلئے بالا افسران پہلے ہی کسی وی آئی پی ڈیوٹی میں اسے تعینات نہ کرنے کہ سفارش کر چکے تھے، اسے سلمان تاثیر کے حفاظت کیلئے مامور کردیا گیا۔اس بات کا بھی پتہ لگایا جاتا کہ اس کا سیاسی فائدہ کس کو ہوا؟
پاکستان کے موجود آئین پر تمام فریقین نے اتفاق کیا تھا، ملک کے لبرل حلقوں کو ابھی بھی یہ شکایت ہے کہ ملک کا آئین جس کا طرح کا ہونا چاہیئے وہ ایسا نہیں ہے۔ موجودہ آئین ملک کے تمام شہریوں کے حقوق اور سرکاری عہدیداران کی ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے، یہ ہی سبب ہے کہ ملک کا ہر ذمہ دار اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنے آئین پر عمل کرے۔ اس ملک کے آئین کے تحت بنے ہوئے قوانین کے تحت جب ممتاز قادری کو اس ملک کی عدالت نے اس کے جرم کی سزا دی تو اسے قانون کے رکھوالوں کے ایک حصے نے عدالتی قتل قراردیا ۔ پاکستان میں ایسا کون شخص ہے جو توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی بات کرتاہو، اصل تنقید تو توہین کے قانون کے غلط استعمال پر ہوتی رہی ہے۔ پنجاب میں خصوصا اس قسم کے قانون کا زیادہ ہی غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ جس پر بھی یہ الزام عائد کیا گیا اس کی بات نہیں سنی گئی،
ممتاز قادری والے مقدمے نے ایک بار پھر اس بات کا شدت سے احساس دلایا ہے کہ ہمارا معاشرہ انتھائی گھٹن کا شکار ہوگیاہے، دلیل کی جگہ بندوق نے لے لی ہے، ماضی میں اسی بندوق کے پیچھے ریاستی ادارے کھڑے تھے،جس نے بندوق پکڑنے والے کو بھی مضبوط کیا،اب صورتحال کچھ تبدیل ہوگئی ہے، لیکن اتنی بھی تبدیل نہیں ہوئی، جتنی ہم سمجھتے ہیں۔
مصطفیٰ کمال دبئی میں بحریا ٹاون کے ملازم تھے۔ بقول ان کے ،کہ وہ ایک آسودہ زندگی چھوڑ کر اپنے لوگوں کیلئے واپس لوٹ آئے ہیں۔ انہوں نے جو باتیں کی ہیں وہ بھی کوئی نئی نہیں ہیں۔ لیکن ان کی ٹائمنگ اہم ہے، الطاف حسین کی شب و روز شراب نوشی کرنے کی باتیں اس سے پہلے بھی مختلف حلقوں میں عام تھیں۔ را کے ایجنٹ ہونے کے الزام ،ماضی میں بھی لگتے رہے۔ جبکہ یہ بات بھی عالم آشکار رہی کہ سی آئی اے نے کراچی کی جاسوسی کا کام برطانوی ادارے ایم آئی سکس کے حوالے کیا اور ایم آئی سکس نے یہ کام ایم کیو ایم کے سپرد کردیا۔
ایم کیو ایم نے ضیا کی چھپر چھایا میں جنم لیا، مشرف نے اسے طاقتور بنایا ، ان دونوں فوجی حکمرانوں کی حکومتوں اور ان کے درمیان کمزور سویلین حکومتوں نے بھی ایم کیو ایم کو اپنا اتحادی بنایا۔ پاکستان میں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس ملک میں اس وقت تک آپکو ایک اچھی ملازمت اور سرکاری سیاسی عہدہ نہیں مل سکتا جب تک ہمارے حساس ادارے اس کی کلیئرنس نہیں دیتے۔ سوال یہ ہے کہ تو پھر یہ سب کچھ اب تک کیوں ہوتا رہا ہے؟ ملک کے سب سے بڑے دشمن ادارے را کے ایجنڈے پر کام ہوتا رہا اور ایم کیو ایم کے لوگوں کو اہم وزارتوں اور عہدوں پر کلیئرنس کیوں ملتی رہی؟
مصطفیٰ کمال کو جنہوں نے متعارف کرایا ان سے دو غلطیاں ہوگئی ہیں، پہلی یہ کہ قومی پرچم کو پارٹی کا پرچم بنانا اور دوسرا صدارتی نظام کا مطالبہ، سمجھنا چاہیئے کہ اس مطالبے کے پیچھے کون ہے،مصطفیٰ کمال، الطاف حسین پر ملک سے غداری کا الزام تو لگاتے ہیں ، لیکن یہ ایسے محب وطن ہیں جو ایک غدار کے خلاف کسی بھی سرکاری کمیٹی کے روبرو پیش ہونے سے انکار کرتے ہیں، دوسری طرف وزیر داخلہ چودھری نثار کا ردعمل بھی حیران کن ہے،انہیں مصطفیٰ کمال کے الزامات کیلئے دستاویزی ثبوت چاہیئٰں، وہ کہتے ہیں کہ زبانی باتوں پر عدالتی کمیشن نہیں بنتے، لیکن ان کی اپنی حکومت نے ایک سال قبل ہی عمران خان کے زبانی مطالبوں پر عدالتی کمیشن بنایا تھا۔
آپکو یاد ہوگا کہ ایم کیو ایم گذشتہ برس بارہ اگست کو سندھ اسمبلی ، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مستعفی ہوگئی تھی۔ اپنے ارکان سے استعفے لینے کا مقصد یہ تھا کہ ایم کیو ایم ٹوٹنے کی طرف جارہی تھی، اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز میں ایم کیو ایم کے ناراض ارکان کے ایک طاقتور دھڑے نے ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی اور سینیٹ کو فارورڈ بلاک کا اعلان کرنے پر راضی کرلیا تھا۔ یہ اطلاع سویلین ایجنسی نے حکومت کو دی اور حکومت نے ایم کیو ایم کی قیادت کو آگاہ کیا۔
نتیجے میں ایم کیو ایم عارضی طور پر جھٹکے سے بچ گئی۔ لیکن نومبر کو ابھی نو ماہ باقی ہیں، اس عرصے کے درمیان بہت کچھ ہونا باقی ہے، اعتزاز احسن نے قومی حکومت کا مطالبہ کردیا ہے اور مصطفیٰ کمال نے صدارتی نظام کا ، ان نو ماہ کے درمیان اور بھی دیگر مطالبات سامنے آنے ہیں، اس لیے انتظار کریں اور دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے؟
♠
One Comment