شب انتظار آخر کبھی ہوگی مختصر بھی

11090944_100750340256913_4314071617144341197_o (1)

رزاق کھٹی

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر، کی سطریں جب فیض صاحب نے لکھیں تو وہ ان دنوں نہ صرف ایک جوان تھے بلکہ حسن جمال کے غلبے کے باوجود وہ انقلاب کے رومانس میں بھی مبتلا تھے،  لیکن محمد موسیٰ جوکھیو نے اس شب گزیدہ  سحر کو اس وقت دیکھا جب وہ نو سال کے تھے، ہندوستان تقسیم ہورہا تھا، جذبہ اسلامی اپنے عروج پر تھا، سندھ نے دو قدم اور بھی آگے بڑھائے، اپنے ہم زبانوں کو کلمہ گو نہ ہونے کی پاداش میں نکالنے کیلئے سندھ اسمبلی سے قرارداد پاس کروائی، اٹھارہ لاکھ سندھی ہندو سندھ چھوڑ کر چلے گئے، ان کی جگہ ہمارے تیس لاکھ مسلمان بھائی سندھ پہنچے، اور آج انہیں سندھ کے بڑے شہر اس لیے چاہیئں کہ وہ مہاجر ہیں۔

 1553360_1675246199427817_3952680891682766661_o

’’ میں پاکستان سے عمر میں نو سال بڑا ہوں‘‘ جب ہندوستان تقسیم ہوا تو میں نیم والے اسکول میں پڑھتا تھا، ان دنوں ہمارے اسکول میں دس اساتذہ تھے، جن میں تین مسلمان، جبکہ باقی سب ہندو تھے، محمد موسیٰ جوکھیو بتاتے ہیں،۔

محمد موسیٰ جوکھیو تقسیم ہند کے بعد سندھ کی سیاسی تاریخ کے ایسے کردار ہیں جنہیں بیک بینچر کہا جاسکتا ہے، وہ ایسے کردار ہیں جنہیں نہ تو خود نمائی کا کوئی شوق ہے ، نہ نام وری کا کوئی جنون، ویسے تو سندھ ، اردو بولنے اور سمجھنے والوں کیلئے مذکر ہے، کیونکہ اس کی مذکریت کے پیچھے اس کا جو صوبہ ہونا ٹھرا، لیکن سندھ ، سندھ کے لوگوں کیلئے مونث ہے، کیونکہ اس خطے کے لوگ اسے ماں کہتے ہیں۔ محمد موسیٰ جوکھیو اس ماں کے ایک ایسے بیٹے ہیں، جن کی عمر اس کی خدمت میں ہی گذر گئی، لیکن ان کے  ساتھ سماجی تعلق رکھنے کے علاوہ باقی کم ہی لوگ انہیں جانتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہیں؟

 گذشتہ ساٹھ سال سے وہ تواتر کے ساتھ نہ صرف ڈائری لکھتے ہیں، بلکہ وہ اس  ملک کے اندر ہونے والے واقعات بھی اپنے نکتہ نظر سے درج کرتے آئے ہیں، ان کے پاس ملکی تاریخ کے اہم واقعات والی اخباری تراشے آج بھی موجود ہیں۔

کمال امروہوی کی جب مینا کماری سے ان بن شروع نہیں ہوئی تھی، اور ان کی پاکیزہ کے ایک لازوال گیت’’ شب انتظار آخر کبھی ہوگی مختصر بھی‘‘ کی شوٹنگ شاید مکمل ہوچکی ہوگی، تو کوئلے پر چلنے والے انجن کی آواز جس طرح پاکیزہ کی صاحب جان کو بے چین کیے دیتی تھے، اسی طرح جوکھیو صاحب کی زندگی بھی بے چین ہے، جسے ایک ایسی ٹرین کا انتظار ہے، جس میں کسی نہ کسی دن ایک ایسا شخص آئے گا،جو صاحب جان کے درد دور کردے گا، وہ وسل ہر رات سننے کو ملتی ہے۔

آج سندھ ایسے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے، جنہوں نے اس کی شکل کو ہی مسخ کردیا ہے، پہلے پختونوں کو بدعنوان کہا جاتا  تھا۔ لیکن آج خود کو بھٹائی اور بھٹو کے رشتہ دار کہلوانے والوں نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا، جب ہوس بڑھ جائے تو شرم جاتی رہتی ہے، یہاں بھی حال کچھ ایسا ہی ہے۔

بدین زیریں سندھ کا آخری ضلع ہے،جس کی حدود رن آف کچھ سے جاملتی ہیں، ایک دور تھا جب اسی رن آف کچھ سے لوگوں کی آمد و رفت رہتی تھی، پھر سرحدیں بند ہوئیں تو ہاتھ بھر کے فاصلوں کیلئے لوگ عمر بھر چلتے رہے لیکن اپنے پیاروں کے چہروں کو ترستے رہے،  امیدیں پوری نہ ہوئیں۔

محمد موسیٰ جوکھیو کے گھر کے افراد کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ ان کی گھر کی خواتین نے پاکستان کی تاریخ کے پہلے احتجاج کی قیادت کی، جو ضیا آمریت کے خلاف اس وقت بدین میں ہوا، جب کسی خاتون کا گھر سے نکلنا کسی قیامت سے کم نہیں ہواکرتا تھا۔ ان کے والد قابل جوکھیو اس پورے علاقے کے متوسط طبقے کے ایک ایسے زمیندار تھے، جن کی اوطاق( بیٹھک) پر یومیہ دو تین درجن مہمان موجود ہوا کرتے تھے، بدین ساٹھ کی دھائی میں کوئی پانچ چھ ہزار نفوس کی آبادی کا چھوٹا سا قصبہ تھا، سندھی کلاسیکی گائیکی کے مہا کلاکار استاد مٹھو کچھی ان کے ہی گاؤں میں رہتے تھے، اس لیے روزانہ ان کی اوطاق پر راگ رنگ کی محفلیں جمتی تھیں، دوردراز سے آنے والے لوگ ان کی محفل میں شرکت کو اپنے لیے باعث فخر محسوس کرتے تھے۔

محمد موسیٰ بتاتے ہیں کہ1981، ضیا شاہی کے جبر کا جوبن تھا،پاکستان کا مطلب کیا پھانسی، کوڑے مارشل لا کے زوردار نعرے دب نہیں سکے تھے، عوامی تحریک کی کوکھ سے سندھیانی تحریک نے جنم لیا تھا، شہید فاضل راہو اپنے جوبن پر تھے، وہ نیلام بند کرو جیسی تحریکوں کی کامیابیوں کی علامت تھے، ان دنوں بغیر برقعے کے خواتین گھروں سے نکلیں اور بدین کے مہران چوک پر ان کے تاریخی احتجاج نے سندھ میں ضیا آمریت کے خلاف جدوجہد میں ایک نئی روح پھونک دی۔

’’ میری بہن عائشہ بھی اس احتجاج میں شامل تھیں، جس نے خطاب بھی کیا، ہمارے گھر کی باقی خواتین بھی نعرے لگاتی رہیں، دوسرے روز جب اخبارات میں اس احتجاج کی خبریں شائع ہوئیں تو ہمارے لئے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ سندھ کے جس علاقے میں ہم رہتے ہیں ،ان دنوں کسی خاتون کا گھر سے نکلنا ہی بڑی بات ہوا کرتا تھا، اور اگر ان حالات میں کسی خاتون کی تقریر کرتی ہوئی تصویر اخبار میں شائع ہوجائے تو اسے روائتی لوگ تو رسوائی ہی سمجھتے تھے۔

کسی نے میرے والد کو وہ اخبار لاکر دکھایا اور اوپر سے یہ بھی سوال کیا کہ آپ اس تصویر کو پہنچانتے ہیں؟ اس روز ہم سارے بھائی بہت پریشان تھے، اپنے طور یہ دعا کرتے رہے کہ خدا کرے کے والد صاحب سامنے نہ آجائیں، لیکن اس روز شام کو گھر میں والد صاحب میری چارپائی پر آئے اور مجھے گلے لگاکر مبارک بادی اور کہا کہ یار تم نے تو وہ کام کردکھایا جو اچھے اچھوں کے بس کی بات نہیں‘‘۔

نیلام بند کرو تحریک آج کسی کو بھی یاد نہیں، لیکن اس تحریک کے روح رواں فاضل راہو تھے، جن کی حکمت عملی اور جدوجہد کے نتیجے میں ایوبی آمریت کو جھکنا پڑا، محمد موسیٰ اس تحریک کا نہ صرف بڑا حصہ تھے ، لیکن اس سے پہلے محترمہ فاطمہ جناح کی الیکشن میں ایک ورکر کی حیثیت میں کام کرچکے تھے، وہ بتاتے ہیں کہ1965 میں ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان مقابلہ ہوا، فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین تھا، فاضل راہو نے تین فٹ کی لالٹین بنوائی اور وہ اپنی جیب کے بونٹ پر لگاکر وہ میگا فون پر مادر ملت کی انتخابی مہم چلاتے تھے، یہ ان  کا ہی کارنامہ تھا کہ ہمارے پورے علاقے میں ایوب خان اور فاطمہ جناح کو برابر برابر ووٹ ملے، نہیں تو باقی علاقوں سے محترمہ جناح کو سرکاری سرپرستی میں شسکت دی جاچکی تھی۔

 کوٹری بیراج ایوب خان کے دور میں تعمیر ہوا، ان دنوں ون یونٹ تھا، مغربی پاکستان کا دارلحکومت لاہور تھا، بدین کے مختلف علاقوں کی زمین ریٹائرڈ فوجیوں کو دینے کیلئے لاہور کے اخبارات میں اشتہارات شائع ہورہے تھے، اور سندھ کے لوگ بے خبر تھے، ان دنوں کامریڈ حیدر بخش جتوئی، کامریڈ نذیر حسین حیدری، رسول بخش پلیجو اور فاضل راہو سمیت ترقی پسند سیاستدانوں کا ایک اجلاس ہوا، جس میں فاضل راہو نے یہ تجویز رکھی کہ گرفتاریاں پیش کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

اس اجلاس میں موجود باقی اکابرین کا کہنا تھا کہ ایوبی مارشل لا میں یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ ہمارا ساتھ دیں اور گرفتاریاں دینے تک آمادہ ہوجائیں، جس پر فاضل راہو بضد رہے اور انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔محمد موسیٰ جوکھیو بتاتے ہیں کہ ہم نے یہ تحریک حیدرآباد سے شروع کی، روزانہ چارلوگ گرفتاریاں دیتے تھے، اس دوران ہم نے کوشش کی کہ خواتین کو اس جدوجہد میں شامل کرنے کیلئے آمادہ کیا جائے، ہم اس میں کامیاب ہوگئے۔

ستر اور اسی سال کی دو بزرگ خواتین نے بھی گرفتاری دی، تو اس کے بعد کالج کی طالبات اور دیگر کالجوں کے طلبا بھی اس جدوجہد میں شامل ہوگئے، صرف تین ماہ میں ایوبی آمریت نے گھٹنے ٹیک دیئے، ون یونٹ کے وزیر مال نے زمینوں کے نیلام کا اعلان بذریعہ ریڈیو واپس لیا اور تمام گرفتار سیاسی کارکنان  کو آزاد بھی کردیا گیا‘‘۔

کامیاب سیاسی جدوجہدو کی تاریخ سینے میں سمائے محمد موسیٰ جوکھیو اب بھی روزانہ ایک درجن سے زائد اخبارات پڑھتے ہیں، ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھتے ہیں، اور پھر تبصرے بازی کی لت اس وقت پوری کرتے ہیں ، جب ان کے ہم پلہ کوئی ان کے ہاتھ چڑھ جائے، لیکن اکثر و بیشر ایسا کم ہی ہوتا ہے، بولتے کم ہیں، لیکن سنتے بہت ہیں، ان  کے حصے میں کتابوں کی دولت آئی ہے، جتنا پڑھتے ہیں، اس کا ایک عشاریہ ایک فیصد بھی لوگوں کو منتقل نہیں کیا۔ ان کے ہم عصر سیاسی اکابرین یا تو شہید ہوگئے یا فطری طور پر اپنے انجام کو پہنچ گئے۔

لیکن ایک نوجوان سیاسی کارکن ان کے اندر میں آج بھی موجود ہے، سندھ کے خلاف ہونے والی کسی زیادتی پر کوئی احتجاج ہو وہ اس میں غیر حاضری کو گناہ سمجھتے ہیں، ایک آزاد  اور انصاف پر مبنی معاشرے کا خواب انہیں سونے نہیں دیتا، وہ ہر رات صاحب جان کی طرح اپنے پاؤں میں سندھ کے عشق کے گھنگرو باندہ کر اس محبوب کا انتظار کرتے ہیں، اور ہر انتظار کا انجام ہر روز اسی دہائی پر ہوتا ہے۔

شب انتظار آخر کبھی ہوگی مختصر بھی،

وہ اسی امید پر ابھی تک خود کو زندہ رکھتے آئے ہیں، امید پرست ہیں، اس لیے زندگی ان کے ساتھ بے وفائی کرنے کو تیار نہیں، ہم دعا کرتے ہیں کہ ان کی چھایا ہمارے ساتھ رہے۔

3 Comments