پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے حکومت کو 27 مارچ تک کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے حال ہی میں پنجاب اسمبلی سے منظور کیے جانے والے خواتین کے تحفظ کے قانون کو مکمل طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مذہبی جماعتوں کے سربراہان کا ایک اجلاس منگل کے روز جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ لاہور میں منعقد ہوا ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن ، جمیعت علمائے اسلام (س) کے مولانا سمیع ا لحق، جماعت الدعوة کے حافظ محمد سعید، جمیعت علمائے پاکستان کے پیر اعجاز ہاشمی، علامہ ساجد میر، ڈاکٹر ابوالخیر زبیر، حافظ عاکف سعید، ابتسام الہی ظہیر اور علامہ سبطین حیدر سبزواری کے علاوہ دیگر مذہبی رہنماوں نے شرکت کی۔
اجلاس کے آخر میں منظور کیے جانے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کے مشورے سے خواتین کے تحفظ کے لیے نیا قانون بنائے۔ نیز خواتین کی حفاظت کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ اجلاس میں حکومت پر یہ زور بھی دیا گیا کہ وہ خواتین پر تشدد کا باعث بننے والے محرکات یعنی غربت، بے روزگاری، جہالت، مہنگائی، منشیات، جہیز کی لعنت اور وراثت سے محرومی جیسے مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرے۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئندہ کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے 2 اپریل کو اسلام آباد میں ہونے والی دینی جماعتوں کی ایک کانفرنس میں لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ تاہم ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جلسوں کے انعقاد کے لیے ایک سٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔
اس اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا، ’’ہم جمہوری لوگ ہیں اور مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر حکومت نے بات چیت کا راستہ اپنایا تو ہم احتجاج کرنے سے پہلے گفتگو کا رستہ اختیار کرکے مسائل کے حل کی کوشش کریں گے‘‘۔
ان کے بقول حکومت میں رہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ’’ہم اپنے تشخص کو ختم کرتے ہوئے حکومت کے تمام غیر قانونی اور غیر اسلامی اقدامات کو بھی تسلیم کر لیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی کے اظہار کے بعد دینی جماعتیں مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کریں گی۔
ادھر پنجاب حکومت نے خواتین کے تحفظ کے قانون میں ترمیم کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے اور اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی ایک کمیٹی مذہبی رہنماؤں سے رابطے کر رہی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک روز پہلے سوموار کے روز اسلام آباد میں ممتاز عالمی ادارے ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل ( ڈی آر آئی ) کے زیر اہتمام ایک دوروزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے پاکستانی عورتوں کو درپیش مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے دور دراز کے علاقوں میں رہنے والی عورتوں کو تعلیم، روزگار اور سماجی رتبے کے لحاظ سے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
مقررین کے بقول اسمبلیوں میں موجود بیشتر خواتین کو بھی مخصوص نشستوں کے ذریعے ہی ان ایوانوں میں آنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول بلوچستان میں عورتوں کو صاف پانی سمیت زندگی کی بنیادی سہولتیں ہی میسر نہیں ہیں۔ اس موقعے پر مقررین نے خواتین کی بہتری کے لیے مزید قوانین بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
DW