ذکی کی نظر ،مشرق اخبار ایڈیشن 11مارچ 2016ء کے رنگین صفحے میں چھپی ایک مضمون کے اُوپر بے اطمنانی سے دوڑتی ہوئی ذیلی عنوان ’’[عورت ]کے تمدنی حقوق‘‘ کے اُپر جاکر رک تو گئی مگروہیں سے اس کی سوچ کئی سال پیچھے جا کر یونیورسٹی کی کلاس روم میں پہنچ گئی تھی جب اُس کے استاد نے ’’اسلام میں عورتوں کے حقوق ‘‘ کے عنوان پر لیکچر دیتے ہوئے یہ جملہ کہا تھا کہ ’’۔۔۔حتیٰ کہ اسلام نے عورت کو یہ حق بھی دیا ہے کہ وہ اپنی شادی کا فیصلہ خود کرے‘‘۔
ذکی اُس وقت بھی یہ سوال پوچھے بغیر نہیں رہ سکا تھا اور آج اخبار کے ان سطروں میں کم و بیش وہی الفاظ پڑھ کر اُسے وہی سوالیہ جملے یاد آرہے تھے جو اس نے اپنے استاد سے پوچھے تھے۔ سوال تب بھی لا جواب تھا اوراب بھی لاجواب ہے۔
’’سر! پلیز آپ یہیں رک کر مجھے کچھ کہنے کا موقع دیں ‘‘
’’کہیں آپ کیاکہنا چاہتے ہیں‘‘
’’سوری سر ! میں نے آپ کی بات کاٹ دی ہے۔ مجھے معاف کیجئے ۔ لیکن آپ سے وضاحت لینا ضروری ہے کہ کیا حقیقت میں اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے؟‘‘
’’بیٹا دیکھئے ‘ میں نے آپ کے سامنے قرآن پاک کی آیتیں پڑھی ہیں اور پاک رسول ؐکی احا دیث کی روشنی میں یہ بات کہی ہے اور میں نے بزرگان دین کی اقوال و اعمال کا بھی حوا لہ دیا ہے۔اور آپ کو کیا ثبوت چاہئے؟‘‘
’’ ہاں سر یہ سب ٹھیک ہے ۔ اور میرا اس بات پر ایمان ہے کہ اسلام نے یہ حق دیا ہے‘‘۔
’’تو بیٹا آپ کو پریشانی کس بات کی ہے؟‘‘
’’سر ! میری پریشانی یہ ہے کہ جب دین میں یہ حق دیا گیا ہے تو ہم اس حق کو عورتوں سے کا ہے کو روکتے ہیں؟‘‘
’’بیٹا میں آپ کی بات سمجھ نہیں پا رہا ہوں ۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’سر! سیدھی سی بات ہے کہ اسلام نے یہ حق دیا ہے لیکن ہم مسلمان یہ حق غصب کر کے گنا ہ کا مرتکب ہو رہے ہیں ۔ اور شاید صدیوں سے اس گناہ کا ارتکاب کرتے آئے ہیں ‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’سر دیکھیں ‘میں ہماری ہی ذندگی سے مثال دیتا ہوں تا کہ بات واضح ہو جائے۔ اس کلاس کے اندر ایک طرف تو ہم لڑکے بیٹھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف لڑکیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ فرض کر لیتے ہیں کہ عین شرعی تقا ضوں کے مطابق ایک لڑکا ایک لڑکی کو رشتے کا پیغام دیتا ہے۔ اب لڑکی کو اس رشتے کے پیغام سے متعلق فیصلہ کرنا ہے ہاں میں یا ناں میں‘‘
’’ہاں با لکل ایساہی ہے ۔ اور یہی حق تو اسلام نے اُس لڑکی کو دیا ہے جس کی بدولت اپنی شادی کا فیصلہ وہ خود کریگی‘‘
’’لیکن سر! آپ جانتے ہیں کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لئے چاہے وہ شادی سے متعلق ہو یا کسی اور معاملے سے‘ کچھ ضروری معلومات اور اعداد و شمار کا ہونا ضروری ہے تا کہ اُن معلومات کی روشنی میں ممکنہ طور پر صحیح فیصلہ کیا جا سکے‘‘
’’ہا ں تو؟‘‘
’’تو سر اُس لڑکی کے پاس اپنی شادی کا فیصلہ کرنے کے لئے ضروری معلومات ہے ہی نہیں تو وہ کس بنیاد پر فیصلہ کریگی؟‘‘
’’ذرا کھل کے بات کرو کہنا کیا چاہتے ہو‘‘
’’دیکھیں سر! شادی کے لئے ہاں یا ناں کا فیصلہ کرنے کے لئے اُس لڑکی کو جو معلومات چاہئے معاشرہ اُن معلومات تک رسائی کی اجاز ت دیتی نہیں ہے تو وہ بیچاری کیسے فیصلہ کریگی؟‘‘
’’میں کچھ سمجھا نہیں‘‘
’’سر دیکھیں یہ یو نیورسٹی بھی تو ایک معاشرہ ہے ناں۔۔۔اس معاشرے میں جس کیقائدے اور اُصول ہم ہی نے بنائے ہیں ایک قائدہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے‘ ایک ساتھ لان میں چہل قدمی نہیں کر سکتے‘ ساتھ کینٹین جا کر چائے کا لطف نہیں اُٹھا سکتے ‘ راہ چلتے سلام دعا تک نہیں کر سکتے ۔۔۔۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’سر !مطلب یہ کہ ہم نے اس معاشرے کے اندر ہمیں ایک دوسرے کو پہچاننے کی اجازت ہی نہیں دی ہے بلکہ ہمیں ایک دوسرے سے فا صلہ رکھنا ہے جیسے ہم ایک دوسرے کے دشمن ہوں‘‘
(قہقہے۔۔۔ )
’’دیکھیں سر! ہم اپنے معاشرے کے اندر جب تک معاشرتی میل ملاپ اور تعلق نہیں رکھیں گے تو ہم ایک دوسرے کو کیسے پہچان پائیں گے ؟ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون کس قسم کی طبیعت اور شخصیت کا مالک ہے؟ گرم مزاج ہے کہ معتدل مزاج ہے؟ فضول خرچ ہے کہ میانہ رو ہے؟ غصے میں کیسا ہے؟گھر میں ماں باپ ‘بہن بھا ئیوں کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟ لالچی ہے یامخلص ہے؟ یہ سب معلومات اگر بہم رسید نہ ہوں تو زندگی کے معاملات کے اُوپر کوئی کیسے فیصلہ کرے چا ہے وہ شادی سے متعلق ہو یا کارو بار سے یاکسی اور معا ملے سے‘‘
’’بیٹا یہ معلومات اُس کو اُس کے والدین اور دوسرے قریبی رشتے دار دے دیتے ہیں اور پھر اُسے سوچنے کا موقع بھی دیتے ہیں ‘ تب کہیں جا کر اُس سے فیصلہ مانگتے ہیں ۔ فیصلہ تو وہ خود کرتی ہے جس طرح اسلام میں کہا گیا ہے‘‘
’’معاف کیجئے گا سر!کیا ہم نے کبھی اس بات کی تحقیق کی ہے یا یوں کہیں کہ کیا ہم نے انسانی نفسیات کو جاننے کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ دوسروں سے حاصل کی ہوئی معلومات سے کس حد تک مطمئن ہو سکتی ہے‘‘؟۔
’’معاف کیجئے گا سر! یہی تو مسئلے کی جڑھہے جس کے پیچھے کا ر فرما فلسفہ یہی ہے نا کہ ہم اپنے بچوں پر اعتماد نہیں کر تے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُن کو دی ہوئی اپنی تربیت سے یہ اُمید نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمارے بچے سنجیدہ سوچ پیدا کر نے کے قابل ہیں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہوگا کہ ہم اُن کے لئے اچھے رول ما ڈل نہیں ہیں جس کی پیروی کرتے ہوئے وہ آزاد ما حول میں اخلاقی حدوں میں رہ سکیں۔‘‘
’’سر! کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم معلومات تک رسائی کا حق اُن سے چھیننے کے بجائے اُن کے سامنے معاشرے میں ایسی زندگی گزاریں جو اُن کے لئے اچھی مثا ل ہو ‘ اورجس سے وہ معاشرے کے اندر رکھ رکھا ؤ کے ڈھنگ سیکھیں۔‘‘
’’معاف کیجئے گا سر! اس کلاس کے لڑکے اور لڑکیاں یونیورسٹی تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی زندگی کی رنگ ڈھنگ سے عاری ہیں تو ہمارا تعلیم بے مقصد ہے‘‘
’’ سر ! میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ انسان اس دُنیا میں رشتوں کی نباہ کے امتحان میں ڈالا گیا ہے۔ یہی نباہ اخلاق کا تقاضہ بھی ہے اور پیمانہ بھی ۔۔۔‘‘
یہاں سے ذکی کی خیالات کا سلسلہ اُس وقت ٹوٹا جب بے وقت کی لوڈ شیڈنگ سے اُس کے کمرے میں اندھیرا چھا گیا تھا ۔ اخبار ایک طرف رکھ کر ہاتھ سے پیشانی کو مانجھتے ہوئے خود سے یہ کہتے ہوئے اُٹھے کہ بھلا کوئی انسان معلومات کی عدم موجودگی میں کوئی بھی فیصلہ کیسے کریگا۔
♣
One Comment