عبد الستار تھہیم
ہم آج جس چھوئی موئی اور کھوکھلی تہذیب سے چمٹے ہوئے ہیں کیا وہ ہماری سماجی خوبصورتی میں اضافہ کرسکتی ہے؟
ہمارے سماج کے تہذہبی عناصر جن کی بنیاد ماضی کے فرسودہ خیالات، مذہبی اساطیریت، معاشی استحصال پر مبنی رشتے ہمارے جینز میں پیوستہ صدیوں کی غلامی اور نفسیاتی خوف و مذہبی جارحانہ رویے جو ہماری محموعی تباہی وبربادی کا بنیادی سبب ہیں۔ ہم ایسی مردہ تہذیب کو لیکر آگے چل سکتے ہیں؟
کوئی بھی تہذیب اس وقت دم توڑ دیتی ہے جب انسانوں کی آزادی فکر کو کچل کر رکھ دیا جائے۔ جنسی آزادی ہی فکری رومان اور سوچ کے دائروں کو وسیع کرتی ہے۔ جنسی گھٹن انسانی ذہنوں کو مفلوج کرکے رکھ دیتی ہے۔ اگر ہم یورپ کی ترقی کا جائزہ تو ہمیں واضح طور پر جمہوری آزادی اور سائنسی ترقی کے پیچھے جنسی آزادی کے محرکات نظر آتے ہیں۔
جنسی آزادی سے مراد بے راہ روی نہیں بلکہ جنسی جذبات کی تسکین حا صل کرنے کے مواقع ہیں جو ریاستی اداروں نے چھین لئے ہیں۔ فطری آسودگی کو گناہ اور ریاستی جرم قرار دیکر انسان کی عظمت اور اس میں چھپے جو ہر کو مار کر رکھ دیا گیا ہے۔ انسانی فکر اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتی جب تک جنسی آزادی انسان کو میسر نہیں آتی۔
انسانی فکر اور جنسی آزادی دونوں لازم ملزوم ہیں اگر انسانی فکر کو مار دیا جائے تو جنسی جذبات بھی مرجاتے ہیں۔ ان دونوں کے مرجانے سے انسانی تہذیب بھی مرجاتی ہے۔ معاشرہ خونحوار درندوں کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ جس کی مثال ہمارے ملک پاکستان میں مذہبی دہشت گردی، خودکش حملے اور اس کے نتیجے میں ہر طرف بکھرے ہوئے انسانی جسم کے لوتھڑے نظر آتے ہیں۔ اگر پہلے دن یعنی قیام پاکستان سے فکری آزادی کا گلا نہ گھونٹ دیا جاتا تو آج ہم ایک پرامن تہذیب میں بس رہے ہوتے۔
یہ درست ہے کہ جاگیر دارانہ اور زمیندارانہ سماج میں آزادی فکر اور جنسی آزادی ترقی نہیں پاسکتی۔ خوشیوں اور لذتوں کا حصول مجموعی طور پر ہوتا ہے نہ کہ چند معاشرہ کے اجاردار طبقوں تک۔ سرمایہ دارانہ سماج نے کسی حد تک انسان کو نہ صرف جنسی آزادی کی سہولت مہیاکی ہے بلکہ انسانی فکر کو بھی غلامی کی گردشوں سے نکالا ہے۔پاکستان کا سماج فکری بانجھ پن کا شکار ہوچکا ہے۔
انسانی انفرادیت ماضی کے قصے کہانیوں کے ساتھ ریاستی جبر میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ جوکہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ جس کی وجہ سے آج ہم شناخت کے بحران سے دو چار ہیں۔ ہمیں اپنی منزل کا پتا معلوم نہیں ہے۔ ہم اندھوں کی قطار بن کر رہ گئے ہیں جو ایک دوسرے کا کندھا پکڑ کر سڑک کے کنارے چلتے ہوئے آواز لگاتے ہیں۔آج ہم مردہ جسم بن کر رہ گئے ہیں۔ جسم میں خون دوڑرہا ہے۔ لیکن شریانیں رگیں بندا ہوچکی ہیں، قومے میں جاچکے ہیں۔
ہمارے سماجی ڈاکٹر ہمارا علاج کرنے سے عاری ہیں۔ ہم زندہ رہیں یا نہ رہیں ایک ہی بات ہے کیونکہ ہم نے خود جبلی خواہشات کوتباہی بربادی کا نام دے دیا ہے اور تباہی وبربادی کے راستے کو فلاح کا راستہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہم نے زندگی کو دوزخ بنا دیا ہے اور دوزخ کے راستے سے جنت کی تلاش میں ہیں۔
زندگی ایک گالی اور گناہ بن کر رہ گئی ہے اور وہ بھی ہم نے خود طے کرلیا ہے کہ اچھا کیا ہے اور براکیا ہے۔ کاش آج ہمارے گلی محلوں میں سقراط، گوتم بدھ، کارل مارکس برٹرینڈرسل اور ژاں پال سارتر بیٹھے ہوتے۔ ہم عقل کے اندھوں کو آزادی فکر اورٖقطری احساسات وجذبات کے فوائد اور زندگی کی حقیقی آسودگی کا درس دے رہے ہوتے۔
لیکن کیوں وہ ہم احمقوں کو علم فکر کا درس دیتے اور نئے نئے فلسفوں سے آگاہ کرتے؟ ہم تو فلسفیوں کے دشمن ہیں،عقل اور غورو فکر کو اپنے عقائد کی تباہی سمجھتے ہیں،ہم دنیا کی خوشیوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ انسانی فکری آزادی کا مذاق اڑاتے ہیں اور ماضی کے فرسودہ خیالات کو مقدس سمجھتے ہیں۔
♦
2 Comments