شہداد بلوچ
جون ایلیا نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ ’’پاکستان یہ سب علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھی ۔ ‘‘ علی گڑھ کے لونڈوں کے وارث جوکہ اپنی تاریخ و آباؤ اجداد سے اس قدر شرمندہ ہیں کہ وہ اپنی جڑوں کو بُھلا کر اپنی شناخت کبھی عربوں، ایرانیوں، افغانوں اور نجانے کس کس میں ڈھونڈتے نظر آتے ہیں ۔ علی گڑھ کے شرارتی لونڈوں کے پوتے نواسے نومولود غیر فطری ریاست پاکستان کے نام نہاد قلمکار و تاریخ دان بن کر مہر گڑھ کی ہزاروں سالہ قدیم تہذیب وتمدن کے وارثوں (بلوچوں ) کوغیر مہذب لکھ کر اپنی احساس کمتری کو چُھپانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔
فرانز فینن ’ نسلی عصیبت اور ثقافت‘ کے موضوع پر خوب لکھتے ہیں کہ ’’ فرد کو منطقی طور پرکمترثابت کئے بغیراُسے غلام بنائے رکھنا ممکن نہیں‘‘
قابض قومیں ہمیشہ محکوم اقوام کو خود سے کمتر ظاہر کرنے کے لئیے مختلف کوششیں کرتی ہیں چاہے تاریخ کو توڑ مروڑ کے مسخ شدہ حالت میں کتابوں میں شائع کیا جائے۔ اخباروں کےذریعے یا پھر ٹی وی کا سہارا لے کر ڈراموں میں محکوم اقوام کو مذاق کا نشانہ بنانا کر اُنہیں غیر مہذب و نیچا دکھایا جاتا ہے اور خود کو مہذب ، اٖفضل و اعلٰی قوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ویسے تو ایسی بے تحاشہ مثالیں موجود ہیں کہ پاکستان کے نام نہاد دانشور بلوچ قوم و بلوچستان کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کررہے ہیں مگر اس کی ایک او ر واضح مثال گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا میں گردش کررہی ہے پنجاب بورڈ کی انٹرمیڈیٹ پارٹ ٹو کی ’’ سوشیالوجی آف پاکستان کی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب میں بلوچ قوم کا تعارف نفرت انگیز طریقے سے مصنف نے کچھ یوں کیا ہے۔
۔۱) غیر مہذب لوگ جو ہمیشہ لڑائی اور مار دھاڑ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
۔۲) یہ لوگ صحراؤں میں رہتے ہیں اور قافلوں کو لوٹتے ہیں ۔
قبضہ گير کا بنيادی فلسفہ اور طريقہ کار يہی ہوتا ہے کہ نفسیاتی جنگ ميں شدت لاکر محکوم قوم کے اندر يہ احساس بڑھ جائے کہ وہ جاہل ٬ بے تعليم ٬ بے ہنر٬ غير مہذب ہے جبکہ آقا جس نے قوم کو غلام رکها ہے وہ تہذيب يافتہ ٬ ترقی يافتہ اور زندگی کے ہر شعبے ميں اعلیٰ ہے ۔ یعنی غلام قوم اپنے آپ کو پيدائشی طورپر محروم تصور کرے۔
بلوچوں کی آزاد ریاست کو قبضہ کرنے کے بعد گذشتہ سرسٹھ سالوں سے مار دھاڑ تو پنجابی قابضین کرتے چلے آرہے ہیں ، گھروں پر بمبارڈمنٹ ، دیہاتوں کو صفحہِ ہستی سے مٹانا ، ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ کرنا، ہزاروں کو حراستی قتل کے بعد اُنکی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنا ۔۔۔۔ریاست کے یہ سارے مکروہ اعمال ،عالمی قوانین و انسانی اقدار سے کوسوں دُور ہیں جو کہ قابض قوم کو کسی بھی طرح مہذب نہیں کہہ سکتی۔
بلوچوں کی سر زمین بلوچستان نہایت وسیع و کشادہ ہے جس میں صحرا بھی ہیں، پہاڑی علاقے ، سمندری علاقے ، چٹیل و سر سبز و شاداب میدان بھی ہیں ، ہمیں اپنی سرزمین کے ہر حصے سے محبت ہے ۔ مصنف اسلام آباد و لاہور کی عالیشان عمارتوں میں بیٹھ کرہمارے ( بلوچوں) بارے میں طنزیہ و حقارت بھرے لفظوں کا چناؤ کرکے فرعون بن کر ہماری زبوں حالی کو نشانہ بناتے ہوئے کہتا ہے کہ بلوچ صحراؤں میں رہتے ہیں۔
مگر موصوف میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ یہ اقرار کرسکے کہ اُن صحراؤں اور پہاڑوں میں رہنے والوں کے قدرتی وسائل کو مصنف کی قوم ( قابض قوم) گزشتہ سرسٹھ سالوں سے لوٹتی آرہی ہے تم جس عالیشان عمارت میں بیٹھ کر صحرا والوں کا مذاق اُڑ رہے ہو وہ بھی اُنہی کے وسائل کو بے دریغ لوٹ کر ممکن ہوا ہے۔
تیس لاکھ معصوم بنگالیوں کا قتلِ عام تم نے کیا تھا بلوچوں نے نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو غیر مہذب کون ہوا؟
تین لاکھ مسلمان بنگالی لڑکیوں و عورتوں کی عصمت دری تم نے کی تھی بلوچوں نے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو غیر مہذب کون ہوا؟
افغانستان کی تین نسلیں و امن تم نے برباد کیا ہے بلوچوں نے نہیں ۔۔۔۔۔۔ تو لڑائی اور مار دھاڑ کرنے والا کون ہوا؟
بھارت میں پراکسیز کے ذریعے شرارتیں تم کررہے ہو ، بلوچ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو امن کا دشمن کون ہوا؟
سندھیوں، پشتونوں اور سرائیکیوں کے حق پر ڈاکہ تم نے ڈالا ہے ، بلوچوں نے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دوسروں کے وسائل کو لوٹنے والا کون ہوا؟
بے سہارا لڑکیوں اور عورتوں پر آوارہ کتے پنجاب میں چھوڑے جاتے ہیں ۔۔۔۔ بلوچستان میں نہیں ۔۔۔۔۔ تو غیر مہذب کون ہوا؟
لڑکیوں کے ناک پنجاب میں چوہدری کاٹتے ہیں ۔۔۔۔۔ بلوچستان میں ماؤں ، بہنوں کو عزت و احترام حاصل ہے ۔۔۔۔ تو غیر مہذب و جاہل کون ہوا؟
کمسن لڑکوں کے ساتھ جسمانی زیادتی کا واقعہ پنجاب کے شہر قصور میں ہوا تھا ، بلوچستان کے شہر پنجگور میں نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو انسانی اقدار سے حاری غیر مہذب کون ہوا؟
ہیرا منڈی بھی پنجاب کے سر کا جھومر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو واقعی میں بہت مہذب و غیرت مند نکلے!۔
مذہبی انتہا پسندی کے مراکز پنجاب میں ہیں، بلوچستان میں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو شدت پسند کون ہوا؟
اپنی شناخت سے تم شرمندہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم بلوچ نہیں!۔
غیروں میں اپنا ڈی این اے تم تلاش کرتے ہو ۔۔۔۔۔۔ بلوچوں کو اپنے قومی شناخت پر فخر ہے۔!۔
تمہاری نصف آبادی عرب، اور بقایا ایرانی، افغان و ترک بننے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ ا ور آپ چلیں ہیں بلوچوں کو تہذیب سکھانے!۔
بیرونی قوتیں جب بھی بلوچ سرزمین پر حملہ آور ہوئے ہیں تو بلوچستان کے بہادر سپوت آخری حد تک اپنی قومی تشخص کے لئیے لڑے ہیں، تُرک ، پُرتگیز، انگریز یا دیگر، بلوچوں نے سبھی سے لڑ کر اپنے وطن کی حفاظت کی ہے تو یہ بات علی گڑھ کے لونڈوں کی باقیات کو بھی سمجھ لینی چائیے کہ ہزاروں سالہ قدیم تہذیب مہرگڑھ کے وارث اپنے سرزمین کی آزادی کے لیےقابض ریاست سے آخری دم تک لڑتے رہیں گے۔
♠
One Comment