شہزاد عرفان
اس تحریر پر بہت سے قارئین اپنی بھنویں ضرور سُکیڑیں گے کہ “ہولی” کے قدیم تہوار کی ابتدا موجودہ سرائیکی علاقے “ملتان” سے کیسے شروع ہوسکتی ہے۔
اس کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں تھوڑی دیر کے لئے مذہب عقیدے اور حب الوطنی کی یک رنگی عینک کو اتار کر ایک طرف رکھنا ہوگا تاکہ تاریخ کے خوبصورت رنگوں سے خود کی اصلی روح کو پہچانا جا سکے۔
تقریباً ساٹھ پینسٹھ سال پہلے تک موجودہ پاکستان کے لوگ ہولی کے تہوار کا بڑی شدت سے انتظار کیا کرتے تھے اور بغیر کسی مذہبی تقسیم کے اس خوشیوں بھرے تہوار کو سب مل کر مناتے تھے ۔تب ہمارا معاشرا مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ واریت کے ناسور سے نا آشنا تھا۔
قبل از تاریخ کے سب سے قدیم زرعی سماج یعنی سرائیکی اور سندھی علاقوں میں خوشی کے موقع پر ایک دوسرے کو رنگنے کا رواج آج بھی عام ہے۔ شہری آبادیوں کے غیرفطری کاسمیٹک ماحول کو چھوڑ کر دور دیہات کے زرعی سماج کو دیکھیں تو خوشی کے کسی بھی موقع پر رنگ پاشی ضرور کی جاتی ہے جس میں شادی بیاہ، بچے کی پیدائیش، میلے ٹھیلوں پر کُشتی، کبڈی، بیلوں کی جوڑی کی دوڑ پر جیت کی خوشی، زمین یا جانور کی خریداری پر سب مل کر ناچتے گاتے ایک دوسرے کو رنگتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔“شالا رنگ لگے، بھاگ لگن چوکھا تھیویں ” ۔۔۔۔۔۔
بچپن میں جب بھی کسی بزرگ بوڑھے سے سامنا ہوتا تو سب سے پہلے الفاظ جو کانوں میں پڑتے وہ یہی ہوتے جس کی اس وقت بالکل سمجھ نہیں آتی تھی۔
بنیادی طور پرانسان معاشروں کے اجتماعی تہواروں کی ابتدا مذہبی رسوم سے شروع ہوتی ہیں جس میں اکثرعقیدت پسندی کی اجتماعی عبادات ہیں مگر کُچھ اجتماعی رسومات کا تعلق عوام کے ثقافتی اظہاراورآپسی خوشی کے بیانیہ سے جُڑا ہے ۔ اس میں موسموں، فصلوں کی کٹائی، بجائی ، مقامی ہیروز کے تہوار وغیرہ شامل ہیں جو میلوں کی شکل میں موجود ہیں ۔ ہولی، موسم خزاں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے موسم بہار پھاگن مہینے کی پورنیما کو منایا جاتا ہے اور یہیں سے سال کی ابتدا بھی ہوتی ہے۔ یہ تہوار دو روز تک چلتا ہے۔ پہلے دن کو ‘‘ہولیکا’’ جلائی جاتی ہے جسے ‘‘ہولیکا دہن’’ بھی کہتے ہیں اور دوسرے دن کو ‘‘دھول وندن’’ کہا جاتا ہے۔
ہندوستانی قدیم معاشروں کی ابتدائی تشکیل میں بیشک مذاہب کا کلیدی کردار رہا ہے مگر جیت ہمیشہ بلآخر ثقافتی حسن اور سیکولر نظریات کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے آرٹ، ادب، فلسفہ اور دیگر علوم کے ارتقاء کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں صنعت و حرفت میں تبدیلی اور ترقی نمائیاں ہوئی ہے وہاں مذہبی تہواروں اور ثقافتی تہواروں کےدرمیان ایک واضح بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے ۔
اس تبدیلی سے کم ازکم ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ مذہب اور عقائد کے جذباتی اجتماع انسانی خوشی کی بنیاد نہیں بن سکتے بلکہ یہ خوف، تشدد اور سزا پر مبنی ہیں جن سے انسانی خوشی کوکسی طور نہیں جوڑا جا سکتا جبکہ ہولی دراصل انسانی رشتوں میں پیار، محبت کے آپسی بندھن کا اظہار اور اسکی خوشی منانے کا تہوار ہے۔
ہولی منانے کا تعلق صرف ایک ثقافتی رسم کو پورا کرنا نہیں ہے بلکہ اس میلے کو منانے کا مقصد اپنے ماضی میں کئے گئے غلط کاریوں کی معافی، ایک دوسرے کے ساتھ من مٹاؤ، کدورتیں نفرتوں کی توبہ، ایک دوسرے کو معاف کرنا اور خاندانوں میں نئے افراد کے اضافہ پر خوش آمدید کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
اب اگر ہولی کے تہوار کو قدیم تاریخی ماخذات کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں سوائے لوک قصوں اور بنیادی مذہبی کتابوں کے علاوہ ملتان کے قدیم قلعہ پر واقع “پراہلادا” کے مندر کے سوا اور کوئی ماخذ نہیں ملتا اوران تاریخی حوالاجات کی روشنی میں ہولی کھیلنے یا منانے کا تعلق صرف ملتان کی جنم بھومی سے ہی بنتا ہے جو کسی مذہبی رسم سے ہرگز نہیں جُڑتی۔
اب یہ الگ بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تاریخی اور فطری حقیقی واقعات کو عوام ظالم حکمرانوں کے ڈر اور خوف سے عقیدوں اور غیر فطری مافوق الفطرت کرداروں میں ڈھال لیتے ہیں جو بعد میں مذہبی کتب کا مواد بن جاتے ہیں ۔
قدیم ملتان شہر جو کبھی ہندوستان کی ایک عظیم الشان سلطنت ہوا کرتا تھا جہاں سے وید اشلوک، عقائد، مذاہب، ثقافت، فلسفہ علم وہنر، ادب اور رسوم و رواج جنم لے کر پورے ہندوستان میں پھیل جاتے تھے، وہیں سے ہولی کا تہوار ایک نیک دل عادل بادشاہ “پراہلادا” کے آگ کے دہکتے ہوئے الاؤ میں سے زندہ بچ جانے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
یہاں ہمیں ایک نیک دل انصاف پسند عوام دوست دانش مند حکمران “پراہلادا” کا اپنی عوام سے گہرا تعلق دکھائی دیتا ہے جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔
اس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جس ہولی کے تہوار کو ملتان کی عوام نے سینکڑوں سال پہلے شروع کیا تھا وہ آہستہ آہستہ پورے ہندوستان کی عوام کا خوشی کا بیانیہ اور اظہار بنتا چلا گیا جو آج کم و بیش یوروپ، جنوبی و شمالی امریکا اورافریقہ کی ریاستوں میں بطور خوشی کے تہوار منایا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ رنگ و نسل، قوم وطن، مذہب سے آزاد ایک اجتماعی بین الاقوامی خوشی کا یونیورسل بیانیہ اور اظہار بن چکا ہے۔
♣
14 Comments