امریکی شہر لاس اینجلس میں منعقدہ 88ویں اکیڈمی ایوارڈز میں پاکستان کی معروف ہدایت کارہ شرمین عبید چنائے کی مختصر دورانیے کی فلم ’آ گرل اِن دا ریور: دا پرائز آف فارگیونس‘ بہترین دستاویزی فلم کی کیٹیگری میں انعام جیتنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
شرمین عبید کی اس موضوع پر بنائی جانے والی فلم کا مقابلہ چار دیگر فلموں سے تھا۔
اکیڈمی ایوارڈ کی بہترین دستاویزی فلم کا اعزاز حاصل کرنے کی حقدار قرار پانے والی اس فلم کا موضوع پاکستانی قدامت پسند معاشرے میں صدیوں سی چلی آ رہی ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کی روایت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس انعام پر دو قسم کا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مذہبی و رجعت پسند حلقوں نے اس انعام کی شدید مذمت کی ہے اور اسے پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش قراردیا ہے جبکہ روشن خیال طبقے نے اس کامیابی پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔
تجزیہ نگار وسعت اللہ لکھتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ اعزاز ات باعث شرم اور قتل باعث فخر ہے۔سینئر اداکارہ ثمینہ پیر زادہ نے شرمین عبید چنائے کو آسکر ایوارڈ جیتنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آج سے ہم عہد کریں کہ کسی ڈرامے میں خواتین پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے نہیں دکھائیں گے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اداکارہ ثمینہ پیر زادہ کا کہنا تھا کہ شرمین کے ایوارڈ جیتنے پر بہت خوشی ہوئی ہے مسئلے اجاگر کرنا ہمارا اور انہیں حل کرنا حکومت کا کام ہے۔ محبت ورواداری کے رشتوں میں تشدد نہیں ہونا چاہیے ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم آج سے کسی ڈرامے میں کسی عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے نہیں دکھائیں گے۔
شرمین عبید کی یہ دوسری فلم ہے جسے آسکر انعام سے نوازا گیا ہے۔ ’’ غیرت کے نام پر قتل‘‘ کے موضوع پر فلمیں بنا کر شرمین عبید نے ساری دنیا کی توجہ اُس اہم معاشرتی مسئلے سے پر مرکوز کروا دی ہے، جو بہت سے دیگر قدامت پسند معاشروں کی خواتین کے ساتھ ساتھ پاکستانی عورتوں کا المیہ بھی ہے۔
شرمین عبید نے اتوار کو لاس اینجلس میں ہونے والی آسکر ایوارڈز کی شاندار تقریب سے چند دن پہلے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات بھی کی تھی اور اس بات چیت میں شرمین نے وزیر اعظم پاکستان سے کہا تھا کہ انہیں معاشرے میں پائی جانے والی ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کی فرسودہ روایت کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہییں کیونکہ یہ مسئلہ عالمی سطح پر بھی غیر معمولی توجہ کا حامل بن چُکا ہے۔انہوں نے کہا انھوں نے کہا کہ اسلام میں غیرت کے نام پر قتل کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور حکومت ایسے ظالمانہ اور غیر انسانی واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔
گزشتہ روز شرمین کو ملنے والا یہ ایوارڈ اُن کے کیریئر کا دوسرا اکیڈمی ایوارڈ ہے۔ انہوں نے 2012ء میں دستاویزی فلم ’سیونگ فیس‘ کے لیے بھی آسکر ایوارڈ جیتا تھا۔
اس بار اپنی مختصر دورانیے کی فلم ’آ گرل اِن دا ریور: دا پرائز آف فارگیونس‘ کے لیے آسکر انعام حاصل کرتے ہوئے شرمین کا کہنا تھا، ’’جب پُرعزم خواتین اکٹھی ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ شرمین نے اس موقع پر تاہم اپنے ملک کے بہت سے بہادر مردوں کی تعریف بھی کی۔
انہوں نے کہا، ’’میرے والد اور میرے شوہر جیسے مرد قابل تعریف ہیں۔ یہ خواتین پر تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کے لیے زور دیتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ معاشرے میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ انصاف ملے۔‘‘
شرمین کی یہ فلم ایک 19 سالہ لڑکی صبا کی کہانی ہے، جسے اس کے رشتے داروں نے غیرت کے نام پر قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایک لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش میں صبا گھر سے بھاگ گئی تھی جسے پکڑ کر اُس کے گھر والوں نے اُسے زد و کوب کرنے اور گولی مارنے کے بعد مردہ تصور کرتے ہوئے دریا میں پھینک دیا تھا مگر وہ معجزانہ طور پر بچ گئی تھی۔ گولی صبا کے سر کی بجائے اُس کے گالوں پر لگی تھی۔ وہ نہ صرف بچ گئی بلکہ ہمت کر کے وہ پولیس تک پہنچ گئی۔
تاہم پاکستان میں رائج ایک متنازعہ اسلامی قانون کے تحت قتل کا جرم کرنے والے مردوں کو مقتول کے گھر والوں کی طرف سے خون بہا کی رقم مل جانے پر معافی کی صورت میں سزا سے بچنے کا موقع مل جاتا ہے۔
♠
News Desk