سبط حسن
وادئ سندھ کی قدیم تہذیب میں زندگی کی رفتار کا انحصار بیل پر تھا۔ ان کے ہتھیار کانسی کے تھے۔ کھیتی باڑی کے اوزاروں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر مؤثر ہوں گے۔ انہی دو چیزوں نے ان کی زندگی کی حدود طے کردی تھی۔ انہی پر ان کی اقتصادی وسعت، روزمرہ زندگی اور نفسیاتی خدوخال کا انحصار تھا۔ ایک مقام ایسا آیا جب وادئ سندھ کے لوگوں کی ترقی رک گئی۔ ترقی کا رک جانا محض مادی اشیاء سے متعلق ہی نہ تھا بلکہ معاشرتی رویوں اور زبان تک میں جمود آگیا۔ اس جمود کو آریاؤں نے توڑا۔ وہ اس علاقے میں گھوڑا اور لوہالے کر آئے۔ لوہے کے جارحانہ ہتھیار سے لیس جب کوئی شخص گھوڑے پر بیٹھا، سرعت سے حملہ کرتا ہوگا تو اس کی دہشت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بیل او رکانسی کے ہتھیاروں والے اس یلغار کے سامنے کتنے بے بس ہوتے ہوں گے۔
آریاؤں نے گھوڑے اورلوہے کی مدد سے اقتصادی حدود کو توڑا۔ نئی معیشت قائم کی۔ نئی زبان پیدا ہوئی اور زندگی گزارنے کے نئے طریقے اور خیالات پیدا ہوئے۔ زمین پر نیا نظام بنا تو اس کا عکس آسمانی دنیاؤں پر بھی ہوا۔ نئے مذاہب پیدا ہوئے۔ آریاؤں نے جو زرعی معیشت قائم کی، اس سے مقامی اور باہر سے آئے حکمرانوں نے فائدہ اٹھایا۔ مختلف علاقوں سے آئے حکمرانوں نے اپنی حکومتیں قائم کیں۔ یہ نظام سترویں صدی کے وسط تک اپنی ترقی کی حدود کو چھونے لگا۔ زرعی معیشت کو جو ٹیکنالوجی میسر تھیں، ان کے استعمال کا نقطۂ اختتام آن پہنچا تھا۔ اس اختتام کے ساتھ ساتھ زندگی سے متعلق نظریات، زبان، ثقافت اور خود انسان کا اپنے بارے میں نظریہ بھی ایک مقام پر آکر رک گیا۔
اس جمود کو ان لوگوں نے توڑا جو اٹھارہویں صدی میں شروع ہونے والے سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کے نمائندے تھے۔ اس تبدیلی کے تحت ریاست کا نظام بدلا، انسانی محنت اور زمین قابل فروخت جنس بن گئے۔ اس طرح انسان کا زمین سے اور دوسرے انسانوں سے تعلق بدلا بلکہ خود اپنے بارے میں تصور اور خیالات بھی بدلے۔ زندگی اور ثقافت کے میعار بھی تبدیل ہوگئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کے تحت دنیا میں ایک نظام سیاست و اقتصادیات قائم ہوا۔ اسی نظام کے تحت تعلیم کے معیار طے ہوتے ہیں اور انسان ہونے کی ترکیب بنائی جاتی ہے۔ اس نظام کے قائد وہ ممالک ہیں جو اس انقلاب کو جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
II
انیسویں صدی کے وسط میں سرسید احمد خاں دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کررہے تھے۔ اسی لئے انہوں نے جدید تعلیم کو اپنانے اور مذہب کو جدید سائنس سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اس سے متعلقہ فکر ونظر کو وسعت دینے کی کوشش کی۔ ان نظریات کو اپنانے سے دقیانوسیت کا تدریجاً خاتمہ ممکن تھا مگر مسلمانان ہندوستان کے جذباتیت پر مبنی مزاج نے اس عقل پسندی کو رد کرکے اقبال کی شاعری کو اپنا لیا۔ اس شاعری کا مسلمانان ہندوستان کے جذباتی مزاج سے تال میل قائم ہونا قدرتی تھا۔ اتھلی جذباتیت کی جڑیں ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے میں تھیں۔ شکست کو کھلے دِل اور عقل سلیم سے قبول نہ کرنے کی بجائے معذرت خواہی کو وطیرہ بنالیا گیا۔
اس ضمن میں مسلمان حکمرانوں کی عظمت رفتہ کے قصّوں کو دہرایا گیا۔ امت مسلمہ جیسے غیر تاریخی اور غیر حقیقت پسندانہ خیالات کی ترویج کی گئی۔ خلافت جیسے معاملات پر سیاست چمکائی گئی۔ حقیقت یہ تھی کہ یہ سب معاملات محض خیالات میں وجود رکھتے تھے، جاری تلخ حالات سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے بچے اپنے لڑکپن میں ایک دوسرے کو چڑانے کے لئے گھر میں پڑے بانس کی لمبائی پر اترانا شروع کردیں۔ یہ سب جذباتیت تھی اور اس کا تعلق خود حفاظتی نفسیات سے ہے۔
III
خود حفاظتی نفسیات ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی شخص کے دماغ پر چوٹ لگ جانے سے اس کا جاری دنیا سے تعلق ختم ہوجائے۔ وہ اپنی یادداشت میں موجود باتوں کو ہی حقیقت مان لے اور انہی کو اپنی زندگی سمجھ لے۔ اجتماعی طور پر گروہی سطح پر بھی لوگ جب ایسی نفسیاتی کیفیت میں زندہ رہنا شروع کردیں تو اس طرح کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔
1۔ روایات، مخصوص تاریخی تناظر میں اجتماعی تجربے میں پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی یہ کہ زندگی کے مخصوص انداز مخصوص اقتصادی تگ ودو کے تابع ہوتے ہیں۔ جب ایک لمبے عرصے کے لئے یہ نظام مؤثر طور پر چلتا رہے تو مؤثر روایات جنم لیتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے مثالیں دی گئی ہیں کہ کوئی بھی اقتصادی نظام اپنی استطاعت کے مطابق ایک نقطۂ عروج پر آکر رک جاتا ہے۔ اسی نقطے پر روایات جو اس مخصوص نظام سے پھوٹتی ہیں، بھی ضرب المثل یا اقدار کی صورت میں نقطۂ عروج حاصل کر لیتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی روایات اور اقدار اس مخصوص نظام میں رہنمائی کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ جب اس نظام کا خاتمہ ہوجائے اور اس کی جگہ پر ایک نیا نظام مؤثر جگہ بنالے تو وہ اقدار اور روایات رہنمائی سے قاصر ہوجاتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں انسانی ترقی، خود انسان کی تشریح اگران روایات واقدار پر کی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ انسانی زندگی کو واپس ماضی میں جکڑنے کی سعی کررہے ہیں۔ یہ ممکن نہیں۔ انسان نے بہرکیف زندگی تو گزارنا ہی ہے۔ اگر قدیم فرسودہ اور بے اثر روایات کے مطابق اسے ڈھالنے کی کوشش کی جائے گی تو وہ ذہنی طور پر تقسیم ہوجائے گا۔ اس کی شخصیت متضاد حصوں میں بٹ جائے گی۔ اس صورتحال میں وہ جدید ترین زندگی اور اشیاء تو استعمال کرے گا مگر ذہنیت قدامت پرستانہ رہے گی۔
2۔جب نیا نظام پرانے نظام کی جگہ لیتا ہے تو نیا نظام نہ صرف نئی روایات واقدار پیدا کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھ نیا علم بھی لاتا ہے۔ اسی علم کی بنیاد پر تبدیلی او رتبدیلی کے عمل میں لوگوں کے مستقر کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ سابقہ نظام کے لوگ اگر تبدیلی کے وسیع ترعمل کو تسلیم کرلیں تو وہ اسی علم کی بنیاد پر اس نئے نظام کے حصے دار بن سکتے ہیں۔ اس کے لئے بنیادی بات یہ ہے کہ وہ کسی قسم کی گھبراہٹ یا جذباتیت سے قطع تر کھلے دِل سے اپنی حیثیت پر سوال اٹھائیں۔ ان سوالات کے جوابات تلاش کریں۔ اس عمل میں ایک نیا علم پیدا ہوگا۔ یہ نیا علم اس گروہ کے لئے مخصوص علم کا درجہ رکھتا ہے اور اس کی بدولت مستقبل میں راہ بھی تلاش کی جاسکتی ہے۔ سوالات کرنے کا عالم یہ ہے کہ ہمارے امتحانی نظام میں 98فیصد سوالات صرف رٹے ہوئے جوابات دینے تک محدود ہیں۔ یہ اسی روایت پسندی کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں حافظے کی صلاحیت اہم ہے نہ کہ تحقیق کی لگن۔ حافظے کا تعلق ماضی پرستی سے ہے۔
3۔ اگر کوئی شخص طے شدہ طور طریقوں سے ہٹ کر کام کرے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ خواجہ سراؤں کی تضحیک اس لئے کی جاتی ہے کیونکہ وہ جنسی تقسیم کے مقررہ ضابطوں پر پورا نہیں اترتے۔ اگر کوئی بزرگ شوخ رنگوں والی قمیض پہن لے تو ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔ اگر مذاق نہ بھی اڑایا جائے تو کم سے کم جملہ معترضہ تو ضرور کسا جائے گا۔ بلکہ یہاں تک کہ کوئی شخص چلتا چلتا گرجائے تو لوگ ہنس دیں گے۔
معاملہ یہ ہے کہ تضحیک، طنزومزاح یا لطیفہ بازی دراصل طے شدہ اسلوب زندگی اور مزاج کی حفاظت کا ایک طریقہ ہے۔ آپ اگر طے شدہ طریقوں سے انحراف کریں گے تو تضحیک کو بے اثر کردیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ تبدیلی لاکر ہی دم لیں گے۔ مگر دونوں صورتوں میں طنزومزاح کا پیمانہ تبدیل ہوجائے گا۔ اگر طنزومزاح کا پیمانہ قدامت پسندی ہے تو ہر تبدیلی تضحیک کے دائرے میں چلی آئے گی۔ اسی طرح اگر زندگی کا پیمانہ نیا نظام ہے تو ہر قدامت پرستانہ طریقہ اور اسلوب تضحیک کا نشانہ بن جائے گا۔
مثال کے طور پر جنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت خوف اور عدم سلامتی سے بھرا ہوا تھا۔ ہر شخص اس خوف اور عدم سلامتی کو محسوس کرسکتا تھا۔ خوف کی اس صورتحال پر سرعام احتجاج بھی ممکن نہ تھا۔ ہر شخص اس کو تبدیل کرنے کا خواہاں تھا اور ان کے ذہن میں اس کا ایک متبادل امن وآشتی والا ماحول موجود تھا۔ اس صورتحال میں ضیاء الحق سے متعلق ہر طرح کے لطیفے لوگوں کی زبانوں پر آگئے۔ لوگ جب بھی مل بیٹھتے تو ابتداء نئے لطیفوں سے ہی ہوتی تھی۔
حال ہی میں بھارت میں،اوہ مائی گاڈ(OMG)کے نام سے ایک فلم آئی ہے۔ اس فلم میں عقل سلیم کو طنزومزاح کا پیمانہ مانتے ہوئے ہندوستان میں مختلف مذاہب پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ یعنی یہ کہ ان مذاہب کے طریقوں کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اخبارات میں کارٹون، دراصل تبدیلی کی گنجائش کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جن باتوں یا افراد کی حیثیت کو مقدس یا ناقابل تحریف سمجھ لیا جاتا ہے، ان پر طنزومزاح کی کوشش کو قابل سزا سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ اپنے افسر کا مذاق نہیں اڑاسکتے، اپنے باپ کی تضحیک نہیں کرسکتے کیونکہ ان دونوں کو سماجی حاکمیت کا درجہ حاصل ہے۔
♦