مارچ سن 2011 ميں جب شامی جمہوريت نواز کارکنان سڑکوں پر نکلے، تو اُس وقت وہ توقع بھی نہيں کر سکتے تھے کہ پانچ برس بعد وہ يورپ ميں پناہ گزينوں کی طور پر زندگی گزارتے ہوئے در بدر کی ٹھوکريں کھا رہے ہوں گے۔
اٹھائيس سالہ شامی سياسی کارکن جمی شاہينيان کہتا ہے، ’’ميں جب جرمنی پہنچا تو مجھے ايسا لگا کہ جيسے ميں کسی کھلے زخم کے ساتھ جی رہا ہوں اور ميں اپنا ضمير کھو چکا ہوں۔‘‘ جرمن دارالحکومت برلن سے تقريباً ايک سو کلوميٹر مغرب کی جانب واقع شہر گينتھين ميں اپنے نئے گھر سے نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بذريعہ ٹيلی فون گفتگو کرتے ہوئے اُس کا کہنا تھا کہ اُس نے اور اُس کے ساتھيوں نے تحريک کے آغاز پر يہ ارادہ کيا تھا کہ وہ کچھ بدليں گے تاہم ايسا نہ ہو سکا۔
شامی تنازعے کا آغاز پندرہ مارچ سن 2011 کو ہوا تھا، جب حکومت مخالف مظاہرين صدر بشار الاسد سے اقتدار سے عليحدگی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ سياسی کارکنان نے سماجی رابطوں کی ويب سائٹ فيس بُک اور ويڈيو چيٹنگ کی ويب سائٹ اسکائپ کے ذريعے مظاہروں کا انعقاد کيا، غير ملکی صحافيوں تک اپنا موقف پہنچايا اور حکومت کے خاتمے کے ليے اپنی کوششيں جاری رکھيں۔
مسيحی جمی شاہينيان بھی اس تحريک کا حصہ بنا اور پھر اُسے حراست ميں لے کر تشدد کا نشانہ بنايا گيا۔ بعد ازاں جب سن 2013 ميں اُس کے آبائی شہر الرقہ پر دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ نے قبضہ کيا، تو اُسے دھمکياں موصول ہونے لگيں۔ وہ ايک ايمولينس ميں چھپ پر ترکی پہنچا اور يوں شامی خانہ جنگی سے متاثر ہو کر بے گھر ہونے والے اپنے پانچ ملين ہم وطنوں کی فہرست ميں شامل ہو کر ايک گمنام زندگی گزرانے لگا۔
وقت گزرتا گيا اور ترکی ميں غير محفوظ محسوس کرنے کے بعد وہ کسی نہ کسی طرح جرمنی پہنچ گيا۔ آج کل وہ برلن کے قريب ايک شہر ميں دس ديگر افراد کے ہمراہ ايک کمرے ميں گزر بسر کر رہا ہے۔ وہ رضاکارانہ بنيادوں پر سول سوسائٹی کے ايک گروپ ميں کام کرتا ہے اور جرمن زبان سيکھنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ اُس کا کہنا ہے، ’’ميرا خيال ہے کہ ايسا ہی ہوتا ہے۔ ہم نے يہ آگ لگائی تھی اور آگ لگانے والا سب سے پہلے جلتا ہے۔‘‘
دوسری جانب يازان جيسے کچھ شامی باشندے اُس مقصد کے حصول کے ليے آج بھی کوشاں ہيں، جس کے ليے وہ اپنی جانيں صرف کرنے کو تيار ہيں۔ يازان ايک سيٹيزن جرنلسٹ کی حيثيت سے کام کرتا ہے وہ دو برس تک حمص ميں کافی مشکل وقت گزار چکا ہے۔ وہ دن کے وقت برباد حال عمارات اور ميدانوں ميں کھيلتے ہوئے بچوں، زخميوں کو ہسپتال پہنچانے اور ديگر عوامل کی تصاوير کھينچا کرتا تھا اور رات کے وقت اسکائپ کے ذريعے بين الاقوامی صحافيوں سے بات چيت کرتا تھا۔ پچھلے ايک برس سے وہ اپنے ايک رشتہ دار کے ساتھ وسطی فرانس ميں مقيم ہے۔ اگرچہ وہ آج ايک مختلف دنيا ميں ہے ليکن اُس کا کہنا ہے کہ شامی تنازعہ اور اُس کی وجوہات، آج بھی ہر وقت اُس کے ساتھ ہيں۔
DW