حیدر چنگیزی
یہ بہُت فخر اور خوشی کی بات ہے کہ پاکستان کی بیٹی شرمین عبید چنائے دوسری مرتبہ انٹرنیشنل اعزاز آسکر ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس سے قبل2014 میں ملالہ یوسف زئی نے بھی نوبل پیس پرائزاپنے نام کر کے پاکستان کا نام روشن کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بظاہر یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں نہایت ہی تعلیم یافتہ، امن پسند، روشن فکر، سیکولر اور فیمینسٹ قسم کے لوگ رہتے ہو جہاں پہ مرد اور عورت کو تعلیم، صحت ، رتُبہ ، سیاسی، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے یکساں سمجھا جاتا ہو لیکن حقیقت بالکلُ اسِ کے برعکس ہے۔
وہ ملُک جہاں پر آج بھی بیٹیوں کی پیدائش پر سوگ منایا جائے، جہاں آج بھی مردُوں کو عورتوں پر ترجیح دے کر انُہیں تعلیم ، صحت اور حتیٰ کہ زبان پر اختیار سے محروم رکھا جائے جہاں فالتو گھریلو اور جہیز جیسے چھوٹے سے معاملات پر انُہیں طلاق د ے کر کچرے کی مانند پھینک دیا جائے، جہاں 6 سال کی چھوٹی بچی سے لے کر50 سال کی عورت کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے، اور سب سے بڑھ کر ، جہاں خواتین کے تحفُظ کیلئے جائز اور منُصفانہ پارلیمانی قانون سازی پر احتجاج اور رونا دھونا شروع ہو، وہاں کے لوگ بھلا کیسے تعلیم یافتہ ، امن پسند، روشن فکرِ اور سیکولر کہلایا جا سکتا ہیں؟
پاکستان کے حالیہ تحفُظ خواتین بل ہی کو لیجئے۔2014 میں عورت فاؤنڈیشن نے خواتین پرتشدد پر ریسرچ کی تھی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ سال2014کو پاکستان میں 10,139خواتین ذیادتی کیسیز رونما ہوئے تھیں جن میں 7,548صرف اور صرف پنجاب میں ہی رپورٹ کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ جنسی زیادتی ، جسمانی تشدُد، گھریلو تشدُد اور تیزاب پھینکنا ان زیادتیوں میں سر فہِرست تھیں۔ان تمام زیادتیوں کو دیکھتے ہوئے تحفُظِ خواتین بل پنجاب اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی اور اس بل کے مطابق عورتوں پر جسمانی زیادتی ، نا زیبا الفاظ کا استعمال ، تعاقبُ، سائبر کرائمز اور جنسی زیادتی جیسے اقدامات کو جرُم قرار دے کر جُر مانہ اور سزا مقرر کیا گیا ہے اور ساتھ میں انُ خواتین پربھی سزا اور جُرمانہ عائد ہوگاجن کا دعویٰ یا الزام غلط ثابت ہو۔
اب اگر دیکھا جائے تو نہ کوئی غیر شرعی اور نہ ہی کوئی غیر اسلامی اقدام کے تحت اس بل کو عمل میں لایا گیا ہے لیکن ہم اتنے جاہل لوگ ہے کہ بنا سوچھے سمجھے، بنا اس بل کے شرط و شرائط اور فیچرز کو پڑھے ہی اس کو غیر شرعی اور غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔
ہماری سرکردہ مذہبی جماعتیں جمعیت علماءِ اسلام(ف)اور جماعت اسلامی کے سربراہان مولانا فضل الرّحمان اور مولوی سراج الحق ، اس بل کے منظور ہوتے ہی واویلا کرنے نکل پڑے۔ یہ تمام وہی لوگ ہیں جن کے پیر ومرُشدِ ماضی میں پاکستان اور مسلمانوں کی آزادی پر ناخوش تھے، لیکن آج اسی ریاست میں اسلام کے نام پر ہی قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
یہ مُلا ضیا ء الحق کے بنائے حدود آرڈیننس کو استعمال کرکے لوگوں پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے ہیں، جنہوں نے سر سیّد احمد خان کو “دجّال“اور قائد اعظم کو” کافرِ اعظم “کا نام دیا تھا، یہ لوگ وقت پڑنے پر کتے کو بھی شہادت کا درجہ دے دیتے ہیں اور مذہب کو صرف اور صرف محضِ اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرتے آئے ہیں۔
بہرِ حال، تحفُظ خواتین بلِ کو واضح طور پر پڑھنے اور جاننے کے بعد اگر پھربھی ان دو مولویوں اور انُ تمام افراد، جن کی نظر میں یہ قانون سازی اسلام اور شریعت کے خلاف ہے، انُ تمام لوگوں سے یہی سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا زناء، جنسی زیادتی،جسمانی اور گھریلوتشدُد انُ کی نظر میں شرعی یا اسلامی ہیں؟۔
♠
One Comment