عظمٰی اوشو
خواتین کے حقوق کے حوالے سے بل کیا پاس ہوا اک آہ و بکا شروع ہو گئی،جس کا سارا ذمہ مذہبی جماعتوں نے اٹھا رکھا ہے ۔جس میں خاندان ٹوٹنے سے لے کر نہ جانے کیا کیاجواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ سوال تو یہاںیہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا تشدد سے خاندان بچ سکتا ہے اور کیا خوف کے سائے میں قائم رہنے والے رشتوں کو خاندان کانام دیا جاسکتا ہے ۔
موجودہ بل کی مخالفت کرنے والے ایک طرف کہتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو حقوق دیے ہیں جس میں عورت کا نان نفقہ مرد کے ذمہ ہے ،طلاق عورت کا حق ہے وغیرہ وغیرہ مگر جب بل میں یہی نقطے اٹھائے جا رہے ہیں تواس کو غیر شرعی کہا جا رہا ہے ۔اسلام کو امن کا دین کہنے والے عورت پر تشدد کو عین اسلامی کہتے ہیں۔
پچیس25 فروری کو پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے بل میں عورت کو گھریلو تشدد،نفسیاتی و جذباتی دباؤ و بد کلامی اور سائبرکرائمز شامل ہیں ۔خواتین کی شکایت کے لیے ٹول فری نمبر قائم کیا جائے گا اور معاملات کی تحقیقات کے ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی بنائی جائے گی ۔بل میں خواتین پر تشدد کرنے پر مردکو جی پی ایس ٹریکر پہنایا جائے گا جس کا آرڈر عدا لت دے گی۔ ٹریکر کو اتارنے یاٹمپرنگ کرنے پر ایک سال قید اور 50 ہزار سے 2لاکھ روپے جرمانہ ہوگا ۔
تشدد کی شکار عورت کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جاسکے گا ۔جبکہ مرد عورت کے نان نفقہ ادا کرنے کا پابند ہو گا۔ تشدد کے مرتکب مرد کو اسلحہ خریدنے اور اسلحہ لا ئسنس لینے پر پابندی ہوگی جبکہ پہلے سے موجود اسلحہ عدالت میں جمع کروانا ہوگا ۔اس بل میں مانیٹری آرڈر کے تحت متاثرہ خاتون قانونی چارہ جوئی پر ہونے والے اخراجات تشدد کرنے والے شخص سے حاصل کر سکے گی ۔اس کے تحت خاتون اپنی تنخواہ یا اپنی جائیداد سے ہونے والی آمدنی کو اپنے اختیار میں رکھنے اور اپنی مرضی سے خرچ کرنے میں آزاد ہو گی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بل کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ خاص طور پر پنجاب میں ،جنوبی پنجاب میں خواتین پر تشدد کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے نہ صرف جسمانی ،بلکہ جنسی اور نفسیاتی تشدد کی شرح بہت زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بل کو عوامی حلقوں میں پذیرائی مل رہی ہے ۔جبکہ دوسری طرف حسب روایت علماء اکرام اور اسلامی نظریاتی کو نسل نے اس بل کی بھرپور مخالفت کی اور کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی نے شرعی عدالت میں اس بل کو چیلنج بھی کر دیا ہے۔
ویسے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں جہاں خواتین یا بچوں کے حقوق کی بات آتی ہے اسلامی نظریاتی کو نسل اس کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے ۔حالانکہ اسلامی نظریاتی کو نسل کا کام حکومت کو مشاورت دینے کا ہے اس مشاورت کو حکومت مانتی ہے یا نہیں یہ حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے مگر اسلامی نظریاتی کونسل خواتین کے استحصال کے لیے مذہب کا سہارا لیتی ہے اور مذہب سے اپنے منشاء کا مطلب نکالنے کے لیے سرگرم رہتی ہے ۔
قطع نظر اس کے کہ مذہبی اور دینی جماعتیں کس طرح اس بل پر سیاست چمکا رہی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بل پر مکمل عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور اس کے لیے بھر پور آگہی مہم چلائی جائے ورنہ اس سے پہلے بھی بہت سے قوانین بنائے گئے مگر ان کے وہ اثرات نہیں آسکے جن کی سماج کو ضرورت ہے ۔مثلاً قیام پاکستان کے بعد خواتین کے حقوق کے لیے پہلا کمیشن 1955 ء میں بنا جس نے 1961 میں رپورٹ پیش کی پھر اس کمیشن کی اکثر سفارشات کو غیر اسلامی کہہ کر ر د تو کر دیا گیا مگر اس رپورٹ میں سے فیملی لاز بنائے گئے۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے 1975 میں ویمن رائٹس کمیٹی بنائی 1994 میں کمیشن آف انکوائری فار ویمن کو ذ مہ داری سو نپی گئی کہ وہ صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے لیے رپورٹ مرتب کرے۔ اسی دوران میاں نواز شریف کے اقتدار کا دور آیاتو یہ رپورٹ اسلام کی نذر ہوگئی ،پھر پرویز مشرف کے دور میں نیشنل کمیشن آف اسٹیٹس آف ویمن تشکیل دیا گیا جس نے حقوق نسواں بل کا ڈرافٹ تیار کیا مگر پھر اس بل سے اسلام خطرے میں کاشور دوبارہ سنائی دیا ۔
دس10 مارچ 2010 کو آصف علی زرداری نے ویمن پروٹیکشن بل پر دستخط کیے جس کا مقصد عورتوں کو دفاتر اور کام کرنے کے دیگر مقامات پر ہراساں کیے جانے سے بچانا تھا ۔15 نومبر 2011 کو
The Prevention of Anti women Practices Act
متفقہ طورپرمنظور ہوا ۔اس بل میں ونی،سوارہ،بدلہ،صلح اور قرآن سے شادی کے خلاف قانون سازی ہوئی۔
مگر ان تمام قوانین بننے کے باوجود سماج سے صنفی امتیاز ختم نہیں ہوسکا ۔8 مارچ 2013 سندھ اسمبلی سے گھریلو تشدد کے خلاف پنجاب اسمبلی کے مقابلے میں زیادہ بہتر بل پاس کیا مگر سندھ میں تشدد کی روک تھام میں یہ قانون بھی بے بس نظر آیا جس کی بڑ ی و جہ وہ سماجی روایات ہیں جو عورت ادھوری ثابت کرنے پر زور آزمائی کر رہی ہیں اور جو عورت کو سکھاتی ہیں تم باندی اور پجارن ہو تم اگر اچھی بیٹی ہو تو باپ کی پگ کا خیال رکھنا ،پھر بھائی کی لاج اور آخر میں شوہر کی وفادار بن کے ہر ظلم و ستم کو برداشت کرنا اور اگرتم نے کسی زیادتی پر آواز اٹھائی تو شرافت کے دائرے سے خارج کر دی جاؤ گی ۔تو کیا صرف قوانین بنا دینے سے عورت کی حالت بدل جائے گی یا اس کے لیے ذہن سازی بھی کرنے کی ضرورت ہے ۔
♠