قمر ساجد
منصورہ میں جماعت اسلامی نے 35 مذ ہبی جماعتوں (جن میں زیادہ تر کی تعداد کو ایک انگلی پرشمار کیا جا سکتا ہے) کے لیڈروں کو جمع کرکے بظاہر حکومت کو پنجاب وومن پروٹیکشن بل پر “ٹف ٹائم ” دینے اور پاکستا نی عوام میں اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے ہمیشہ کی طرح ایک اور کوشش کی ہے تاہم جیسا کہ ہم نے تاریخ سے سیکھا ہے اگر اسٹیبلشمنٹ اور طبقہءبالا ان کا ساتھ نہ دے تو عوام ان کو گھاس تک نہیں ڈالتی کیونکہ وہ ان میں رہتے ہیں اور ان کی منافقانہ مذہبی روش سے بخوبی واقف ہیں۔
اس اجتماع کی قراردادوں کی ایک شق جو بہت مضحکہ خیز بھی ہے ” لبرل اور سیکولر پاکستان اور اسلا م کے منافی حکومت کے تمام اعلانات دستور سے بغاوت اور بانیان وطن (کےنظریات ) سے روگردانی ہے“۔ زیادہ ممکن ہے کہ اس اجتماع کی قراردادیں جماعت اسلامی کے کسی دانشور رکن نے مرتب کی ہوں اور ان کے ذہن میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی بجائے مولانا مودودی ہوں۔
مولویوں نے پھر ثابت کردیا کہ ان کے حکومت میں شامل ہونے کے دنیاوی عزائم کے سامنے حق، سچ اور آخرت میں جوابدہی کوئی معانی نہیں رکھتے۔سیاست میں وہ بھی اس ملک کے جاگیر داروں اور موروثی سیاستدانوں کی طرح ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
سلمان تاثیر کے اصل بیان کو جانتے ہوئے بھی اسے گستاخ رسول کہنے پر اصرار اور ممتاز قادری کو غازی قرار دینا اور یہ کہنا کہ ممتاز قادری کو پھا نسی دیکر حکومت نے نا موس رسالت کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، محمد علی جناح کو سیکولر اور لبرل نہ ماننا اوراسے عالم دین کہنے پر مصر رہنا ،وومن پرو ٹیکشن قوانین کواسلام کے منافی قرار دے کر پراپیگنڈہ کرنا کہ یہ سب مغرب کی چال ہے،ہر معاملے میں اسرائیل اور بھارت کو گھسیٹنا سچائی کو جل دے کر سیاست کی دوکان چمکانے کے سوا بھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟
ایک سچائی جسے طالبان جیسی کٹر حکومت بھی نہ مٹا پائی وہ ہے عورت کی تعلیم ۔۔۔کیا عورتوں کو آپ تعلیم سے روک سکتے ہیں؟ یقینا” نہیں۔۔آپ عورت کی تعلیم کو بد معاشرتی سجھیں یا دین اسلام کے خلاف یا اسے محض پیسے اور وقت کا ضیاع جانیں حتیّ کہ آپ عورت کو انسان کی بجائے ایک “شے” بھی تصور کریں تو عورت کی تعلیم سے منہ نہیں موڑ سکتے۔
طلب و رسد کے قوانین کے مطابق آپ کو اپنی بیٹی کو تعلیم دینا ہی پڑے گی وگرنہ وہ وہ تما م عمر آپ کے گھر کی دہلیز پر بیٹھی کوستی رہے گی (اور اس کا کوسنا کوؤں کا کوسنا نہیں ہوگا)۔وہ مرد جو عورت کو گھر کی دہلیز تک محدود رکھنے پر یقین رکھتا ہے وہ بھی بیوی کے معاملے میں اس کا پڑھا لکھا ہونا وقت کی ضرورت سمجھتا ہے تاکہ آگے چل کر یہی بیوی اس کی اولاد کو پڑھانے اور مہنگی ٹیوشن فیس بچانے کے کام آسکے۔
دوسرے لفظوں میں عورت اگر خود بھی نہ پڑھے تو عورت کی تعلیم کی معاشی افادیت مرد کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپے سے متعلقہ عورتوں کو تعلیم دے۔
آج کی پڑھی لکھی عورت جہاں زندگی کے تمام میدانوں میں خود کو مرد کے برابر گردانتی ہے وہاں وہ اپنی عزت نفس کو بھی مرد کے مساوی قرار دیتی ہے ۔(پرانی عورتیں بھی جب اپنے شوہروں سے اپنے بچوں کے روبرو پٹتی تھیں تو اس پر خوشی کا اظہار نہیں کرتی تھیں بلکہ دل ہی دل میں اپنی قسمت کو برا بھلا کہہ کر آنسوؤں کو اوڑھنی میں چھپا لیتی تھیں)
ہمارے معاشرے کے بہت سے مرد اور مولوی یہ سمجھتے ہیں کہ عورت میں شہوانیت زیادہ ہے لہذا اسے راہ راست پر رکھنے کے لیے کبھی کبھار مار پیٹ کرنے میں کوئی عار نہیں۔یہ لوگ اپنے اس حق کو مشرقی معاشرے اور مسلم فیملی روایت کا حسن سمجھتے ہیں۔
مگر پڑھی لکھی عورت مار پیٹ تو کجا اب ذرا سی ڈانٹ ڈپٹ کو بھی اپنی عزت نفس پر حملہ سمجھتی ہیں اور بات مغرب یا مشرق کی نہیں تمام عالم ذی روح اورجہان با شعور کی ہے۔عورت کو بھی یہ حق اس کی عقل اور شعور نے دیا ہےاور یہ ایسا حق ہے جسے کسی قسم کی تقدیس کے بل بوتے پر بھی نہیں چھینا جاسکتا۔یہ جنم جنم کا حق شعور کی بلندیوں اور ارتقاء سے وابستہ ہے۔شعور کی بلندی کو پستی میں نہیں بدلا جا سکتا۔بدلنے والے کو ہمیشہ ظالم کہا جاتا ہے۔
آپ کے معاشرے کی نصف آبادی اگر اسے ظلم کہے جسے معاشرے کے چند افراد اپنا حق سمجھتے ہوں تو اس حق کو ختم کرنا ہی دانشمندی، جمہوریت اور انصاف ہے۔نیکی کی تعریف بھی یہی ہے ۔معروف۔ پنجاب اسمبلی نے بھی ایک معروف فیصلہ دیا ہے جو انصاف بھی ہے اور نصف آبادی کی ڈیمانڈ بھی۔۔
اگرمغرب بھی عورت کے ساتھ ظلم کو برا سجھتا ہے یا ہم مغرب کی تقلید میں عورت پر ظلم کو برا سمجھنے لگے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ کیا ہم نے مغرب سے اور کچھ بھی نہیں لیا؟ کیا اچھا ئی کی تقلید اس بنا پر برائی بن سکتی ہے کہ وہ مغربی معاشروں میں بھی معروف رہی ہو؟ کیا عورت کے ساتھ ناروا سلوک کو ” شریعت” کے نام پر جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے حکم کو خدا کا انصاف گردانا جا سکتا ہے؟
ظلم کو جائز قرار دینے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم اپنے عقیدوں میں کچھ لچک لے آئیں ؟ کیا ظلم کو ظلم کہنے سے خدا ناراض ہو سکتا ہے؟ ہم بہت زیادہ مذہبی اور دین کے عالم نہ بھی ہوں تو عقل یہ بات ماننے سے قاصر ہے کہ کوئی دین یا مذہب ایسا بھی ہو سکتا ہے جو ظلم روا رکھنے کو جائز گردانتاہو؟
موجودہ دور نے چونکہ ثابت کر دیا ہے کہ دہشت گردی ان لوگوں کی اسی قسم کی سوچ کا مآ حصل ہے اور پاکستانی عوام اور مقتدر طبقہ دونوں ان کی پذیرائی سے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو مولوی حضرات نے پھر وہی مبہم اصطلا حات استعمال کرکے پاکستانی عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کی کوشش کی ہے اور منصورہ میں اکٹھے ہوکراور اپنی بچی کھچی طاقت کا مظاہرہ کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے اوراسلا م، نا موس رسالت اور شریعت کے الفاظ استعمال کرکے ، وہ پاکستان کی اکثریت کی حمایت رکھے بغیر بھی حکومتوں کے فیصلے تبدیل کروانےکی طاقت رکھتے ہیں۔ انہوں نے پرانا بلیک میلنگ سے مزین اندااز اختیار کرکے حکومت کو 27 مارچ کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ متذکرہ بل اگر واپس نہ لیا گیا تو وہ مل کر ملک بھر میں فتنہ بپا کر دیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت پنجاب اکثریت کے ووٹ کی عزت رکھتی ہے اور نصف آبادی کے جمہوری حق اور انصاف کو برقرار رکھتی ہے یا مٹھی بھر لوگوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر جمہوری اصولوں اورانصاف کی دھجیاں بکھرنے دیتی ہے۔
اس وقت پاکستان کی تمام جمہوری ، انصاف پسند، ترقی پسند ،لبرل اور سیکولر قوتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ بھی مجتمع ہوںاور حکومت کو بتائیں کہ ملاؤں کی مٹھی بھر اقلیت کے سامنے جھکنے کی کوئ ضرورت نہیں۔
لیکن سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو باور کروایا جائے کہ اصل اسلا م مولوی کی زبان میں نہیں اکثریت کے معروف فیصلے میں ہے ظلم کے ہر جواز کو ختم کرنے میں ہے ۔
♦
3 Comments