ارشد نذیر
کچھ قوانین نمائشی ہوا کرتے ہیں ۔جیسا کہ عوامی جگہوں پر سگریٹ نوشی کی ممانعت۔ایک خاص حد سے زیادہ سامان جہیز دینے کی ممانعت۔ شادی بیاہ پر دو ڈشیں پیش کرنا۔ مکانات کے نقشہ جات کے لئے حکومت کے منظور کردہ قواعد وضوابط کی پابندی کرنا۔ رہائشی علاقوں کو بلااجازت کمرشل میں منتقل کرنا۔ کم سے کم اجرتوں کا قانون ۔ اپنی آمدنی اور آمدن کے ذرائع کا سالانہ گوشواروں میں ایمانداری سے اظہار اور ، کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے ایمنیسٹی، پلی بارگین وغیرہ چند ایسے قوانین اور قواعد و ضوابط ہیں جو پاکستان میں عرصہ دراز سے موجود ہیں۔
اس سوال کہ اگر یہ قوانین محض دکھاوے کے لئے تھے کا جواب انتہائی سادہ سا ہے کہ ایسے قوانین کی موجودگی دکھا کر آپ محروم طبقوں میں قانون کی حکمرانی اور بلا تفریق انصاف اور اچھے طرزِ حکمرانی جیسے نعرے لگا سکتے ہیں۔ انہیں یہ دلاسا دے سکتے ہیں کہ اگر اس ملک میں قانون پربلاتفریق و امتیاز عمل کیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ہمارے سیاست دان ، پارلیمنٹیرینز اور ماہرینِ قانون یہ حربہ جانتے ہیں۔لہٰذا ہمارے سیاستدان اور مقننہ کے اراکین کو غریب کے مارے ، بے روزگاری اور بیماریوں سے نڈھال عوام کو دلاسے اور امیدیں دلانے کا ہنر خوب آتا ہے اور وہ یہ حربہ استعمال کرتے رہتے ہیں۔
ایسا ہی قصہ کچھ تحفظِ حقوقِ نسواں بل کا ہے۔ آج کل حقوقِ نسواں بل کا بڑا چرچا ہے۔ اس بل پر خاصی لے دے ہورہی ہے۔ کچھ روشن خیال دانشور ، فیمینسٹ اور ٹی وی کی کچھ خواتین اینکرز اورکچھ سیاستدان خواتین اس بل پر کچھ اس انداز میں بحث کر رہی ہیں جیسے ہماری خواتین کے مسائل صرف ہیں ہی یہی۔ اگر یہ مسئلہ حل ہو گیا تو سب کچھ حل ہو جائے گا۔
دوسری طرف سیاسی ملاں ہیں جن کا خیال ہے کہ اس بل سے خانگی نظام تباہ و برباد ہو کے رہ جائے گا۔ خواتین مردوں پر ظلم کرنا شروع کر دیں گی۔ بے راہ روی عام ہو جائے گی۔ معاشرہ تباہ و برباد ہو کے رہ جائے گا۔
اس بل کے تجویز کنندہ کون ہیں ، اُن کو خود پاکستان کی خواتین کے حقیقی مسائل کا کتنا ادراک ہے، انہیں اس بات کا کتنا ادراک ہے کہ غریب، مزدور ، محنت کش ، کسان خواتین اورعام گھریلو خواتین کی زندگی کی تلخیاں اصل میں ہیں کیا ۔ این جی اوز کی کچھ ممی ڈیڈی خواتین جن کی اپنی تنخواہیں لاکھوں میں ہوتی ہیں ، دیگر مراعات اس کے علاوہ ہوتی ہیں، بڑی بڑی گاڑیوں میں چند غریب علاقوں اور بستیوں کا دورہ کرکے غریبوں کی محرومیوں کے کچھ اعداد وشمار جمع کرلینے کے بعد یہ تصور کرنے لگتی ہیں کہ اگر فلاں فلاں قانون بن جائیں تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔
اگر ان کے اپنی ہی تنظیموں میں موجود خواتین ورکرز اور ان کے ڈائریکٹرز کی تنخواہوں کے درمیان فرق کو دیکھ لیا جائے تو کھلے تضادات سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اس استدلال سے ہماری مراد قطعاً یہ نہیں ہے کہ ہم خواتین کی آزادی کے مخالف ہیں۔ ہم خواتین کی آزادی کے مخالف ہیں اور نہ ہی اس بل کے مخالف ۔ اس بل کے آنے کے بعد جو بات ہمیں سمجھ نہیں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ آخر اس طرح کے قوانین کے تجویز کنندہ یہ فیصلہ کہ خواتین کی تعلیم ، لیٹرینوں کے مسائل، پینے کا صاف پانی، دو یا تین مرلے کے گھرمیں دس سے بارہ نفوس کا رہائش پذیر ہونا، نکاسیِ آب کے مسائل، بے روزگاری، بیماری ، چھوٹی عمر کی شادیاں، جہیز جیسی لعنت ، خواتین کو ملازمت نہ کرنے دینا، دو دو تین ہزار پر خواتین کو ملازم رکھ لینا، ان کی صحت کے مسائل، زچگی کے مسائل تشدد کو جنم دیتے ہیں یا تشدد ان مسائل کو جنم دیتا ہے ۔
سادہ لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آیا غربت تشدد کو جنم دے رہی ہے یا تشدد غربت کو جنم دے رہا ہے ۔ یہ معاشرتی سوال ہے اور سماج کے ہر شخص کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس پر غور کرے اور حکومت کی قانون سازی کی سمت درست کرے۔ جہاں تک ان پروپوزل رائٹر دانشوروں کا تعلق ہے ۔ وہ انسانی حقوق کو صرف اسی طرح سے بیچ سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ بیچ رہے ہیں۔
ہمیں بتایا تو جائے کہ آزادیوں کے بخار میں مبتلا سول سوسائٹی کے یہ اراکین کس طرح یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ خواتین پر تشدد محض قانون سازی سے ختم ہو جائے گا یا اس پر قابو پا لیا جائے گا۔ جہاں تک ہماری رائے کا تعلق ہے ہمارا خیال ہے کہ اس طرح کی قانون سازی سے تشدد کی شکلیں بدل جائیں گی تشدد ختم نہیں ہوگا۔ اس بل کے متعارف ہو جانے کے بعد تھانوں میں موجود مرد پولیس افسران کا رویہ بدلے گا اور نہ اس قانون کے تحت بنائے جانے والے قواعد و ضوابط کی پیچیدگیاں ہماری ان پڑھ خواتین کو یہ حوصلہ فراہم کریں گی کہ وہ تھانے کچہریوں کے چکر لگا کر اپنے اس طرح کے مسائل حل کریں۔
حقیقتِ احوال یہ ہے کہ ملک کی کثیر آبادی بشمول انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اور پارلیمنٹیرین ایسے ہیں جنہیں یہ علم تک نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں کون کون سے قوانین موجود ہیں اور آخر موجودہ قوانین سماج کے لئے موثر کیوں نہیں ہوسکے۔ اگر اب وہ معاون نہیں رہے تو ایسا کیوں ہوا ہے ۔ قانون دان جانتے ہیں اور میری اس بات سے اتفاق بھی کریں گے کہ تاریخ اور اصولِ قوانین کی تشریح کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ قوانین کی ترامیم کا تاریخی جائزہ لے کر یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ کونسے سماجی، سیاسی ، معاشی اور ثقافتی عوامل ہیں جوپرانے قانون کی موثریت اور افادیت کو ختم کررہے ہیں۔
ویسے تو یہ تحقیقی نوعیت کا کام ہے جو انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنے طور پر بھی کر سکتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس پر کوئی سنجیدہ کام نظر نہیں آتا ۔ ایسی ترامیم ہمارے سماج کے حقیقی دکھوں کا مداوا کر ہی نہیں سکتی ۔انہیں یہ ادراک ہی نہیں ہوتا کہ رسوم و رواج ، اقدار اور سماج کے اخلاقی پیمانے قانون سے بہت بالا ہوتے ہیں اور اقدار اور رسوم و روج کا تعین معیشت کرتی ہے ۔
معاشی بہتری کے بغیر ہر قسم کی قانون سازی استحصال کی شکلیں تو بدل دیتی ہے لیکن استحصال کو ختم کرنے کی ضامن نہیں ہوا کرتی۔ لہٰذا اس ماحول میں اس قسم کی قانون سازی محض نمائشی بن کر رہ جاتی ہے۔ بہتر ہے کہ خواتین کے مذکورہ بالا مسائل کی طرف سنجیدگی سے توجہ مرکوزکی جائے اور حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ سارے سماجی ڈھانچے میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ معاشی آزادیا ں فراہم کرے۔
سچ پوچھیئے تو ہمیں حقوقِ نسواں کا یہ بل جس پر بڑا شور مچایا جا رہا ہے میں خواتین کی حقیقی آزادی کہیں نظر نہیں آرہی۔ اس کے بدلے میں اگر خواتین کی تعلیم ، نظامِ تعلیم میں بہتری، کام کرنے والی خواتین کے لئے کم ازکم اجرت جو حکومت نے تیرہ سے پندرہ ہزار روپے مقرر کی ہوئی ہے کی یقین دہانی ، پروفیشنل خواتین کے لئے موثر اور کام کرنے کے ماحول کی یقین دہانی جیسے اقدامات اس نمائشی بل کی نسبت زیادہ بہتر نتائج فراہم کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
لیکن اس ایشو کو نہ ان برگر فیملی کی خواتین اور ممی دیڈی نوجوانوں کی این جی اوز اٹھانے کی جرات رکھتے ہیں اور نہ ہی ملاں ان نکات پر کوئی آواز اُٹھاتے نظر آتے ہیں۔ آخر وہ خواتین کے ان سماجی مسائل پر آواز کیوں اٹھائیں۔ دونوں ہی کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ رہی بات اس ملک کے مُلاں کی تو آج کل جو سیاسی فضا چل رہی ہے وہ اس میں حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو برانگیخت کرنے کے مواقع تلاش کر رہا ہیں۔
آئے روز جو نئے نئے فتاویٰ سامنے آتے رہتے ہیں وہ خود اس بات کا اظہار ہیں کہ اب اسلام کو محض ملاں کی بیان کردہ تشریح کے مطابق نہیں چلایا جاسکتا۔ آج پوری مسلم امہ اسلام کے ایک نئے بیانئے کی تلاش میں ہے ۔ ملاں کو خواتین کے حوالے سے نئی سوچ اپنانی ہوگی۔ ملاں نئی سوچ اپنائے یا نہ اپنائے ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں جو خود رو تبدیلی آرہی ہے اس کو اب روکا نہیں جا سکتا۔
مذہبی لوگوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ موجودہ دور کے تقاضے کو سمجھیں اور خواتین کو سماجی ، سیاسی ، معاشی اور شہری آزادیوں کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں۔
♠