بھارتی پریس سے ظفر آغا
یااللہ! اس حمام میں تو واقعی سب کے سب ننگے ہیں ، کیا روسی صدر ولاد میر پوتن ، کیا چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ارکان، کیا برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور کیا پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور کیا ہندوستانی اداکار امیتابھ بچن، یہ تو محض گنتی کی چند اہم مثالیں ہیں اور یہ سارا عالم بدعنوانی میں ڈوبا ہوا ہے۔
آپ واقف ہوں گے کہ اس بات کا انکشاف بھی چند روز قبل دنیا بھر کے سینکڑوں افراد کا نام پناما پیپرزکی شکل میں دنیا بھر انوسٹی گیٹیو رپورٹرزایسوسی ایشن نے مہینوں کی چھان بین کے بعد کیا۔ اس ایسوسی ایشن میں ہندوستان کا مشہور اخبار ’ انڈین ایکسپریس ‘ بھی شامل ہے۔ اس کے ایڈیٹر اور ہمارے دوست ریتو سرین نے اس معاملہ سے جڑی ہندوستانی ہستیوں کے نام کی چھان بین کرکے امیتابھ بچن جیسے افراد کا بھانڈا پھوڑا کہ یہ لوگ کس طرح آئس لینڈ میں پناما نام کی جگہ پر فرضی کمپنیاں کھول کر اپنا ٹیکس بچاتے ہیں۔
معاملہ دراصل یہ ہے کہ آج کی دنیا میں دولت کی ریل پیل ہے لیکن یہ دولت دنیا کے چند افراد اور ان کے اہل خانہ کے ہاتھوں میں ہے ۔ ایک بڑی خبررساں ایجنسی کے مطابق دنیا کے محض 52افراد اور ان کے اہل خانہ ساری دنیا کی 50فیصد دولت کے مالک ہیں۔ اب آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ ان افراد کی دولت کے آگے قارون کا خزانہ بھی مات ہے اور ان افراد میں ہر طرح کے لوگ ہیں ۔
مثلاً روس کے صدر ولاد میر پوتین سے لیکر ہندوستان کے ہیرا مرچنٹ اور مشہور اداکار امیتابھ بچن تک اس فہرست میں شامل ہیں۔ ایسے افراد کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے لیکن ان کی ہوس کا یہ عالم ہے کہ یہ اپنی دولت پر ٹیکس دینے کو بھی راضی نہیں ہیں۔ اس کے دو اسباب ہیں۔
اول تو یہ کہ ایسی دولت کا کثیر حصہ چوری اور لوٹ کا ہوتا ہے تو پھر اس طرح کمائی ہوئی دولت کو ٹیکس دینے کے لئے دکھائیں تو دکھائیں کیسے ۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جتنی کثیر تعداد میں دولت ہوگی اتنی بڑی مقدار میں ٹیکس بھی لگے گا۔ چنانچہ حرام کی دولت اکٹھا کرنے والا یہ سوچتا ہوگا کہ دنیا کے تمام غیر قانونی کام کرکے دولت کمائی گئی اور اب اس کا بڑا حصہ ٹیکس میں کیوں دیں۔
جب چوری سے کمائی ہوگی تو پھر ٹیکس کی چوری بھی جائز ۔ ظاہر ہے کہ اب ایسی دولت کا چھپانا لازمی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کو چھپائیں تو چھپائیں کیسے؟ ۔ چلو کروڑ دو کروڑ بلکہ آج کے دور میں 100یا 200 کروڑ ہوں تو پھر بھی کچھ کہا جاسکتا ہے، لیکن جب معاملہ ہزاروں کروڑ کی چوری کا ہو تو پھر اس کا چھپانا بھی قیامت سے کم نہیں ہے۔ مگر آج کی دنیا میں غلط کام کو صحیح کرنے کیلئے تمام راستے پیدا ہوجاتے ہیں۔
چنانچہ اس طرح کی ہزاروں کروڑ کی دولت کو چھپانے کے لئے دنیا میں کچھ جزیرے ہیں جن کو ٹیکس فری کہا جاتا ہے۔ یعنی وہاں آپ کتنی ہی بڑی دولت انویسٹ کیجئے اس پر آپ کو کوئی ٹیکس نہیں دینا ہوگا۔ ظاہر ہے ایسی جگہ ناجائز دولت والوں کے لئے تو جنت ہی ہوگی۔ ایک تو وہاں چوری سے آپ کی دولت پہنچ گئی اور پھر آپ کو اس پر کوئی ٹیکس بھی نہیں دیتا ہے۔ اسی لئے ایسی جگہوں کو ٹیکس فری (معاف) کہا جاتا ہے۔ الغرض! برطانیہ کے نزدیک ایک چھوٹا سا ملک ہے آئس لینڈ جہاں پناما نام کا ایک ٹیکس فری جزیرہ ہے ۔
اس جگہ پر دنیا بھر کی ناجائز دولت کمانے والے چوری سے دوسروں کے نام سے جھوٹی کمپنیاں کھولتے ہیں جن کو شیل کہتے ہیں۔ یعنی ایسی کمپنی کا خول یعنی شیل کی پناہ میں اصل کوئی اور ہوتا ہے جس کی دولت لگی ہوتی ہے یہ سارا آپریشن خفیہ ہوتا ہے۔ ایسی کمپنی کھولنے والے دولت پر اپنا کمیشن لیتے ہیں اور پھر اس دولت کو دنیا بھر میں انوسٹ کرکے اس پر خود بھی منافع کماتے ہیں اور اصل دولت والے کو اس منافع کا بڑا حصہ ملتا ہے۔ لیکن اس پورے آپریشن پر کہیں کوئی ٹیکس نہیں لگتا ہے۔ یعنی جس ملک سے کمائی گئی دولت کو ایسی جگہ پر لگایا جاتا ہے تو اس ملک کو پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کی دولت خاموشی سے باہر چلی جاتی ہے اور پھر اس ملک کو اس دولت پر کبھی کوئی ٹیکس بھی وصول نہیں ہوتا ہے۔ یعنی صاحب دولت کے مزے ہی مزے اور ملک کو محض گھاٹا ہی گھاٹا۔
خیر، اس طرح کے ایک معاملہ کا انکشاف ابھی دنیا کے چند اہم اخبارات نے مل کر پانامہ پیپرز کے نام سے کیا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ان اخبارات میں انڈین ایکسریس بھی شامل ہے جس نے امیتابھ بچن، ایشوریہ رائے کے ساتھ بڑے بڑے سرمایہ داروں کے ہندوستانی ناموں کا بھی انکشاف کیا ہے۔ حکومت ہند نے اس معاملے کو مختلف ایجنسیوں کو چھان بین کیلئے دے دیا ہے ساتھ ہی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ لوگ جن کے نام ایسی فہرست میں شامل ہیں وہ لوگ چین کی نیند نہیں سو سکیں گے۔
خیر، اس دور میں ایسے ہی لوگ چین کی نیند سوتے ہیں جو چوری کی دولت کماتے ہیں، وہ بے چارے جو ٹیکس دیتے ہیں ان کی زندگی حرام ہوجاتی ہے۔ وزیر خزانہ کو کچھ کہنا تھا سو انہوں نے رسم پوری کردی۔ سبھی جانتے ہیں کہ ابھی اس معاملہ پر ٹی وی اور اخبارات میں شور مچا ہے۔ چند دنوں میں کوئی دوسری بڑی خبر آجائے گی اور مسئلہ پر خاک پڑ جائے گی۔ ارے بھائی بوفورس سے لے کر سی ڈبلیو جی اور نہ جانے کتنے گھوٹالوں پر مچنے والے شور کا تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ ہر گھوٹالے پر مچنے والے شور کے پیچھے بھی ایک سیاست ہوتی ہے۔
مقصد یہ نہیں ہوتا کہ عوامی زندگی سے بدعنوانی ختم ہو، اگر ایسا ہوتا تو آج انا ہزارے، بابا رام دیو، اروند کجریوال جیسے خود کو بدعنوانی کا دشمن کہنے والے افراد دہلی کے جنتر منتر پر امیتابھ بچن جیسے لوگوں کے خلاف دھرنا دے کر بیٹھ چکے ہوتے اور ہندوستانی ٹی وی اینکرز گلا پھاڑپھاڑ کر ٹیکس چوری کرنے والوں کی گرفتاری کی مانگ کررہے ہوتے۔
راقم الحروف نے انا ہزارے جیسے لوگوں کا نام محض اس لئے لیا ہے کہ یہ انا ہزارے، بابا رام دیو اور اروند کجریوال وہی ہیں جنہوں نے یو پی اے دور حکومت میں سی ڈبلیو جی اور ٹیلی کام اسپکٹرم گھوٹالے کے معاملے پر آسمان سر پر اُٹھالیا تھا۔ دہلی کے جنتر منتر سے لے کر رام لیلا میدان تک ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کرکے منموہن سنگھ حکومت کو مفلوج کردیا تھا اور انہی لوگوں کے دباؤ میں پارلیمنٹ کو آدھی رات میں لوک پال بل پاس کرنا پڑا تھا۔
اب لوک پال بل بھی پاس ہوچکا ہے اور ان کا کالا دھن واپس لانے کے نام پر منموہن سنگھ حکومت بھی گرائی جاچکی ہے، لیکن پناما پیپرز پر نہ تو انا ہزارے کو غصہ آرہا ہے اور نہ ہی بابا رام دیو اب گلا پھاڑ رہے ہیں کہ کالا دھن واپس لاؤ۔ بدعنوانی مٹانے کے نام پر دہلی کے اقتدار پر قبضہ جمانے والے اروند کجریوال کو بھی اب بدعنوانی پر غصہ نہیں آتا ہے۔ قوم کے ٹھیکے دار یعنی ٹائم ٹی وی کے اینکر اربنگو سوامی بھی اب گلا پھاڑ پھاڑ کر امیتابھ بچن سے کوئی سوال نہیں پوچھ رہے ہیں۔
لب لباب یہ ہے کہ کرپشن کا شور محض ایک سیاست ہے جس کا مقصد کسی ایک حکومت کو نشانہ بنانا ہوتا ہے، کرپشن ختم کرنا نہیں ہوتا، اور جب کرپشن کا معاملہ اس سیاست سے جڑا ہوا نہیں ہوتا تو وہ خواہ تہلکہ ڈاٹ کام کا واجپائی حکومت کے خلاف بے نقاب ہو یا انڈین ایکسپریس کا پانامہ پیپرز جیسا انکشاف، تھوڑے بہت شور کے بعد سارا معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے، نہ انا ہزارے بولتے ہیں اور نہ رام دیو کو غصہ آتا ہے۔ انا ہزارے سے لے کر اروند کجریوال تک سب کرپشن پر بھناتے ہیں اور جب ان کا سیاسی مقصد حل ہوجاتا ہے تو سب ایک بیان دے کر گہری نیند سوجاتے ہیں۔
یہ بھی حسن اتفاق دیکھے کہ کرپشن کا ہنگامہ ہمیشہ تب ہی ہوتا ہے جب کانگریس برسر اقتدار ہوتی ہے۔ اندرا گاندھی سے لے کر راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی تک کے خلاف شور مچایا گیا اور اس کی آڑ میں انہیں اقتدار سے باہر کیا گیا۔ پھر دوسری حکومت آئی تو اس سے بڑا معاملہ کھلا لیکن غیر کانگریسی حکومت وقت کا کرپشن کے معاملہ میں بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ تب ہی تو کہتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں، اور اب تو ولاد میر پوتین سے لے کر امیتابھ بچن تک سب ننگے ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے کیونکہ یہ صاحب دولت ہیں، خواہ وہ چوری کی ہی دولت کیوں نہ ہو، بھلا دولت مندوں کا کبھی کچھ بگڑا ہے۔؟
Daily Siasat, Hyderabad, India