پاکستان میں انتہا پسندی کا مقابلہ ایک پیچیدہ کام ہے۔ اہم سیاسی رہنماؤں کے اگر کالعدم جنگجو گروہوں سےگہرے تعلقات ہیں تو سکیورٹی فورسز اور سول انتظامیہ کی اکثریت بھی مذہب کے نام پر متشدد عناصر سے ہمدردی بھی پائی جاتی ہے۔
پاکستان میں مذہب کے نام پر انتہا پسندی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس صورتحال میں بہت سے حلقے اس شبے کا شکار ہیں کہ آیا یہ ریاست جنگجوؤں کے اس تشدد کو روکنے کی خاطر کوئی ٹھوس اقدامات کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں سالانہ سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ ایک ’سیاسی بارودی سرنگ‘ پر چلنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کا دل تصور کیے جانے والے شہر لاہور میں کیا گیا حالیہ دہشت گردانہ حملہ ایک اور خطرے کی گھنٹی قرار دیا جا رہا ہے۔ بچوں کے ایک پارک میں ہوئی اس خونریز کارروائی میں 72 افراد ہلاک ہوئے۔
مسیحی مذہبی تہوار ایسٹر کے موقع پر جنگجوؤں نے بظاہر نشانہ تو مسیحی برادری کو بنایا لیکن اس کارروائی میں بہت سے مسلمان بھی مارے گئے۔ اس حملے پر ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی برادری نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ انتہا پسندی سے نمٹنے کی خاطر جامع حکمت عملی کو بھرپور طریقے سے نافذ کرے۔
جب لاہور میں یہ حملہ ہوا تھا تو دوسری طرف اسلام آباد میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ بھی کر رہی تھی اور ساتھ ہی تختہ دار پر لٹکائے جانے والے ایک ایسے شخص کے ساتھ اظہار ہمدردی میں مصروف تھی، جس نے توہین مذہب کے نام پر پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری کردہ تصاویر میں دیکھا گیا تھا کہ ایلیٹ پولیس فورس کے درجنوں اہلکار ممتاز قادری کی قبر پر عبادت میں بھی مصروف تھے۔ ممتاز قادری کو جب فروری میں سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی، تب بھی پاکستان بھر میں اس کے لاکھوں حامیوں نے سڑکوں پر نکل کر اس کے لیے اظہار یکجہتی کیا تھا۔
پنجاب حکومت کی طرف سے انتہا پسندی کے خاتمے کی کوششوں پر اس وقت ایک اور سوالیہ نشان ابھر آیا تھا، جب صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ صوبے میں کوئی جنگجو گروہ نہیں پایا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب دہشت گرد جماعتوں کا صدر مقام تصور کیاجاتا ہے۔
تجزیہ نگار زاہد حسین کے بقول البتہ بہت سے انتہا پسند گروہوں نے اپنی شناخت چھپا رکھی ہے۔ پاکستان میں فعال ایسی ہی ایک انتہا پسند تنظیم کا نام ’جیش محمد‘ بھی ہےجس کا سربراہ مسعود اظہر ہے اس گروہ کو پس پردہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
امریکا کی طرف سے کالعدم قرار دی جانے والی لشکر طیبہ نامی تنظیم بھی ’جماعت الدعوہ‘ کے نام سے پنجاب میں فعال ہے۔ اس تنظیم کو پاکستان نے 2015 میں ممنوع قرار دے دیا تھا لیکن اس کا سربراہ حافظ سعید پاکستان بھر میں نہ صرف کھلے عام سفر کرتا ہے بلکہ اپنے عوامی خطبات میں مغربی اور بھارتی مفادات پر حملوں کی ترغیب بھی دیتا ہے۔
زاہد حسین کے مطابق صوبہ پنجاب میں ’سپاہ صحابہ‘ نامی ایک تنظیم بھی طویل عرصے فعال ہے، جس کے عسکری شعبے پر ایسے متعدد حملوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے، جن میں بالخصوص شیعہ کمیونٹی کے افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ سپا صحابہ اگرچہ پاکستان میں ممنوعہ جماعت ہے لیکن پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے صوبائی انتخابات کے دوران اسی جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر اپنی انتخابی مہم چلائی تھی۔
جماعت الاحرار بھی مبینہ طور پر پنجاب میں فعال ہے، جس نے لاہور میں بچوں کے پارک میں کیے جانے والے حالیہ حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ ناقدین کے مطابق اس جنگجو گروہ کی جڑیں پاکستانی قبائلی علاقوں میں ہیں اور اس نے عراق اور شام میں فعال انتہا پسند تحریک داعش کے ساتھ اپنی ہمدردی کا کھلے عام اعلان کر رکھا ہے۔
وُوڈرَو ولِسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز سے وابستہ مائیکل کوگل مین کے مطابق پاکستان میں فعال جنگجو گروہ بنیادی طور پر بہت سے نظریات پر متفق ہیں۔ ایشیائی اور جنوب ایشیائی امور کے ماہر کوگل مین کہتے ہیں کہ پاکستان کی تمام جنگجو تنظیمیں ایک ہی کڑی کے مختلف حصے ہیں۔
پاکستان میں انتہا پسندانہ کارروائیوں اور جنگجوؤں کے خلاف عسکری آپریشنز کے نتیجے میں ہزاروں فوجی اہلکار بھی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ تاہم پھر بھی پاکستانی فوج کی اکثریت مبینہ طور پر جنگجو گروہوں کے ساتھ رابطہ رکھے ہوئے ہے ۔ اسی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر بھی ایسے شکوک پائے جاتے ہیں کہ آیا پوری پاکستانی فوج انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں قطعی سنجیدہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔
کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستانی فوج مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ وہ اس عفریت کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے ۔ جو ان کی ہدایات پر عمل نہیں کرے گا اسے ختم کر دیا جائے گا۔ لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کا قتل اسی سلسلے کی کڑی تھا۔
دوسری طرف پاکستانی فوج کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ ایسے مفروضات کو رد کرتے ہیں کہ ان کا ادارہ ان جنگجوؤں سے کوئی تعلق رکھتا تھا یا رکھتا ہے۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ملکی فوج انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ تاہم کئی سیاسی اور سکیورٹی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان بیانات اور زمینی حقائق میں تعلق ڈھونڈنا بھی ایک معمہ ہے۔
News Desk, DW