”بڑوں‘‘ کے ہاتھوں استعمال ہونے والے”چھوٹو گینگ”

anb

ارشد نذیر

غلام رسول عرف چھوٹو کے کیس میں دو زاویوں سے تفتیش بہت ضروری اور اہم ہے۔ ایک تو یہ کہ پولیس کس قانون کے تحت ایسے’’ مخبر‘‘ رکھتی ہے اور اُن سے ’’مخبری‘‘ کراتی ہے ۔کس حد تک مخبری کی گنجائش ہوتی ہے۔ مخبراور پولیس کے درمیان کون سا قانونی معاہدہ ہوتا ہے ۔

مخبر دراصل دونوں اطراف کا بھیدی اور رازداں ہوتا ہے۔ جو مجرموں کو ایکسپلائٹ کرتا ہے اور پولیس کی مٹھیاں گرم رکھنے میں بھی پولیس کا سہولت کار اور معاون بن جاتا ہے۔ اس طرح کی پیرا لل پولیسنگ عرصہ دراز سے چل رہی ہے ۔ پولیس نے اپنے نظام کے اندرایک متوازی نظام قائم کر رکھا ہے ۔ حکومت اس طرح کی تمام کوتاہیوں سے چشم پوشی کرتی رہتی ہے۔

آخر وہ کون لوگ ہیں جو ’’معزز‘‘ بھی ٹھہرتے ہیں اور ایسے متوازی نظام سے مستفیض بھی ہوتے ہیں اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ریاستی ذمہ داری کا اس طرح جنازہ کیوں نکالا جاتا ہے ۔ عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔روز کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہو جاتاہے۔ کوئی نہ کوئی ریاست کے لئے چیلنج بن کر سامنے آجاتا ہے۔ اس نظام سے مستفیض ہونے والے اور مراعات یافتہ ایسے واقعات کو کسی نہ کسی ’’ڈرامے‘‘ کی شکل میں عوام کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے کا یہ کھیل چلتا رہتا ہے۔

جب صورتحال کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے تو عوام کو مختلف قصے کہانیا ں سنائی جاتی ہیں۔ ’’ چھوٹو‘‘ کی زندگی کے بارے میں جو معلومات اخبارات کے ذریعے سامنے آئی ہیں اُن میں یہ دو واقعات کہ وہ رجھان میں ایم پی اے عاطف مزاری کا تین سے پانچ سال تک نجی محافظ رہا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ 2007ء تک پولیس کا ’’مخبر‘‘ بھی رہا ہے۔ کیا اس کی تحقیق کی بھی کوئی ضرورت ہے یا نہیں کہ ہمارے نام نہاد ایم این ایز اور ایم پی اے جو ایسے لوگوں کو اپنا نجی محافظ رکھتے ہیں اور جس طرح دھونس، دھاندلی اور خوف و ہراس قائم کروا کراُن سے علاقے میں اپنا رعب ودبدا اور دہشت قائم کراتے ہیں، اس سے وہ ایسے لوگوں کی ذاتی زندگیاں بھی برباد کرتے ہیں اور عوام کے لئے بھی ایک عذاب کھڑا کرتے ہیں۔

ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز آج بھی ویسے کے ویسے ’’معزز‘‘ اور ’’شریف‘‘ بنے پھرتے ہیں۔ اس واقعے کے باوجود کئی ایک ایم این اے نے آج تک اپنے اپنے نجی محافظ رکھے ہوئے ہیں اور اُن کی اپنی حفاظت کا کام کرتے ہیں۔ پو اس کے علاوہ ان کی حفاظت پر معمور رہتی ہے۔ آخر ایم این ایز اور ایم پی ایز جو عوامی نمائندے کہلواتے ہیں کو اپنے نجی گارڈز رکھنے کی کیوں ضرورت پیش آتی ہے۔ وہ ان نجی گارڈز سے کیا کیا خدمات سرانجام دلواتے ہیں۔’’ چھوٹو گینگ‘‘ کیس میں کچھ تفتیش اس پہلو سے بھی ہونی چاہئے ۔

آج یہ کیس سامنے آگیا ہے تو اس پر بہت کچھ لکھا جائے گا۔ حکومت بھی اپنی کارگردی دکھانے کے لئے کچھ دعوے کرے گی ۔ تفتیش کے نئے نئے زاویے سامنے لائے جائیں گے۔ لیکن عوام کو پھر بھی کوئی انصاف نہیں ملے گا۔ اُس کے حقیقی عذاب بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ وہ جوملک کے لئے اشرافیہ کی اس جمہوریت کی اور اسی جمہوریت کے ذریعے عوام تک اس کے ثمرات کی منتقلی کی داستانیں سناتے رہتے ہیں اور اس نظام کی بقا و ارتقا کی باتیں کرتے ہیں وہ آخر عام حالات میں ریاستی کی ایسی خامیوں اور ستم گریوں سے پردہ کیوں نہیں اُٹھاتے۔ وہ چپ کیوں سادھے رہتے ہیں۔

ریاست کے کسی بھی ادارے پر انگلی رکھیں اور اُس پر تحقیق شروع کریں تو آپ کو ریاست کے ہر ادارے کے اندر ایک متوازی نظام کھڑا نظر آئے گا۔ یہ نظام یہاں کی مراعات یافتہ کلاس اور اشرافیہ کے لئے ہے ۔یہ نظام غریب کے لئے ہے اور نہ ہی یہ اُسے کچھ دے سکتا ہے۔ غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اگر چہ دو مثالیں جو موضوع سے زیادہ متعلقہ تو نہیں ہیں لیکن یہاں ضمناً ان کا تذکرہ کئے دیتا ہوں۔

آج کل ریاست کے بہت سے اہم اداروں میں ایک پٹی ٹھیکیدارکلچر یا سب لیزنگ کا کلچر رواج پکڑ رہا ہے ۔ یعنی ریاست کا ملازم خود اپنے ملازم رکھ کراُس سے ریاستی امور کی انجام دہی کرا رہا ہے ۔ ڈسٹرکٹ اور سول عدالتوں میں اہلمد یا کلرکس نے اپنے اسسٹنٹ رکھے ہوئے ہیں۔ عدالت کے باقاعدہ ملازم تو اہلمدہی ہوتے ہیں جو تمام تر عدالتی ریکارڈ اور ملزموں اور مجرموں کے ریکارڈ کے محافظ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے اس کام کی تنخواہ حکومت سے لیتے ہیں لیکن ان ملازمین نے اپنے نجی ملازمین رکھے ہوئے ہیں۔ جن کو وہ خرچہ اور اپنی ’’ذاتی جیب‘‘ سے تنخواہ دیتے ہیں۔ وہ اس عدالتی ریکارڈ میں اُن کی معاونت کرتے ہیں۔

یہ صورتحال عدالتی نظام کی شفافیت اور ’’انصاف کی فراہمی ‘‘ کی داستان کھلے عام سنا دیتی ہے۔ اس نظام کو مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ کرانے میں کون سے عوامل حائل ہو ں گے یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور باقاعدہ تفصیل کا متقاضی ہے۔ اس طرح دوسری مثال محکمہ محال جس کو محکمہ مال بھی کہا جاتا ہے کے پٹواریان کی ہے۔ پٹواریوں کے بارے میں پاکستان میں بیشمار لطیفے مشہور ہیں ۔ بہت حد تک یہ لطیفے ان کے مزاج کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

ہمارے یہ پٹواری حضرات بھی بڑی ڈھٹائی سے اپنے منشی ، اسٹینٹ اور جونئیر رکھے ہوئے ہیں ۔ وہ ان کی تنخواہیں اور ’’خرچہ پانی‘‘ اپنی ’’جیبِ خاص‘‘ سے برداشت کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ تمام تر سرکاری ریکارڈ میں خردبرد اور دخل درمعقول کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں۔ سینئر پٹواری صاحب افسروں اور علاقے کے سیاستدانوں اور اشرافتہ کی خدمت داری اور تواضع پر ہمہ وقت تعینات رہتے ہیں۔ سیاست چمکانی ہویا سیاسی جلسے کرنے ہوں، سیاست دانوں اور سرکاری افسران کے نجی اخراجات کا بوجھ سہارنا ہو۔ سب کچھ کے لئے آج بھی ہمارے یہ پٹواری پیش پیش ہیں۔

ریاستی نظام کے اندر چلنے والے نظام کی یہ دو مثالیں ہیں جن سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح ہمارا ریاستی ڈھانچہ بگڑا ہوا ہے ۔ آپ یقین کیجئے کسی بھی سرکاری ادارے پر انگلی رکھ دیں اور اُس کے اندر جا کر دیکھیں تو آپ کو ان کے بنائے ہوئے نظام کے اندر ایک اور نظام نظر آئے گا ۔ یہ نظام یہاں کی اشرافیہ اور افسروں کے لئے ہے۔ وہ ہی اس نظام کے مراعات یافتہ ہیں ۔ وہ ہی اِس نظام کے رکھوالے ہیں۔ انہی کو جمہوریت بھی چاہئے اور یہ نظام بھی چاہئے۔ کچھ چیلے چپاٹے بھی اس نظام کی بقا اور ارتقا کی بڑی باتیں کرتے رہتے ہیں۔

لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کس طرح اس نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے ۔ آخر عوام اس ملک کے حقیقی معنوں میں کب مالک اور حکمران بنیں گے اور ایسا کیسے ہو گا۔اس دوہرا اور تہرا نظام میں اس نظام کے مستفیض اور مراعات یافتہ خود ہی وکیل ہیں، خود ہی منصف ہیں اور خود ہی انتظامیہ ہیں۔ اصل سوال یہی ہے کہ ایسے نظام میں کرپشن ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی ناانصافی کیونکہ عوام پر ظلم و زیادتی سے ان لوگوں کا کاربارِ زندگی چلتا ہے ۔ ایسے کاروبارِ زندگی کو ختم کرنے اور انصاف فراہم کرنے کی ایسے لوگوں سے توقع ہی ناممکن ہے۔ ایسے نظام میں ’’چھوٹو‘‘ جیسے کرداروں کا جنم لینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوتی۔

اب دوبارہ ہم اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں ۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ پُرانے وقتوں میں وارڈز اور حلقوں میں ایک ’’چوکیدارا نظام ‘‘ ہوا کرتا تھا۔ اس چوکیدارانظام میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے علاقوں کی چوروں اچکوں، ڈاکوؤں ، رسہ گیروں اور راہ گیروں سے حفاظت کا انتظام کر تے تھے۔ اس نظام کی موجودگی میں پولیس کو چھوٹو جیسے ’’مخبروں‘‘ کی ضرورت بھی نہیں رہتی تھی۔ اگرچہ پولیس کے پاس اُس وقت بھی اپنے ’’مخبر‘‘ ہوتے تھے لیکن عوام کا یہ خود کار نظام اچھا تھااور علاقے کے بارے میں کافی حد تک آگاہی بھی فراہم کر دیتا تھا۔

چوری چکاری کی صورت میں تفتیش کے لئے یہ چوکیدار بہت مدد فراہم کر سکتے تھے۔ ضلعی حکومتوں کے نظام میں اس چوکیدارا نظام کی گنجائش موجود تھی۔سرمایہ داری ، نودولتیا کلچر نے نام نہاد جمہوری اچھے پہلوؤں کو بھی نگل لیا۔ لوگوں کے آپسی تعلقات بے دردی اور بے حسی سے ٹوٹے ہیں یا پھر توڑدیے گئے ہیں ۔ افرا تفری اور بے رحمانہ مسابقت ، مہنگائی ، بے روزگاری، بے جا اور خود کو بھی نہ سمجھ آنے والی انفرادیت اور سرمائے کی دوڑ نے نے اس سسٹم کو ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔

نظام ٹوٹتے اور بنتے رہتے ہیں لیکن کامیاب نظام وہاں ہوتا ہے جو معاشرے کی اکثریت کی جان و مال کا محافظ ہو۔ لوگوں کو روٹی، کپڑا ، مکان، تعلیم اور صحت کی سہولیات مفت حاصل ہوں ۔ لوگوں میں محبت و یگانگت قائم ہو۔ جب کوئی نظام ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر ’’چھوٹوگینگ‘‘ جو ’’بڑوں‘‘ کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ استحصال کو استحصال سے کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ رسہ گیری ، کرائے کے قاتل، اغوا برائے تاوان اور ڈکیٹی وغیرہ جیسے جرائم لوگوں کے انفرادی رویوں کے مسائل سے زیادہ نظام کی ناکامی ہے ۔

One Comment