اپنوں سے مجرمانہ غفلت ،غیروں پردل و جاں سے نچھاور

گردوپیش۔آصف جیلانی

14174_970800739635871_1390350985678613289_n
جواب نہیں ہمارے ملک کے ارباب حل و عقد کا۔ ملک کے طول و عرض میں دھشت گردآگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں لیکن یہ ان خون خوار وں کا سراغ لگانے اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے میں بری طرح سے ناکام نظر آتے ہیں۔البتہ پڑوسی ملک میں دہشت گرد کاروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا نہ جانے کہاں سے سراغ لگا لیتے ہیں اور یہی نہیں پڑوسی ملک کے حکام کو بر وقت اطلاع دے دیتے ہیں ۔ 

مارچ کی 6 تاریخ کو پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے ہندوستان میں اپنے ہم منصب اجیت دووال کو اطلاع دی تھی کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد سے تعلق رکھنے والے دھشت گرد وں نے ، گجرات میں دھشت گرد حملے کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔اسی اطلاع پر گجرات کے حکام نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیااور گجرات ہولناک حملوں سے بچ گیا۔ یہ اجیت دووال وہی ہیں جن کے بارے میں بلوچستان میں گرفتار ہونے والے را کے اعلیٰ افسر کلبھوشن یادو نے یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ ان سے راست رابطہ میں تھے۔

کسی سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ نریندر مودی کے قومی سلامتی کی مشیر اجیت دووال پاکستان کے سلسلہ میں دوستی کی پینگیں بڑھانے کی پالیسی کے ساتھ نہایت جارحانہ دو منہی حکمت عملی مرتب کرنے والے ’’جنگ باز شکرہ ‘‘ مانے جاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے بقول ان کے دہشت گردی کو اپنی قومی پالیسی کے آلہ کار کے طور پر ترک نہیں کیا تو پاکستان کو طالبان کے مسئلہ سے خو ن ریز کر دیا جائے گا اور اگر پاکستان نے بمبئی کی طرح اس بار دہشت گرد حملہ کیا تو پاکستان کو بلوچستاں ہاتھ سے گنوا دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

حیف صد حیف ، گجرات میں دہشت گرد حملوں کے بارے میں ہندوستان کو خبردار کرنے کے دو ہفتے بعد پاکستان کے قلب لاہور میں گلشن اقبال پارک میں دہشت گردوں کا نہایت ہولناک اور سفاکانہ حملہ ہوتا ہے جس میں 74سے زیادہ مرد ، عورتیں،جوان اور ننھے منے معصوم بچے نشانہ بنتے ہیں ۔ ان کے سوگوار پوچھتے ہیں کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سراغ رسانی کی وہ مہارت اور صلاحیت کہاں گئی ؟ جس کی بناء پر پڑوسی ملک کو تو دہشت گرد حملوں کے خطرہ سے خبردار کرنے میں غیر معمولی بیتابی دکھائی تھی ۔ 

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب پاکستان نے ہندوستان میں دہشت گرد حملوں کے خطرہ کے بارے میں خبردار کیا تھا ، ہاں البتہ یہ پہلا موقع تھا کہ جب پاکستان نے ہندوستان کو دہشت گرد حملہ کے خطرہ کے بارے میں براہ راست خبردار کیا تھا۔

اس سے قبل پاکستان نے ، اسرائیل کے توسط سے ہندوستان کو دہشت گرد حملہ کے خطرہ سے آگاہ کیا تھا، جب کہ پاکستان کا اسرائیل سے نہ تو سفارتی تعلقات ہیں اور نہ کوئی اور رابطہ ہے۔ اس کا انکشاف وکی لیکس میں شائع ہونے والے اکتوبر 2009کے امریکی سفارتی پیغام سے ہوا ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے اپنے اس خفیہ پیغام میں امریکی حکومت کو مطلع کیا تھا کہ اس زمانہ میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفیٹینٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے ایک ملاقات میں ان سے کہا تھاکہ وہ واشنگٹن کو یہ بتا دیں کہ انہوں نے ان اطلاعات کے بعد کہ ہندوستان میں ایک دہشت گرد حملہ ہونے والا ہے ، عمان اور ایران کا دورہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے براہ راست اسرائیل سے رابطہ کر کے خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ کو خبر دار کیا ہے کہ ہندوستان میں اسرائیلی ٹھکانوں اور اسرائیلیوں کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا جانے والا ہے۔ 

بہت سے مبصروں کو اس بات پر سخت تعجب ہوا کہ اگر جنرل شجاع اسرائیلوں کو براہ راست خبردار کر چکے تھے تو وہ آخر اسلام آباد میں امریکی سفیر پر اتنا کیوں زور ڈال رہے تھے کہ وہ واشنگٹن کوان کے اس کارنامہ کی اطلاع کر دیں۔ ایک ہفتہ کے بعد پندرہ اکتوبر 2009کو اسرائیل نے ہندوستان کا سفر کرنے والے اسرائیلوں کو خبردار کیا کہ وہ ہندوستان جانے سے گریز کریں کیونکہ ہندوستان میں اسرائیلوں پر حملہ کا شدید خطرہ ہے۔

اسرائیل کے انسداد دہشت گردی کے مرکز نے اس وقت یہ اعلان کیا تھا کہ نومبر 2008میں بمبئی میں جس تنظیم نے دہشت گرد حملہ کیا تھا ، اس نے اب ہندوستان میں اسرائیلوں پر حملوں کا منصوبہ بنایا ہے۔ہندوستان میں اسرائیلوں پر حملوں کے خطرہ کے بارے میں اسرایئل کو خبردار کرنے کے بارے میں یکم دسمبر 2010 کو اسرائیل کے ممتاز روزنامہ حارث میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی۔ وکی لیکس کے اس انکشاف کے بعد اب یہ حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ معزول فوجی حکمران پرویز مشرف کے پس پردہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور جنرل شجاع خفیہ رابطہ کار کا کام انجام دے رہے تھے۔

سنہ2007میں پرویز مشرف جب سنگین سیاسی بحران میں گرفتار تھے تواس وقت اسرائیل کو ان کے بارے میں سخت تشویش تھی اور اسرائیل کی یہ خواہش تھی کہ پرویز مشرف کی پاکستان پر حکمرانی برقرار رہے۔ یہ انکشاف وکی لیکس میں شائع ہونے والے ، تل ابیب میں امریکی سفارت خانہ کے خفیہ پیغام میں ہوا ہے۔ یہ خفیہ پیغام امریکا کے نائب وزیر خارجہ برنس کی اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ میئر داگان سے ملاقات کے بارے میں تھاجو 17 اگست 2007کو ہوئی تھی جس میں موساد کے سربراہ نے مشرف کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور رائے ظاہر کی کہ مشرف کو شدت پسندوں کے سنگین مسئلہ کا سامنا ہے اور خطرہ ہے کہ پاکستان کی جوہری قوت کسی اسلامی حکومت کے ہاتھ لگ سکتی ہے ۔

داگان کا کہنا تھا کہ مشرف کے لئے صدر اور فوج کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنا مشکل نظر آتا ہے اور اگر مشرف کمانڈرانچیف کا عہدہ نہ رکھ سکے توانہیں سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔داگان در اصل امریکا پر زور دے رہے تھے کہ جنوبی ایشیاء میں مغربی طاقتوں کے مفاد کی خاطر پرویز مشرف کا اقتدار بچانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

بہرحال امریکا مشرف کا اقتدار تو نہ بچا سکا البتہ اسلام آباد میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے اس زمانہ کے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی کی مدد سے انہیں مواخذہ سے بچا لیا اور آصف علی زرداری کو مجبور کیا کہ وہ مشرف کو ان کے خلاف تمام اقدامات سے مستثنٰی قراردینے کا وعدہ کریں۔ 

Comments are closed.