لیاقت علی ایڈوکیٹ
سینٹ آف پاکستان کے موجودہ اراکین نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اپنے اثاثوں کی جو تفصیلات جمع کرائی ہیں ان کے مطابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق سینٹر ز میں سب سے زیادہ غریب ہیں۔
سراج الحق پیشے کے اعتبار سے سکول ٹیچر ہیں اور کے پی کے اسمبلی کا رکن منتخب ہونے سے قبل اپنے منصب سے مستعفی ہو چکے ہیں ۔ وہ دو دفعہ کے ۔پی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں ۔ اور اکر م خان درانی کی مابینہ میں وزیر خزانہ اور خٹک کابینہ میں سنیئر وزیر جیسے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ۔
جدید سرمایہ داری نظام میں اثاثوں کی شخصی ملکیت اتنی زیادہ اہم نہیں ہے اہمیت جس چیز کا حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اثاثوں سے مستفید کو ن ہو رہا ہے ۔ سراج الحق کے اپنے نام پر یقیناًکوئی پراپرٹی اور بین اکاؤ نٹ میں رقوم موجود نہیں ہوں گی لیکن کیا غریب سراج الحق لاہور سے کراچی منٹھار سروس کی بس میں جاتے ہیں؟
کیا وہ لاہور سے پشاور تک کاسفر نیازی بس میں کرتے ہیں؟ کیا وہ ائیر پورٹس سے پرائیویٹ ٹیکسی لے کر منز ل مقصود پر پہنچتے ہیں ؟َان سوالوں کا جواب یقیناًنفی میں ہوگا ۔ملک کی سڑکوں پر ہزاروں گاڑیاں ایسی ہوں گی جو چلانے والے کے نام پر نہیں ہوں گی گو دن کے24گھنٹے اس کے زیر استعمال رہتی ہوں گی ۔
کیا سراج الحق کے کروڑوں اربوں کے اثاثوں پر دسترس نہیں رکھتے ؟ کیا وہ ان اثاثوں اور ان سے خرید ی گئی ہر قسم کی سہولتوں سے مستفید نہیں ہوتے ؟لاہو رسے جماعت کے ایک سے زائد مرتبہ منتخب ہونے رکن قومی اسمبلی سفید پوش لوگوں کی ایک بستی میں پانچ مرلے کے مکان میں رہا کرتے تھے۔ آج کل وہ ایک کنا ل گھر جو ایک پوش ایریا میں واقع وہاں رہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ گھر ان کا نہیں ہے وہ اپنے بھائی کے ساتھ رہتے ہیں ۔
ایک دوسرے صاحب جو اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھتے ہیں منصورہ کے ’ سرکاری‘ گھر سے ازمیر جیسی پوش بستی میں منتقل ہوچکے ہیں اور یہ گھر بھی ان کا نہیں ان کے بیٹے کا ہے۔ اسی طرح جیسے چوہدری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی کار نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ چوہدری صاحب پیدل گھومتے ہیں کہنا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی ملکیت کوئی کار نہیں ہے گو کہ ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے کاریں ہی کاریں ہیں ۔
سراج الحق گاندھی کی طرح کے غریب ہیں جس کے بارے میں سروجنی نائیڈو نے کہا تھا کہ’ بابے کو غریب رکھنے کے لئے کانگریس ہر ماہ اسی ہزار روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں ‘۔ لگتا ہے کہ سراج الحق کی غربت بھی جماعت اسلامی کا ماہانہ لاکھوں میں پڑتی ہو گی۔
♠
One Comment