سادھو بھی قاتلوں کی زباں بولنے لگے

رشید الدین

330715_80806373


مون سون کے آغاز کے ساتھ ہی جس طرح مینڈک نکل آتے ہیں، ٹھیک اسی طرح انتخابات کے ساتھ ہی نفرت کے سوداگر بھی سیاسی افق پر نمودار ہوجاتے ہیں۔ نفرت کی سیاست کے ذریعہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے پرچارکوں کی جو ٹیم تشکیل دی گئی تھی، ان کے چہروں اور بیانات سے عوام عاجز آچکے ہیں۔ لہذا نئے نئے چہرے مختلف کردار کی شکل میں عوام کے درمیان اشتعال اور نفرت کا بیج بونا چاہتے ہیں ، تاکہ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچے۔

یوں تو ابھی بھی بیشمار نفرت کے سوداگر بے لگام ہیں لیکن ملک میں یوگا گرو اور بابا ہونے کا دعویٰ کرنے والے رام دیو نے اشتعال انگیزی کی تمام حدود کو پار کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر دستور و قانون کا پاس و لحاظ نہ ہوتا تو وہ ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کا نعرہ لگانے سے انکار کرنے والے لاکھوں سر قلم کردیتے۔ دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی کے پسندیدہ چیف منسٹر دیویندر فڈنویس نے نعرہ سے انکار کرنے والوں کو ملک سے چلے جانے کا مشورہ دیا ہے۔

رام دیو کے بیان سے بی جے پی نے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ان کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ رام دیو کا بھلے ہی بی جے پی سے تعلق نہ ہو لیکن چیف منسٹر مہاراشٹرا کے بارے میں کیا کہیں گے۔ جس شخص نے دستور کی پاسداری کا حلف لیا، وہ جب اس طرح کا بیان دے تو عہدہ پر برقراری کے حق سے محروم ہوجائے گا۔ بی جے پی بھلے ہی کچھ عذر پیش کرے لیکن یہ دونوں بھی وزیراعظم سے کافی قریب ہیں ۔ یوگا گرو کے نام سے شہرت حاصل کرتے ہوئے بابا کا رول اختیار کرنے والے رام دیو نے یو پی اے حکومت کے خلاف کالے دھن کی واپسی کے عنوان سے مہم چلائی تھی۔ یہ مہم دراصل بی جے پی کے حق میں تھی۔

رام دیو نے علحدہ سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کیا لیکن بعد میں دستبرداری اختیار کرلی۔ کالے دھن واپسی کی مہم کی بی جے پی نے مکمل تائید کی تھی۔ اسی بابا نے لوک سبھا انتخابات میں نریندرمودی کے حق میں مہم چلائی اور ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی نام نہاد بابا ، بزنس مین بن گئے اور مودی حکومت کی سرپرستی میں مختلف غذائی پروڈکٹس کی فروخت کا آغاز کردیا۔ اس طرح نریندر مودی کے وزیراعظم بنتے ہی عوام کے اچھے دن تو نہیں آئے لیکن رام دیو راتوں رات بڑے صنعتکاروں کی صف میں شامل ہوگئے۔

حقیقی سنت ، بابا اور سادھو کی زبان سے کبھی نفرت کے بول نہیں نکل سکتے لیکن یہ ماڈرن بابا ہیں جن سے اچھائی کی امید عبث ہے۔ انہوں نے جس اشتعال انگیز بیان سے ماحول بگاڑنے کی کوشش کی، ان کی جگہ تو جیل کی سلاخوں میں ہونی چاہئے۔ حکومت اور پولیس کو اپنے طور پر مقدمہ درج کرنا چاہئے تھا ۔ اگر کوئی مسلمان اس طرح کا بیان دیتا تو ملک کے کئی علاقوں میں ملک دشمنی کے مقدمات درج کئے جاتے۔ ٹی وی چینلز پر مباحث ہوتے اور اینکرز گلا پھاڑ کر جیل بھیجنے کا مطالبہ کرتے۔

لیکن اس رام دیو بابا کے بارے میں ٹی وی چینلزپر سناٹا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس بابا کے سر پر ’’مودی بابا‘‘ کا ہاتھ ہے۔ سیکولرازم کی دعویدار سیاسی جماعتوں کی بے حسی باعث حیرت ہے۔ مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو بھی صرف اخبارات تک ردعمل محدود رکھنے کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ مستقبل میں کوئی اور اس طرح کی اشتعال انگیزی کی جرات نہ کرے۔ لاکھوں افراد کی گردن اڑانے کی بات کرنا صاف طور پر مسلم دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ وہی بہادر رام دیو ہیں جنہوں نے کالے دھن کی واپسی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ میں پولیس کے دھاوے سے گھبراکر بقول اعظم خاں ’’زنانی لباس‘‘ میں راہِ فرار اختیار کی تھی ۔

سوئز بینکوں میں ہندوستانیوں کے کالے دھن کی پہلی فہرست پر ابھی کارروائی شروع بھی نہیں ہوپائی کہ پناما پیپرز کے انکشافات نے بی جے پی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ کالے دھن کے سلسلہ میں جو نئے انکشافات منظر عام پر آئے ، ان میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعظم ارون جیٹلی کے قریبی افراد کے نام شامل ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کی مختلف اسکیمات کے برانڈ ایمبسیڈر امیتابھ بچن کا نام بھی اس فہرست میں بتایا گیا ہے۔ پناما انکشافات کے بعد دنیا بھر میں ہلچل دیکھی جارہی ہے لیکن ہندوستان میں سناٹا ہے۔

آئس لینڈ کے وزیراعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا جبکہ وزیراعظم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون پر بھی دباؤ بڑھنے لگا ہے۔ اس فہرست میں کئی ممالک کے سربراہان اور ہندوستان کے صنعت کاروں کے نام منظر عام پر آئے ہیں۔ ہندوستانی حکومت کالے دھن کی جانچ کے بجائے ریزرو بینک آف انڈیا کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ مذکورہ انکشافات کی کوئی اہمیت نہیں۔

ریزرو بینک آف انڈیا یعنی آر بی آئی کے گورنر نے یہاں تک کہہ دیا کہ انکشافات کے سلسلہ میں کوئی نتیجہ جلد بازی میں اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ پناما انکشافات میں شخصیتوں اور ان سے متعلق حسابات بھی پیش کئے گئے۔ ایسے میں حکومت جانچ کرنے کے بجائے مسئلہ کو سرد خانے کی نذر کرناچاہتی ہے تاکہ اپنی حواریوںکو بچایاجاسکے۔ پناما انکشافات نے وزیراعظم سے قربت رکھنے والے اڈانی گروپ کو بھی بے نقاب کیا لیکن وزارت فینانس ان معاملات کی جانچ کیلئے تیار نہیں اور صرف زبانی جمع خرچ اور بیانات دیئے جارہے ہیں۔

Daily Siasat, India

Comments are closed.