ٹالسٹائی
بڑی بہن، اپنی چھوٹی بہن سے ملنے دیہات گئی۔ بڑی بہن کی شادی ایک تاجر سے ہوئی او روہ شہر میں رہتی تھی۔ چھوٹی بہن کی شادی ایک کسان سے ہوئی اور وہ ایک دیہات میں رہتی تھی۔ ایک رات کھانے سے فارغ ہوکر دونوں بہنیں چارپائی پر بیٹھیں او راپنے بچپن کو یاد کرنے لگیں۔ دونوں بڑے مزے سے بچپن کی شرارتیں یاد کرکے ان پر خوب ہنسنے لگیں۔ ہر طرف سے مچھروں کی یلغار ہورہی تھی او ربڑی بہن مچھروں کے کاٹنے سے سخت بیزار ہورہی تھی۔ بڑی بہن نے کہا کہ شہر میں ان کے گھر میں اتنے مچھر نہیں ہوتے کیونکہ دروازوں اور کھڑکیوں پر جالیاں لگی ہوئی ہیں۔ کھڑکیوں اور دروازوں پر لگی جالیوں سے بات شروع ہوئی او ربڑی بہن شہر میں رہنے کے سکھ اور آرام کی ڈینگیں مارنے لگی۔ اس نے کہا کہ اس کے بچے او روہ خود اچھے کپڑے پہنتے ہیں۔ اچھے کھانے کھاتے اور طرح طرح کے مشروبات پیتے ہیں۔ تفریح کے لئے تماشا گھروں یا پارکوں میں جاتے ہیں۔
چھوٹی بہن کو اپنی بڑی بہن کی باتوں سے سخت کوفت ہورہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں اپنی دیہاتی زندگی کا شہری زندگی سے مقابلہ کرنے لگی۔ بڑی بہن کی باتوں سے اس نے بے عزتی محسوس کی او رکہنے لگی:۔
’’تمہارے کہنے سے تو میں اپنی زندگی بدلنے سے رہی۔ ہم بھلے ہی بڑی محنت سے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں مگر ہمیں اس میں سکھ ملتا ہے۔ تم بلاشبہ ہم لوگوں سے زیادہ کماتے ہو او راسی وجہ سے تم ہم سے اچھی زندگی گزارتے ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم اپنے معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے جائز، ناجائز سب کچھ کر گزرتے ہو۔ او رمجھے یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں اپنے اس عیش وآرام کے چھن جانے کا خوف ہمیشہ رہتا ہے۔ہمارا معیار زندگی اس قدر سادہ ہے کہ ہمیں اس کے چھن جانے کا کوئی خوف نہیں۔ اس لحاظ سے ہمارا زندگی بسر کرنے کا طریقے خاصا محفوظ ہے او ریہ زیادہ سے زیادہ دیر تک برقرار رکھا جاسکتا ہے۔‘‘
بڑی بہن کو چھوٹی بہن کی بات پسند نہ آئی اور اس نے ناک بسورتے ہوئے کہا:۔’’بس کرو، تم لوگ تو ڈھورڈنگروں کے ساتھ ڈھورڈنگر ہوگئے ہو۔ تمہیں یہ سب اچھا لگتا ہے۔ تمہیں کیا معلوم کہ زندہ رہنے کا سلیقہ او روقار کیا ہوتا ہے؟ گوبر کا ڈھیر ہی تمہاری او رتمہارے بچوں کی قسمت ہے۔‘‘
چھوٹی بہن نے جواب دیا:۔’’ اس سے کیا ہوتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے کام میں سخت جھمیلاہے اور تھوڑی سی پیداوار کے لئے سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہم محنت سے نہیں کتراتے بلکہ بڑے فخر سے جو تھوڑا بہت کماتے ہیں، صبر شکر سے کھالیتے ہیں۔ ہمیں اس کے لئے کسی کے سامنے سرجھکانا نہیں پڑتا۔شہروں میں طرح طرح کی ترغیبات تمہیں اپنی طرف اکساتی ہیں۔ ضرورت ہویا نہ ہو، ان ترغیبات کے پیچھے جانا او راس کے لئے تگ ودو کرنا تمہارا معمول ہے۔ یہ تو غلامی ہوئی۔ ایسی ترغیبات بھی ہیں جن سے گھر اجڑ جاتے ہیں۔ ذرا سوچو اگر تمہارے شوہر کو جواکھیلنے او رشراب پینے کی لت پڑجائے، یا وہ خواتین سے میل میلاپ بڑھالے، تو سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔ کیا ایسی ترغیبات شہر میں مردوں کا پیچھا نہیں کرتیں، کیا ایسا ہوجانا ممکن نہیں۔۔۔؟‘‘
پاس ہی چھوٹی بہن کا شوہر، دن بھر کی مشقت سے تھکا ماندہ، چارپائی پر بے سدھ پڑا، دونوں بہنوں کی گفتگو غور سے سن رہا تھا۔ اس کے دماغ میں خیال آیا کہ کسانوں کی زندگی اس قدر مصروف ہوتی ہے کہ انہیں ایسی ویسی ترغیبات کی فرصت ہی کہاں ہوتی ہے۔ بچپن سے ہی کسانوں کے بچے زمین کے ساتھ اس قدر منسلک ہوجاتے ہیں کہ انہیں کچھ او رکرنے کا سوجھتا ہی نہیں۔ بڑی محنت سے تھوڑی سی زمین پر اپنی ضرورت کا اناج اگانا پڑتا ہے۔ اگر زمین کا ٹکڑا تھوڑا سا بڑا ہوجائے تو میں شیطان کے خوف سے بھی آزاد ہوجاؤں۔ دونوں بہنیں بحث مباحثے سے تھک گئیں او رسونے کے لئے چلی گئیں۔
چھوٹی بہن کا خاوند جب شیطان کے خوف سے آزاد ہونے کاسوچ رہا تھا، اسی وقت شیطان بھی وہاں آن پہنچا۔ شیطان نے فوراً منصوبہ بنایا کہ وہ اس کسان کو زمین کا ایک ٹکڑا دے کر، اسے ایسے جھنجٹ میں پھنسالے گا کہ یہ اس کا غلام ہوکر رہ جائے گا۔
گاؤں کے قریب ہی ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔ وہ تین سوایکٹر زمین کی مالکہ تھی۔ وہ نیک دل تھی او راپنے مزارعوں کا بہت خیال رکھتی تھی۔ جب بڑھاپے کی وجہ سے وہ خودزمینوں کی نگرانی کرنے کے قابل نہ رہی تو اس نے ایک ریٹائرڈفوجی کو زمینوں کی نگرانی کاکام سونپ دیا۔ فوجی، مزارعوں پر بڑی سختی کرتا تھا۔ اگر ان کا کوئی جانور غلطی سے کھیت میں گھس جاتا تو وہ مزارعوں پر ہرجانہ لاگو کردیتا۔ مزارعے ہرجانے تو ادا کردیتے مگر فوجی او راس کی مالکہ کے خلاف بڑبڑاتے رہتے۔ وہ اس قدر پریشان ہوجاتے کہ راستے میں ملنے والے ہر شخص کو ہر جانے کا قصہ سناتے او رگھر جاکر اپنے بچوں او ربیویوں پر غصہ نکالتے۔ ساری گرمیاں، بے چینی کا یہ سلسلہ جاری رہتا مگر سردیوں میں شاید برفباری کے باعث چونکہ جانور گھروں پر ہی رہتے، اس لئے ہر جانے او راس سے پیدا ہونے والی تلخی کی فضا ختم ہوجاتی۔
جاڑے کے دوران بوڑھی مالکہ نے اپنی زمین بیچنے کا ارادہ کیا۔ اس نے اسی علاقے کے ایک رئیس سے زمین بیچنے کی بات چلائی۔ جب یہ خبر غریب مزارعوں کو ملی تو وہ سخت پریشان ہوگئے۔ رئیس سخت بدمزاج تھا۔ مزارعوں کو فکر لاحق ہوگئی کہ یہ فوجی سے بھی زیادہ پریشان کرے گا۔ تمام مزارعین مل کر زمین کی بوڑھی مالکہ سے ملے او راس سے درخواست کی کہ وہ زمین ان کو بیچ دے۔ انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا کہ وہ اس رئیس سے طے ہونے والی رقم سے زیادہ کی ادائیگی کریں گے۔ بوڑھی مالکہ اس بات پر راضی ہوگئی۔ تمام مزارعین نے زمین خریدنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی بنانے کا منصوبہ بنایا اور اس پر آپس میں مشورہ بھی شروع کردیا۔ معاملہ طے ہونے والا تھا کہ شیطان نے ان کے دلوں میں ذاتی ہوس کا رخنہ ڈال دیا اور اس طرح بنی بنائی حکمت عملی پر اتفاق نہ ہوسکا۔ آخر مزارعین نے انفرادی طور پر اپنی استطاعت کے مطابق زمین خرید نے کا منصوبہ بوڑھی مالکہ کو سنایا۔ مالکہ اس پر بھی راضی ہوگئی۔
چھوٹی بہن کے خاوند، سراج دین کو معلوم ہوا کہ اس کے ہمسائے نے بوڑھی مالکہ سے پچاس ایکڑ اراضی خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے او ریہ کہ مالکہ آدھی رقم کی فوری ادائیگی او ربقہ رقم فصل کی کٹائی کے بعد لینے پر رضا مند ہوگئی ہے۔
سراج کو اپنے ہمسائے پر رشک آیا اور اس نے سوچا کہ اس طرح ساری زمین لوگ لے جائیں گے او راس کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ اس نے اپنی بیوی سے بات کی:’’گاؤں کے لوگ اپنی توفیق کے مطابق زمین خرید رہے ہیں، ہمیں کم از کم20ایکٹر اراضی تو ضرور خرید لینی چاہئے۔ زندگی تو مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے او رپھر ہر روز ہرجانے بھرنے سے تو ہماری کمر ٹوٹ گئی ہے۔۔۔!!‘‘
میاں بیوی نے رقم اکٹھی کرنے کی کوشش شروع کردی۔ ان کے پاس ایک سور روپے پڑے تھے۔ انہوں نے گھوڑے کا بچھیرا بھی بیچ دیا۔ شہد کی مکھیوں کے آدھے چھتے فروخت کردیے۔ ایک بچے کو مزدوری پر لگا دیا او راس کی مزدوری کے عوض پیشگی رقم لے لی۔ کچھ رقم ایک رشتے دار سے ادھارلی اور اس طرح ساری رقم سے چالیس ایکڑ اراضی کی نصف قیمت ادا کرنا ممکن ہوگیا۔
سراج دین نے چالیس ایکٹر اراضی کا ایک قطعہ منتخب کیا۔ اس پر کچھ درخت بھی موجود تھے۔ وہ نصف قیمت کے برابر رقم لے کر جاگیر کی مالکہ کے پاس گیا او رسودا پکا کرلیا۔ بعد ازاں شہر جاکر عدالت میں بیعنامے کی توثیق کروالی۔نصف رقم آئندہ دو برس میں ادا کرنا طے پائی۔
سراج دین ایک بڑے قطعہ اراضی کا مالک بن گیا۔ اس نے اس زمین پر بونے کے لئے بیج ادھار لیا۔ خوب اچھی طرح زمین تیار کی اور بیج بودیا۔ فصل اچھی ہوئی۔ اس نے ایک سال میں ہی بقیہ نصف قیمت خرید اور رشتے دار کا قرض ادا کردیا۔ اس طرح وہ پورے ملکیتی اختیار اور ذاتی تشفی کے ساتھ کاشت کاری کرنے لگا۔اب اسے کسی قسم کے ہرجانے کا خوف نہ تھا۔ وہ بلاٹوک اپنے مویشوں کو اپنی زمین پر موجود کھلی جگہوں پر چھوڑ دیتا، جب ضرورت ہوتی درخت کاٹتا او ریہ سب کام اس کے دل میں خوشی بھردیتے۔ اپنی زمین پر اگا ہر پودا او رفصل اسے جہان سے الگ اور انوکھی محسوس ہوتی۔ وہ خریدنے سے پہلے بھی اس زمین کے پاس سے گزرتا تھا اور اسے یہ عام زمینوں سی ایک معمولی زمین محسوس ہوتی، مگر اب یہ سارے جہان سے الگ او ربے مثال۔۔۔
III
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا او رسراج دین اپنے تمام معاملات زندگی سے خوش تھا۔ اچانک ایک معاملے نے اسے سخت کوفت میں ڈال دیا۔ ہوایوں کہ اس کے ہمسایے کسان اس کی زمین پر بے جا مداخلت کرنے لگے۔ وہ کبھی اپنی گایوں کو ہری بھری فصل میں چھوڑدیتے تو کبھی رات کو گھوڑے فصل اجاڑ جاتے۔ سراج باربار کسانوں کو ایسا کرنے سے منع کرتا مگر ان پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ اس نے ان پر ہر جانہ بھی لاگو کیا مگر سب اکارت ثابت ہوا۔ دیہات کا نمبردار بھی ان شرارتوں میں کسی سے پیچھے نہ تھا۔ سراج دین سخت الجھن میں تھا کہ کرے تو کیا کرے؟ اس نے اپنے غصے کو ٹھنڈارکھنے کے لئے، دل کو سمجھایا کہ غریب کسانوں کے پاس کافی زمین نہیں ہوتی، اس لئے وہ اپنی چارے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسروں کی زمینوں میں اپنے جانور چھوڑ دیتے ہیں۔وہ بھی تو پہلے ایسا ہی کرتا تھا۔ ایسا سوچنے سے اسے وقتی طور پر سکون تو ہوا مگر جب مداخلت بے جا کا سلسلہ بڑھتا ہی گیا تو اس میں صبر کرنے او راپنے آپ کو سمجھانے کی طاقت ختم ہوگئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ شہر جاکر کسانوں کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کرے گا۔ آخر نقصان برداشت کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو سبق تو سکھانا ہی ہوگا۔ یہی آخری طریقہ ہے جس کو استعمال کرکے فصلوں کی حفاظت ممکن ہوگی۔
سراج دین نے عدالت کے ذریعے، ایک کے بعد دوسرے کسان پر ہرجانہ عائد کروایا۔ کسانوں نے ہر جانہ تو ادا کردیا مگر وہ دل ہی دل میں سراج دین کے خلاف عداوت پالنے لگے۔ اب وہ جان بوجھ کر اس کی ہری بھری کھیتیوں میں جانور چھوڑ دیتے او راس طرح فصل برباد ہوجاتی۔ ایک کسان نے تو ایک رات کیکر کے پانچ درخت کاٹے اور ان کی چھال اتار کرلے گیا۔ اس نے ننگے تنے وہیں چھوڑ دیے۔ اگلے دن سراج دین کا جب ادھرسے گزر ہوا تو وہ ان تنوں کو دیکھ کر آگے بگولا ہوگیا۔ اس نے سوچا’’اگر یہ خبیث شخص ایک آدمی درخت کاٹ لیتا تو کوئی ایسی بات نہ تھی۔ اس نے کیسی بے دردی سے اکٹھے پانچ درخت کاٹ ڈالے۔ اگر مجھے اس شخص کا پتہ چل جائے تو اسے ایسا مزا چکھاؤں گا کہ زندگی بھر یاد رکھے گا او ردوسرے کو بھی عبرت ہوگی۔۔۔‘‘
سراج دین کا شک مختلف لوگوں کی طرف گیا۔ آخراس کا دھیان شبیر ے کی طرف گیا۔ شبیرا تو پہلے ہی گاؤں بھر میں ایک نمبر کا اچّکا مشہور تھا۔ سراج دین نے سوچا، ہونہ ہو یہ درخت کاٹنے کاکام اسی نے کیا ہوگا۔ وہ شبیرے کے ڈیرے پر گیا اور چپکے چپکے وہاں ہر جگہ کی تلاشی لی۔ درختوں کی چھال کا کہیں نام ونشان نہ تھا۔ سراج دین کو سخت غصہ آیا او راس نے سوچا، شبیرا چھٹا ہوا بدمعاش ہے او راس نے یقیناًچھال کہیں چھپا دی ہے۔ سراج دین نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے شبیرے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ اسے پکا یقین تھا کہ چوری اسی نے کی ہے۔ شبیرے کو عدالت میں طلب کیا گیا۔ تفتیش ہوئی مگر جرم ثابت نہ ہوسکا۔ شبیرے کو بری کردیا گیا۔ سراج دین کے غصے کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس نے اپنے غصہ گاؤں کے نمبردار او رمنصفوں پر نکال دیا:
’’تم سب اس چور شبیرے کے ساتھ ملے ہوئے ہو۔ تم نے اس سے رشوت لے کر اسے بری کردیا۔ اگر تم ایماندار ہوتے تو کبھی ایسا نہ کرتے۔۔۔‘‘
پورے گاؤں میں سراج دین کے اس رویے پر باتیں ہونے لگیں۔ اگر کوئی شخص سراج دین کو سمجھانے کی کوشش کرتا تو وہ اس سے الجھ پڑتا۔ سب لوگ سراج دین کے خلاف ہوگئے بلکہ کچھ لوگوں نے اس کا گھر جلانے اور گاؤں سے نکالنے کی بھی بات کی۔ اب سراج دین کی زمین زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے دشمنوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔
اسی دوران گاؤں میں ایک پیش رفت ہوئی۔ ہوایوں کہ گاؤں سے کافی دور، دریا کے اس پار، کچھ لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی۔ سراج دین اس بات سے بہت خوش ہوا۔ اس نے سوچا کہ چلو،ان لوگوں کے جانے سے جو زمین خالی ہوئی وہ اسے خرید لے گا اور اس کی جاگیر او ربھی بڑی ہوجائے گی۔ گاؤں میں آبادی کی بھیڑ کم ہوگی اور سکھ کا سانس لینا ممکن ہوگا۔
ایک دن سراج دین اپنے گھر کے سامنے سڑک پر بیٹھا تھا۔ وہاں سے ایک کسان کا گزر ہوا۔ کسان تھکا ماندہ تھا او راسے رات گزارنے کے لئے جگہ درکار تھی۔ سراج دین نے اسے اپنے گھر میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ رات کو اسے کھانا دیا۔ کھانے کے بعد دونوں اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ کسان نے سراج دین کو بتایا کہ وہ دریا پار کے علاقے سے آیا ہے جہاں اس گاؤں کے لوگ نقل مکانی کررہے ہیں۔ اس نے اس علاقے کے بارے میں بتایاکہ وہاں لوگ برادری کی صورت میں رہتے ہیں۔ برادری میں شامل ہر شخص کو25۔ایکڑاراضی دے دی جاتی ہے۔ زمین بہت زرخیز ہے او رہر فصل بہت اچھی ہوتی ہے۔ ایک کسان کچھ عرصہ پہلے یہاں آیا تھا اور اب اس کے پاس چھے گھوڑے اور دوگائیں ہیں۔ سراج دین کے دل میں خیال آیا’’یہ تو بڑے کمال کی بات ہے، جتنی محنت میں ادھر کرتا ہوں اگر اتنی محنت میں اس جگہ کروں تو یہاں کے مقابلے میں بہت زیادہ کماسکتا ہوں۔ پھر یہ گاؤں تو ویسے بھی رہنے کے لائق نہیں رہا۔ اتنے لوگ اور وہ بھی چوراچّکے۔۔۔ اگر میں یہ ساری جائیداد او رمویشی فروخت کردوں تو وہاں بے شمار زمین خرید سکتا ہوں۔ وہاں سب کچھ نیا ہوگا، نئی زندگی کیسی اچھی ہوگی!‘‘
مگر سراج دین نے اپنے جذبات کو ذرا پرے دھکیلا او رسوچا کہ اسے پہلے خود جاکر اس علاقے کا جائزہ لینا چاہئے۔ گرمی کے موسم میں وہ اس علاقے کی طرف گیا۔ یہ تو کئی سو کلومیٹر دور تھا۔ آخر کار وہ اس علاقے میں پہنچ گیا۔ اسے ویسا ہی پایا جیسا کہ اس کے گھر ٹھہرنے والے کسان نے اسے بتایا تھا۔ ہر کسان25ایکڑ کے علاوہ نہایت کم دام پر جتنی چاہے ذاتی اراضی بھی خرید سکتا تھا۔
ہر طرح کی تسلی کے بعد سراج دین گھر واپس لوٹا۔ واپس آتے ہی اس نے اپنی زمین، جائیداد اور ڈھورڈنگر بیچنا شروع کردیے۔ بہا رآتے ہی وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ دریا پار نئے علاقے کی طرف روانہ ہوگیا۔
IV
دریا کے پار پہنچتے ہی، سراج دین گاؤں کی برادری میں باقاعدہ طور پر شامل ہوگیا۔برادری میں شمولیت کے ضروری کاغذات ملنے کے ساتھ ہی اسے اراضی کے طے کردہ پانچ حصے لینے کا اہل قرار دے دیا گیا۔ اس طرح اسے اور اس کے بیٹوں کو مجموعی طور پر125 ایکڑ اراضی دے دی گئی۔ یہ اراضی گاؤں کے مختلف علاقوں میں بکھری تھی۔ اسے مویشی چرانے کے لئے گاؤں کی مشترکہ چراگاہ میں جانے کی بھی اجازت مل گئی۔ سراج دین نے اپنی ضرورت کے مطابق ایک عمارت تعمیر کی۔ مویشی خریدے۔ گھر بنانے کے لئے بہت موزوں تھی۔ بہت جلد وہ بہت خوشحال ہوگیا۔ اس کی آمدنی پرانے گاؤں کی آمدنی کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہوگئی۔ اس کے پاس زیر کاشت رقبہ اور چراگاہ کی سہولت اس قدر زیادہ تھی کہ وہ جتنے مویشی چاہتا، رکھ سکتا تھا۔
جب نئے علاقے میں آباد کاری کاکام تسلی بخش طور پر مکمل ہوگیا او راس کی آمدنی پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگئی تو سراج دین نے سوچنا شروع کیا کہ یہ تمام سہولیات اس کے عزائم کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔ اس نے پہلے سال برادری کی طرف سے ملی زمین پر گندم بھی کاشت کی۔ گندم کی فصل بہت اچھی ہوئی مگر زیادہ اراضی پر گندم کی کاشت کرنے کا اس کا منصوبہ پورا نہ ہوسکا۔ اس نے آئندہ سال ان کسانوں سے زمین ٹھیکے پر لینا شروع کردی جو خود کاشت نہ کرسکتے تھے۔ یہ زمین گاؤں سے قریباً15کلو میٹر دور تھی۔ اتنے فاصلے پر کاشت کاری کا انتظام کرنا اور فصل کو گھر تک لانا خاصا مسئلہ تھا۔ سراج دین نے منصوبہ بنایا کہ کیوں نہ اس جگہ زیادہ سے زیادہ زمین کرایے پر حاصل کرلی جائے اور اس کے لئے الگ بندوبست کرلیا جائے۔ اس طرح انتظام آسان ہوجائے گا او رآمدنی بھی بڑھ جائے گی۔
تین برس میں سراج دین نے کرایے کی زمین پر گندم کاشت کی۔ فصلیں اچھی رہیں او راس نے بہت سا روپیہ کما لیا۔ اس نے سوچنا شروع کیا کہ کرایے پر زمین لینے کے جھنجٹ میں پڑنے کی بجائے کیونکہ زمین خریدلی جائے۔ ویسے بھی اس کے خیال میں کرایے پر زمین لینے کا معاملہ خاصا ٹیڑھا تھا۔ تیسرے برس اس کا کسانوں سے اس سلسلے میں تنازعہ بھی کھڑا ہوگیا تھا۔ کرایے پر دی جانے والی زمین کے کسان اپنی زمین بوائی کے لئے تیار کرچکے تھے او روہ اس کا کرایے کے علاوہ عوضانہ بھی مانگ رہے تھے۔ اس پر تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ معاملہ عدالت تک گیا او رسراج دین کو خاصی رقم دے کر جان خلاصی کروانا پڑی۔ سراج دین کو اس وقت بھی خیال آیا تھا کہ اگر زمین پر اس کی ملکیت ہوتی تو یہ ناخوشگوار واقعہ سرے سے ہوتا ہی نہ۔ اگر زمین اپنی ہوتو وہ آزادی کے ساتھ جوچاہتا، کرسکتا تھا۔
سراج دین نے مزید زمین خریدنے کے لئے اِدھر اُدھر دھیان رکھنا شروع کردیا۔ اسے ایک کسان کے بارے میں پتہ چلا جس نے تیرہ سو ایکڑ زمین خریدی تھی مگر اسے یہ زمین سنبھالی نہ گئی او رآخر کار اس نے اسے بیچنے کا ارادہ کرلیا۔ سراج دین نے اس سے بات چیت کی اور آخر کچھ رقم فوری اور بقیہ رقم بعد ازاں ادا کرنے پر سودا طے پاگیا۔
انہی دنوں سراج دین کے پاس ایک شخص آیا۔ اسے اپنے گھوڑے کے لئے چارے کی ضرورت تھی۔ سراج دین نے اسے چارہ دیا۔ بات چیت کے بعد معلوم ہوا کہ وہ زمین کا بیوپاری تھا اور کسی دور دراز علاقے سے یہاں آیا تھا۔ سراج دین نے اسے اپنی زمین کی نئی خریداری کا بتایا۔ بیوپاری نے اسے بتایا کہ اس نے جو سودا کیا ہے وہ خاصا مہنگا ہے او راتنی رقم میں وہ کہیں زیادہ زمین خرید سکتاہے۔بیوپاری نے سراج دین کو بتایا کہ اس نے خودنہایت سستے داموں پر زمین خریدی ہے او راس کا بیعنامہ بھی اسے دکھایا۔ سراج دین کو اشتیاق ہوا او راس نے اس علاقے کے بارے میں دریافت کیا جہاں اتنی سستی زمین لینا ممکن تھا۔ بیوپاری نے بتایا کہ یہ علاقہ خاصا دور ہے او روہاں کے لوگ نہایت سادہ او ربھولے ہیں۔ سراج دین کی بے تابی دیکھ کر بیوپاری نے اسے اندر کی بات بھی بتائی:۔’’ اصل معاملہ اس علاقے کے چودھریوں کو خوش کرنے کا ہے۔ میں ان کو خوش کرنے کے لئے مختلف تحائف لے گیا اور انہوں نے سستے داموں پر مجھے زمین دے دی۔ زمین دریا کے ساتھ ہے اور ابھی تک کسی نے وہاں کاشت کاری نہیں کی۔ زمین اس قدر طاقتور ہے کہ یہ سونا اگلے گی۔‘‘
سراج دین کے ذہن میں مستقبل کی ایک خوبصورت تصویر بن رہی تھی او راس کے دل میں خوشی کے ساتھ ساتھ بے چینی بھی پیدا ہورہی تھی۔ وہ اس بے چینی کو کم کرنے کے لئے بیوپاری سے طرح طرح کے سوالات کررہا تھا۔ بیوپاری نے اس کی اس حالت کو بخوبی پہچانا او رکہنے لگا:۔’’ یہی نہیں، تم جس قدر چاہو زمین لے سکتے ہو، اتنی بڑی جاگیر بناسکتے ہو کہ تم اپنی جاگیر پر ایک برس بھی چلتے رہو، تو بھی ختم نہ ہوگی۔ اس علاقے میں رہنے والے لوگ معصوم اور بھولے ہیں۔ تم انہیں نہ ہونے کے برابر قیمت دے کر، زمین لے سکتے ہو‘‘۔
سراج دین اپنے موجودہ سودے پر بڑا پشیمان ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ جتنی رقم میں اس زمین کا سودا کیا ہے اس رقم میں بہت زیادہ زمین حاصل کی جاسکتی ہے۔
V
سراج دین نے بیوپاری سے اس علاقے تک پہنچنے کا راستہ معلوم کیا۔ جونہی بیوپاری رخصت ہوا، اس نے اس علاقے تک پہنچنے کی تیاری شروع کردی۔ اس نے گھر بار کی نگرانی اپنی بیوی کے سپرد کی اور ایک شخص کو ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوگیا۔ راستے میں وہ ایک بڑے قصبے سے گزرے۔ اس نے بیوپاری کی ہدایت کے مطابق بہت سے اچھے اچھے تحائف خرید لئے۔ یہ تحائف اس نے اس علاقے کے بااثر لوگوں کو دینا تھے۔ وہ کئی دنوں تک سفر کرتے رہے۔ آخرکار اس علاقے تک پہنچ گئے۔
اس علاقے میں لوگ گھروں کی بجائے خیموں میں رہتے تھے۔ یہ قبائلی لوگ تھے او ربڑے سادہ اور بھولے تھے۔ یہ دریا کے ساتھ پھیلے کھلے میدان میں رہتے تھے۔ ان کی خوراک کا انحصار گوشت او رپنیر وغیرہ پر تھا۔ چونکہ انہیں اناج وغیر ہ کی ضرورت ہی نہیں تھی، اس لئے وہ کاشت کاری نہیں کرتے تھے۔ ان کے مویشی او رخاص طور پر گھوڑے دریا کے کنارے چرتے رہتے۔ گھوڑیوں کا دودھ پیاجاتا اور اس سے پنیر بھی بنایا جاتا تھا۔ زیادہ تر کام عورتیں کرتیں۔ مردگوشت کھاتے، طرح طرح کے مشروبات پیتے اور موج اڑاتے۔ موسیقی سے دل بہلاتے اوراس کے علاوہ کوئی او رکام نہ کرتے تھے۔ ان کو پڑھنا لکھنا بھی نہ آتا تھا مگر یہ بات طے تھی کہ وہ سب دل کے بہت اچھے تھے۔
جیسے ہی سراج دین انہیں نظرآیا وہ سب خیموں سے نکل، اس کی طرف لپکے۔ وہ سب سراج دین کے اردگرد جمع ہوگئے۔ سراج دین کی بولی انہیں سمجھ نہیں آتی تھی، اس لئے ایک مترجم ڈھونڈا گیا۔ سراج دین نے انہیں بتایا کہ وہ ان کے پاس زمین خریدنے کے سلسلے میں آیا ہے۔ وہ سب بڑی توجہ اور معصومیت سے اس کی باتیں سننے لگے۔ وہ اسے خاطر داری کی غرض سے ایک اچھے والے خیمے میں لے گئے۔ اس خیمے میں ایک بڑا قالین بچھا تھا اور اس پر کئی ایک گدے لگے ہوئے تھے۔ سب اس کے اردگرد بیٹھ گئے۔ سراج دین کی مشروبات سے تواضع کی گئی۔ فوراً ایک بھیڑ کو ذبح کیا گیا تاکہ اس کے کھانے کا بندوبست کیا جاسکے۔ سراج دین نے اپنی گھوڑا گاڑی سے تحائف نکالے اور ان لوگوں میں تقسیم کردیے۔ یہ لوگ تحائف لے کر بہت خوش ہوئے۔ وہ خوشی سے آپس میں باتیں کرنے لگے۔ ان میں سے ایک بزرگ نے مترجم سے کچھ کہا او راسے ہدایت دی کہ وہ ترجمہ کرکے سراج دین کو بتائے۔ مترجم نے کہا:’’ یہ لوگ تمہیں یہاں آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے تمہاری جو بھی خاطر مدارت کی وہ ان کی روایتی مہمان نوازی کا حصہ ہے۔ تم نے جو تحفے ان کو دیے وہ ان کے لئے تمہارے شکر گزار ہیں۔ تم کسی بھی چیز کا نام لو، تاکہ وہ چیز تمہیں دے کر ان تحفوں کا شکریہ ادا کیا جاسکے۔ یہ سب کرکے ان کو بہت خوشی ہوگی۔‘‘
سراج دین نے فوراً جواب دیا’’تمہارے ہاں جو چیز مجھے سب سے زیادہ پسند آئی وہ اس علاقے کی زمین ہے۔ ہمارے علاقے میں زمین پر کاشت کاری کرکے، اس کی زرخیزی کم ہوگئی ہے۔ یہ زمین زرخیز ہے اور اسے تو ابھی تک کسی نے کاشت بھی نہیں کیا۔‘‘
قبائلی لوگوں نے آپس میں بات چیت شروع کردی، جس کی سراج دین کو بالکل کچھ بھی سمجھ نہ آئی۔ اسے یہ ضرور محسوس ہوا کہ ان لوگوں کو اس کی زمین والی بات اچھی لگی ہے۔ قبائلی لوگ کافی شوروغوغاکر رہے تھے اور کھلکھلا کر ہنس رہے تھے۔ پھر وہ اچانک خاموش ہوگئے اور مترجم کو کچھ کہا۔ مترجم نے سراج کو بتایا’’یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ تم جتنی چاہو زمین لے لو۔ تمہیں بس اس زمین کی طرف اشارہ کرنے کی زحمت اٹھانا ہوگی اور زمین تمہاری ہوجائے گی۔‘‘ قبائلیوں نے پھر گفتگو شروع کردی او رکچھ تو آپس میں جھگڑنے لگے۔ سراج دین کو یہ دیکھ کر بے تابی ہوئی اور اس نے مترجم سے پوچھا کہ یہ لوگ کیونکر جھگڑرہے ہیں؟ مترجم نے بتایا کہ ان میں سے کچھ لوگ زمین دینے کا فیصلہ اپنے سردار سے کروانا چاہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس کو ضروری نہیں سمجھتے۔
VI
اتنے میں ایک شخص جس نے سر پر لومڑی کی کھال کی ٹوپی پہن رکھی تھی، اس جگہ آن پہنچا۔ سارے لوگ خاموش ہوگئے او راپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہوگئے۔ مترجم نے بتایا کہ یہ ان کا سردار ہے۔
سراج دین نے فوراً ایک شاندار عبا او ردو تین کلو چائے کی پتی سردار کو پیش کردی۔ سردار نے ان چیزوں کو قبول کرلیا او رسب سے الگ ایک جگہ پر بیٹھ گیا۔ قبائلیوں نے اسے کچھ بتانا شروع کیا۔ وہ خاموشی سے یہ سب سنتا رہا۔ اس نے سرکو ایک طرف جھٹکا او رسب قبائلی ایک دم خاموش ہوگئے۔ سردار نے سراج دین کی طرف منہ کرکے بات شروع کی۔ مترجم نے اس کا اس طرح ترجمہ کیا:’’میرے ساتھی قبائلیوں نے تم سے جو کچھ کہا، ہم ایسا کرنے کو تیار ہیں۔ تم زمین کا جو ٹکڑا پسند کرو، تمہیں مل جائے گا۔ ہمارے پاس زمین کی کوئی کمی نہیں۔‘‘
سراج دین کو حیرانی ہوئی کہ وہ جس قدرچاہے، اتنی زمین لے سکتا ہے۔ مگر اس کی تسلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس زمین کا بیعنامہ اسے نہ مل جائے۔ یہ لوگ تو اچھے ہیں جو اتنی زمین اسے دے رہے ہیں، کیا پتہ کل کو ان کے بچے، ان جیسے نہ ہوں او رزمین کی واپسی کا تقاضا کرنے لگیں۔‘‘
سراج دین نے بلند آواز میں سردار سے کہا’’میں تمہاری مہربانی کے لئے شکریہ اداکرتا ہوں مگر کیا یہ ممکن ہے کہ جو زمین مجھے دی جائے اس کی باقاعدہ پیمائش او ربیعنامہ کرلیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی قسم کی بدمزگی نہ ہو؟‘‘
سردار نے جواب دیا:’’تم ٹھیک کہتے ہو، ہم زمین کی لکھت پڑھت کرکے زمین تمہارے حوالے کریں گے۔ اگر تمہاری تسلی بیعنامے سے ہوتی ہے تو وہ بھی شہر جاکر کروالیں گے۔‘‘
’’قیمت کیا ہوگی؟‘‘ سراج دین نے پوچھا۔
’’ہماری قیمت ہمیشہ سے ایک دن کے ایک ہزار روپے رہی ہے۔‘‘سردار نے جواب دیا۔ سراج دین کو سردار کی بات سمجھ نہ آئی۔۔۔’’زمین کی پیمائش کا بھلا دن سے کیا تعلق؟ اس سے مراد کتنے ایکڑ ہوں گے۔۔۔؟‘‘ اس نے پوچھا:
سردار نے جواب دیا’’ہمیں زمین کی پیمائش کا کوئی طریقہ نہیں آتا، ہم اسے دنوں کے حساب سے بیچتے ہیں۔ تم ایک دن میں جس قدر زمین پر چل سکو گے، وہ تمہاری ہوگی۔ اس طرح زمین کی قیمت ایک ہزارروپے فی یوم ہوگی۔‘‘
یہ سن کر سراج دین سخت پریشان ہوگیا۔ اس نے وضاحت کے لئے کہا:’’مگر ایک دن میں تو زمین کے ایک وسیع علاقے پر پیدل چلا جاسکتا ہے!‘‘
سردار مسکرایا او رکہا:’’کچھ بھی ہو، جتنی زمین کا تم احاطہ کرو گے، وہ سب زمین تمہاری ہوگی۔ مگر ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ تم پورا دن چل کر واپس اسی جگہ آؤ گے جہاں سے تم نے اپنا سفر شروع کیا ہوگا۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں تمہاری رقم ضبط کرلی جائے گی۔‘‘
’’مگر میں اس راستے کی نشاندہی کیسے کروں گا، جس پر میں چلوں گا؟‘‘ سراج نے پوچھا۔
سردار نے جواب دیا’’سیدھی سی بات ہے جس جگہ سے تم سفر شروع کرو گے، ہم تمہاری واپسی تک وہیں ٹھہریں گے۔ اس طرح تمہیں واپسی میں آسانی بھی رہے گی۔ تم اپنے ساتھ ایک بیلچہ لے جانا اور جہاں مناسب خیال کرو، وہاں زمین کی نشاندہی کے لئے ایک گڑھا کھود دینا۔ پھر یہ بھی کہ ہر موڑ جو تم مڑوگے وہاں چھوٹی سی ڈھیری بنادینا۔ بعد میں ہم ان گڑھوں اور ڈھیریوں کو ہل چلا کر ملادیں گے او راس طرح تمہارے حصے میں آنے والی زمین کی نشاندہی ہوجائے گی۔ تم جس قدر چاہو، بڑا چکر لگا لینا مگر تمہیں ہر صورت میں غروب آفتاب سے پہلے اسی جگہ واپس آنا ہوگا جہاں سے تم نے اپنا سفر شروع کیا ہوگا۔‘‘
سراج دین یہ سب سن کر خوشی سے پھولے نہیں سمارہا تھا۔ طے ہوا کہ اگلے دن طلوع آفتاب کے ساتھ ہی زمین کی نشاندہی کاکام شروع کردیا جائے گا۔ سب نے مل کر گوشت کھایا، چائے پی او راتنے میں رات ہوگئی۔ قبائلیوں نے سراج دین کو پروں کا بنابستر دیا تاکہ وہ آرام سے سوسکے۔ اس کے بعد تمام قبائلیوں نے سراج دین سے رخصت لی او راپنے اپنے خیموں میں چلے گئے۔
VII
سراج دین پروں کے بستر پر لیٹ گیا مگر نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ اس کے دل میں خوشی کے ساتھ ساتھ بے چینی کی لہریں شدت سے لوٹ پوٹ رہی تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا’میں بھلا کس قدر زمین کا احاطہ کرسکوں گا۔ ایک دن میں50کلومیٹر تو چلا جاسکتا ہے اورپھر آج کل دن بھی بڑے ہیں۔50کلومیٹر کے دائرے میں بہت زیادہ اراضی آجائے گی۔ میں اس میں سے اچھی والی زمین اپنے پاس رکھ لوں گا اور ادنیٰ قسم کی زمین کسانوں کو بیچ دوں گا۔ 150 ایکڑ اراضی پر کاشت کاری شروع کروں گا او ربقیہ پر مویشیوں کے لئے ایک وسیع چراگاہ بنالوں گا۔ کام کاج کے لئے دو مزدور اور بیلوں کی دو جوڑیاں رکھ لوں گا۔‘‘
سراج دین ساری رات بے چینی میں لوٹتا رہا او رزمین سے متعلق سوچتا رہا۔ رات کے آخری حصے میں تھوڑی دیر کے لئے اس کی آنکھ لگی۔ آنکھ لگتے ہی اس کو خواب آیا ۔ اس نے دیکھا وہ اسی خیمے میں لیٹا ہوا ہے۔ وہ خیمے کے باہر کسی شخص کی دبی دبی ہنسی سنتا ہے۔ اسے بڑا تعجب ہوتا ہے او رخیمے سے باہر چلا آتا ہے۔ کیا دیکھتا ہے کہ قبائلیوں کا سردار زمین پر بیٹھا ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا ہے۔ سراج دین اس کے قریب جاتا ہے او راس سے ہنسنے کی وجہ پوچھتا ہے۔ سراج دین ششدررہ جاتا ہے کہ یہ سردار نہیں بلکہ زمین کا وہ بیوپاری ہے جس نے اسے قبائلیوں کی زمین کے بارے میں بتایا تھا۔ سراج دین اس سے پوچھنے ہی والا تھا کہ وہ یہاں کب آیا۔ اس نے دیکھا کہ یہ بیوپاری نہیں بلکہ وہ کسان تھا جو ایک رات اس کے ہاں ٹھہرا تھا اور اس نے اسے دریا پار زمین کی اطلاع دی تھی۔ سراج دین کی تو گھگی بندھ گئی۔ وہ بے جان ساکھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ کسان کی جگہ شیطان نمودار ہوا۔ شیطان کے سینگ اور جانوروں جیسے پاؤں آسانی سے پہچانے جاسکتے تھے۔ شیطان اطمینان سے بیٹھا، دبی دبی ہنسی ہنس رہا تھا۔ اس کے سامنے ایک شخص ننگے پاؤں، اوندھا لیٹا ہوا تھا۔ اس کی حالت سے لگتا تھا کہ وہ سخت تھکاوٹ کے باعث گرکر مر گیا ہو۔ اس نے صرف کرتا او رپائجامہ پہنا ہوا تھا۔ سراج دین سخت دہشت زدہ ہوگیا او رمرے ہوئے شخص کو بغور دیکھنے لگا۔ وہ جاننے کی کوشش کررہا تھا کہ آخر یہ شخص کون ہے۔۔۔! سراج دین اس خوفناک خواب سے بیدار ہوا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ پسینے سے شرابور ہے او راس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ انسان کو کیسے فضول قسم کے خواب آتے ہیں۔۔۔
سراج دین نے خیمے سے باہر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ صبح ہونے والی ہے۔ اس نے سوچا کہ اب اٹھنے کا وقت ہے تاکہ زمین کی نشاندہی کاکام شروع کیا جائے۔ وہ اٹھا او راس نے اپنے نوکر کو جگایا جو گھوڑا گاڑی میں سورہا تھا۔ اسے گھوڑا جوتنے کا کہا او رخود قبائلیوں کو جگانے چلا گیا۔ سب قبائلی اکٹھے ہوگئے اور ان کا سردار بھی وہاں آگیا۔ سب نے مل کر چائے پی اور کوئی وقت ضائع کئے بغیر چل پڑے۔
VIII
قبائلیوں میں سے کچھ گھوڑوں پر او رکچھ بیل گاڑیوں پر سوار تھے۔ سراج دین اپنی چھوٹی سی گھوڑا گاڑی پر اپنے نوکر کے ہمراہ بیٹھ گیا۔ جب وہ کھلے میدان تک پہنچے تو صبح کی سرخ کرنیں ہر طرف سرخی بکھیررہی تھیں۔ وہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے اوپر آئے او راپنی گاڑیوں اور گھوڑوں سے اتر گئے۔ تمام لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوگئے۔ قبائلی سردار، سراج دین کے پاس آیا اور اس نے کھلے میدان کی طرف اپنی باہیں پھیلا کر اس سے کہا’’دیکھو، جہاں تک تمہاری نظر جاتی ہے، سب زمین ہماری ہے۔ تم اس میں سے جتنی چاہو، لے سکتے ہو۔۔۔!!‘‘
سراج دین کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ اس نے دیکھا کہ ساری زمین ہتھیلی کی طرح ہموار اور گل لالہ کے بیج کی طرح کالی تھی۔ زمین زرخیز تھی اور اسے کبھی کاشت نہیں کیا گیا تھا۔ زرخیزی کاعالم یہ تھا کہ مختلف قسم کا گھاس غیر معمولی طور پر اونچا او رگھنا ہوگیا تھا۔
سردار نے اپنی لومڑی کی کھال والی ٹوپی اتار کر زمین پر رکھ دی او رسراج سے کہا:’’یہ وہ جگہ ہے، جہاں سے تم اپنا سفر شروع کروگے او رتمہیں غروب آفتاب سے پہلے اسی جگہ لوٹ کر آنا ہے۔ اس دوران تم جتنی جگہ کا احاطہ کرو گے، وہ تمہاری ہوجائے گی۔‘‘
سراج دین نے کوٹ سے رقم نکالی او راسے ٹوپی پر رکھ دیا۔ پھر اس نے بڑا کوٹ اتار دیا۔ اب اس نے بغیر بازو کا چھوٹا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ کمر بند پیٹ کے نیچے کس کر باندھا۔ کھانے کی چھوٹی سی تھیلی کوٹ کے اوپر والی جیب میں ڈالی او رپانی کی بوتل کمر بند کے ساتھ باندھی۔ اپنے لمبے بوٹ کے اوپر والے حصے کو سیدھا کیا او ربیلچہ پکڑ کر چلنے کو تیار ہوگیا۔ وہ چلنے سے پہلے کچھ لمحے رکا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ نکلتے ہوئے سورج کی طرف جائے گا۔ اس نے مشرق کی طرف رخ پھیرا، اپنے جسم کو پھیلایا اور سورج کے بلند ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے سوچا کہ اب وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ پھر صبح کی نرم ٹھنڈک میں چلنا بھی تو آسان ہے۔۔۔!!
سورج کی کرنیں ابھی افق پر نمودار ہوئی تھیں کہ سراج دین نے بیلچہ کندھے پر رکھا او رکھلے میدان کی طرف چل پڑا۔ وہ نہ تو سست روی سے چل رہا تھا او رنہ ہی بہت تیز۔ ایک ہزار میٹر چلنے کے بعد وہ رکا او راس نے زمین میں ایک گڑھا کھوددیا اور ایک ڈھیری سی بنادی۔ وہ چلتا رہا۔ چلنے سے اس کے جسم میں گرمی آگئی اور جسم کی کسالت ختم ہوگئی۔ اس نے تیز تیز قدموں سے چلنا شروع کردیا۔ کچھ دیر کے بعد پھر رکا اور زمین پر ایک اور گڑھا کھوددیا۔
سراج دین نے مڑکر دیکھا۔ دور پہاڑی نظر آرہی تھی۔ اس پر موجود لوگ، گھوڑے او رگاڑیاں صبح کی روشنی میں بڑے واضح دکھائے دے رہے تھے۔ جب تک ہوا میں حدت بڑھی، سراج دین کو اندازہ ہوا کہ وہ قریباً5کلومیٹر کا سفرطے کرچکا تھا۔ اس نے اپنا کوٹ اتارا او راسے کندھے پر ڈال لیا۔ وہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ اب گرمی اور بھی زیادہ ہوچکی تھی۔ اس نے سورج کی طرف دیکھا اور سوچا کہ اب ناشتے کا وقت ہوچلا ہے۔۔۔’’پہلا پہر تو گزر گیا۔ دن میں چار پہر ہوتے ہیں اور ابھی مزید آگے بڑھنا چاہئے۔ ابھی واپسی کرنا مناسب نہ ہوگا۔۔۔ مگر اب مجھے اپنے بوٹ اتارلینے چاہئیں۔‘‘ وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔
سراج دین زمین پر بیٹھ گیا، جوتے اتارے اور انہیں کمر بند کے ساتھ اڑس لیا۔ وہ اٹھا اور چل پڑا۔ اب اسے چلنے میں قدرے آسانی محسوس ہوئی۔
’’اب مجھے مزید5کلومیٹر آگے بڑھنا چاہئے۔‘‘ اس نے سوچا او ربائیں طرف مڑگیا۔ اس نے زمین کی طرف دھیان دیا او ردیکھا کہ زمین کتنی زرخیز ہے۔ اس نے سوچا کہ اس کو تو ضرور لے لینا چاہئے۔ ایسی زمین کو چھوڑ دینا سخت افسوس ناک بات ہوگی۔ وہ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا، زمین بہتر سے بہترین ہوتی گئی۔
کچھ دور اور آگے جانے کے بعد اس نے مڑکر دیکھا، پہاڑی نظر سے قریباً اوجھل ہوچکی تھی۔ اب اس پر کھڑے لوگ،جانور او رگاڑیاں چیونٹیوں کی مانند نظرآرہے تھے۔ سراج دین نے سوچا کہ وہ خاصا دور نکل آیا ہے اور اب اسے واپس مڑجانا چاہئے۔ اسے سخت پسینہ آرہا تھا او رپیاس سے اس کا حلق خشک ہوگیا تھا۔
سراج دین رک گیا اس نے زمین پر ایک بڑا گڑھا کھودا او راس کے ساتھ گھاس پھوس او رمٹی ڈال کر ایک ڈھیری بنادی۔ وہ بیٹھ گیا، بوتل سے پانی پیا۔ مگر فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا اور چلنے لگا۔ اس علاقے میں اونچی اونچی گھاس تھی او راس وجہ سے یہاں گرمی کی شدت بڑھ گئی تھی۔
سراج دین اب سخت تھک گیا تھا۔ اس وقت کا اندازہ کرنے کے لئے سورج کی طرف دیکھا۔ اسے لگا کہ اب دوپہر ہوگئی ہے وہ آرام کے لئے بیٹھ گیا۔ کھانا کھایا او رتھوڑا ساپانی پیا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ تھوڑا سا سستا لے تاکہ جسم میں کچھ طاقت بحال ہوجائے او روہ پھر تازہ دم ہوکر چل پڑے۔ مگر وہ لیٹا نہیں۔ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ لیٹ گیا تو گہری نیند اسے جھپٹ لے گی، کیونکہ وہ رات کو بھی نہیں سوسکا تھا۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا اور چل پڑا۔ وہ آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ خوراک سے اس کے جسم میں کچھ طاقت تو آئی مگر گرمی کے بڑھنے، جگراتے اور طویل مسافت کے باعث اس میں پہلے والی طاقت نہ رہی۔ اسے نیند آنے لگی مگر غروب آفتاب تک زیادہ سے زیادہ زمین کا احاطہ کرنے کی بے چینی کے باعث وہ بدستور چلتا رہا۔اس نے دل کو تسلی دی کہ اس صورتحال میں ایک گھنٹہ عذاب سہنا مناسب ہے۔ آئندہ کی زندگی میں وارے نیارے ہوجائیں گے۔ کچھ پانے کے لئے ، تکلیف تو سہنا ہی پڑتی ہے۔۔۔
ایک ہی سمت میں وہ کافی دیر سے چلتا آرہا تھا۔ وہ مڑنے ہی والا تھا کہ اسے ایک ڈھلوان جگہ نظر آئی۔ اس نے سوچا یہاں کپاس کی فصل لگائی جاسکتی ہے۔ جس سے بہت سا روپیہ کمایا جاسکتا ہے۔ اس نے سوچا اس جگہ کو چھوڑنا سخت غلطی ہوگا۔ چنانچہ اس نے اس جگہ کا چکر لگا کر وہاں نشاندہی کے لئے ایک گڑھا کھوددیا۔ اس گڑھے سے وہ مڑا اور اس نے پہاڑی کی طرف دیکھا۔ گرمی کی شدت کے باعث فضا میں غبار سا اکٹھا ہوگیا تھا او رپہاڑی پر ایک دھندلے سے عکس کے علاوہ کچھ بھی نظر نہ آرہا تھا۔ سراج دین نے سوچا کہ وہ زیادہ سے زیادہ زمین کا احاطہ کرنے کے سلسلے میں کچھ زیادہ ہی دور نکل آیا ہے۔ اس نے زمین کی نشاندہی کے لئے دواطراف کا چکر لگالیا تھا، اب وہ تیسری طرف مڑا اور جلدی جلدی چلنے لگا۔ اس کو بے چینی ہورہی تھی۔ اس نے سورج کی طرف دیکھا۔ سورج آسمان کے درمیان سے ڈھل کر افق سے آدھے راستے پر تھا۔ زمین کا احاطہ کرنے کی تیسری طرف وہ صرف 3کلومیٹر کا سفر طے کرپایا تھا اور ابھی اسے مزید15کلو میٹر چلنا تھا۔ سراج دین اطراف کے حساب کو لے کر سخت شش وپنج میں پھنس گیا۔ اس نے حساب لگایا کہ وہ دو اطراف میں تو کافی لمبی مسافت طے کرچکا ہے مگر تیسری طرف وہ زیادہ نہیں چل پایا۔ اس طرح اس کو ملنے والی زمین کا علاقہ، لمبوترا ساہو جائے گا۔ اس نے سوچا کہ اب اس کے پاس وقت کم ہے او ریہ بھی خدشہ ہے کہ اگر تیسری طرف اس نے چلنا جاری رکھا تو وہ بہت دور نکل جائے گا اور اس کی واپسی مشکل ہوجائے۔ اس نے دل کو تسلی دی کہ کچھ بھی ہو، موجودہ صورتحال میں بھی اسے بہت سی زمین مل جائے گی۔ اس نے زمین پر گڑھا کھودا اور جلدی سے پہاڑی کی طرف چلنے لگا۔
IX
سراج دین پہاڑی کی طرف چلنے لگا۔ اسے چلنے میں سخت مشکل پیش آرہی تھی۔ گرمی سے اس کا بر احال تھا اور اس کے ننگے پاؤں جگہ جگہ سے زخمی ہوگئے تھے۔ اس کی ٹانگیں جواب دے رہی تھیں۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ بس بیٹھ جائے او رآرام کرے۔ مگر ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ اسے ہر حالت میں غروب آفتاب سے پہلے پہاڑی تک پہنچنا تھا۔ سورج تو کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وہ لمحہ بہ لمحہ مغرب کی طرف ڈوبتا جارہا تھا۔
سراج دین بار بار سورج کی طرف دیکھتا او رسورج کے لمحہ بہ لمحہ ڈوبنے کے ساتھ ساتھ اس کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ وہ دل میں اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ اسے زیادہ سے زیادہ زمین کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اگر وہ وقت پر پہاڑی تک نہ پہنچا تو سب اکارت چلا جائے گا۔
وہ چل رہا تھا مگر چلنا اب اس کے بس میں نہ تھا۔ دوسری طرف اسے منزل تک پہنچنے کی بے تابی تھی۔ اس نے بھاگنا شروع کردیا۔ اپنا کوٹ اتار اور اسے پھینک دیا۔ کھانے کی تھیلی، پانی کی بوتل اور ٹوپی سب پرے پھینک دیے۔ اب اس کے پاس صرف ایک بیلچہ تھا او ربدن پر ایک کرتا او رپائجامہ۔۔۔
سراج دین پھر بے چین ہورہا تھا۔ اس نے سوچا کہ لمبا چکر لگانے سے اس نے اپنے آپ کو ایک جنجال میں پھنسالیا ہے۔ پتہ نہیں وہ غروب آفتاب تک پہاڑی تک پہنچ بھی پائے گا یا نہیں۔ خوف او ربے چینی کے باعث اس کی سانس ٹوٹنے لگی۔ وہ مسلسل بھاگے جارہا تھا۔ پسینے میں شرابور اس کا کرتا اور پائجامہ اس کے جسم کے ساتھ چپک رہے تھے۔ اس کا حلق خشک ہوکر کانٹا بن گیا تھا۔ اس کی سانس لوہار کی دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اور دل ہتھوڑے کی طرح چل رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں اس کے دھڑکو اٹھانے سے انکار کررہی تھی۔
سراج دین کو اپنے جسم پر بے اعتباری سی آگئی تھی۔ ایک طرف پہاڑی تک نہ پہنچنے کا اندیشہ اور دوسری جانب جسم کے چلنے سے انکار کے باعث اس کی آنکھوں کے سامنے سائے سے ابھرنے لگے۔ اس کو لگا کہ شاید وہ مررہا ہے۔ اسے موت کے خوف نے اپنی لپیٹ میں لے لیا مگر وہ پھر بھی نہیں رکا۔ اسے دھندلاسا احساس ہورہا تھا کہ لوگ اسے پاگل سمجھیں گے کہ وہ اتنا لمبا سفر کرنے کے بعد جب اپنی منزل کے قریب تھا، تو رک گیا۔
وہ بھاگ رہا تھا۔ وہ پہاڑی کے قریب تر ہورہا تھا۔ اسے اچانک محسوس ہوا کہ اس کے کان کچھ شور سن رہے ہیں۔ اس نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ شور قبائلیوں کا تھا جو اونچی اونچی آواز میں اس کی ہمت بندھا رہے تھے۔ اس شورسے اس کے جسم میں طاقت کی بجھتی چنگاری بھڑکی۔ اس نے اپنی بچی کھچی طاقت اکٹھا کی او ربھاگتا چلا گیا۔
سورج ڈوبنے والا تھا۔ افق پر چھائی دھند میں وہ بہت بڑا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا رنگ خون کی طرح گاڑھا سرخ ہو چلا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ ابھی ڈوبا کہ ڈوبا۔ سراج دین ابھی تک اپنی منزل سے دور تھا۔ پہاڑی پر کھڑے لوگوں کے لہراتے ہاتھ اسے جلدی سے جلدی پہنچنے پر اکسارہے تھے۔ اسے پہاڑی پر پڑی لومڑی کی کھال والی ٹوپی پر رقم بخوبی نظر آرہی تھی۔ اسے وہاں قبائلی سردار بھی نظر آرہا تھا جو اکڑوں بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ سراج دین کو اسی صبح دیکھی خواب یاد آئی۔ اس کا دل ایک دم ڈوب گیا۔ اس کے دل میں خیال آیا’’میں نے زمین تو بہت اکٹھا کرلی، کیا خدا مجھے اس پر رہنے کی مہلت دے گا کہ نہیں، میری زندگی ختم ہورہی ہے۔ معلوم نہیں میں اس جگہ تک پہنچ پاؤں گا یا نہیں۔۔۔؟‘‘
سراج دین نے سورج کی طرف دیکھا۔ یہ زمین کے برابر آچکا تھا۔ اس کا نچلا حصہ نظر سے اوجھل تھا۔ سراج دین نے اپنی تمام ترقوت کو اکٹھا کیا او ربھاگنا شروع کردیا۔ اس کا دھڑآگے کی طرف ڈھلک گیا تھا۔ اس کی ٹانگیں، لگتا تھا کہ اس کے دھڑکا کبھی حصہ نہ تھیں۔ جلدی میں بھاگتے ہوئے، اس کی ٹانگیں دھڑ کے نیچے بے جان لڑھک رہی تھیں۔ وہ پہاڑی پر چڑھنے لگا۔ اچانک ہر طرف اندھیرا چھانے لگا۔ اس نے چیخ ماری۔۔۔ ’’میری ساری محنت اکارت گئی‘‘۔ وہ رکنے لگا مگر قبائلی اسے اپنی طرف بلا رہے تھے۔ وہ مسلسل بھاگے جارہا تھا۔ اسے خیال آیا کہ پہاڑی کے اوپر ابھی تک سورج کو دیکھا جاسکتا ہے۔۔۔ شاید اسی لئے قبائلی ابھی تک شور مچارہے ہیں۔ اس نے لمبا سانس لیا اور پہاڑی کی چوٹی کی طرف بھاگتا رہا۔ وہ پہاڑی کے اوپر پہنچ گیا۔ وہاں اب بھی سورج کی روشنی تھی۔ اسے پہاڑی پر سردار کی ٹوپی او راس پر پڑی رقم نظر آئی۔ اس کے سامنے سردار بیٹھا قہقہے لگارہا تھا۔ سراج کو یہ سردار وہی لگا جو اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ اس نے ایک چیخ ماری۔ اس کی ٹانگیں اس کے دھڑکو جو تھوڑا بہت آسرادے رہی تھیں، سب ختم ہوگیا۔ وہ دھڑام سے اپنے منہ کے بل گرگیا۔ اس کا ہاتھ لمبا ہو او راس نے ٹوپی کو چھولیا۔
سردار نے اونچی آواز میں کہا:’’یہ ہوامرد کا بچہ جس نے اپنی ہمت سے اتنی ساری زمین حاصل کرلی۔‘‘
سراج دین کا نوکر اس کی طرف دوڑا، اسے اٹھانے کی کوشش کی۔ سراج دین کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ سراج دین مرچکا تھا۔
تمام قبائلیوں نے اس کے مرنے پر بڑے افسوس کا اظہار کیا۔ سراج دین کے نوکر نے بیلچہ اٹھایا اور اس کے لئے ایک قبر کھودی۔ اتنی لمبی قبر، جس میں سراج دین سما سکے۔ سراج دین کو اس قبر میں دفن کردیا گیا۔ اسے کل دو میٹر کی زمین درکار تھی۔۔۔ سر سے ایڑھیوں تک۔
آسان ترجمہ: سبطِ حسن
2 Comments