فرحت قاضی
خوشحال خان خٹک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ جنگجو اور حکیم ہی نہیں تھے بلکہ ان کی شاعری میں علم و حکمت کے موتی جابجا اور بکھرے ملتے ہیں۔ ایک لکھاری ان کی شخصیت کے ان تمام پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے یا ایک ہی پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ اس کا انحصار لکھنے والے اور حالات پر ہوتاہے۔
اسی طرح حکومت ملک میں طبقات اور حالات کی مناسبت سے پالیسیاں بناتی ہے۔ اگر ہمسایہ ممالک سے تعلقات کشیدہ ہیں اور اسے جنگ جوؤں کی ضرورت ہے اور پختونوں کی خواہش ہے کہ نصاب تعلیم میں خوشحال بابا اور ان کی دیگر شخصیات بھی شامل ہوں تو پھر خوشحال خان خٹک کے جنگجویانہ پہلو کو بار بار سامنے لایا جاتا ہے۔
چنانچہ عوام کو جو کچھ بتایا، سکھایا یا بنایا جاتا ہے اس کا انحصار حکومت اور مالک کی خواہشات، مفادات اور حالات پر ہوتا ہے۔
جاگیردار مالک نے جدید تعلیم کو اپنے مفادات سے متصادم پایا تو اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا اور اس کے خلاف عوام کو بھڑکانے کے لئے اسے مروجہ سماجی قدروں،روایات اور ثقافت کے خلاف قرار دے دیا مخالفت کا یہ سلسلہ پس ماندہ دیہات میں عرصہ دراز تک جاری رہا آج بھی دبے اور چھپے انداز میں مخالفت ہورہی ہے تاہم اس میں وہ زور اور جان نہیں رہی بلکہ بچوں کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ علم دوستی کی روایت شاہانہ ادوار میں بھی موجود تھی۔
اور تاریخ میں ایسے بادشاہ بھی ملتے ہیں جنہوں نے اپنے دربار میں علماء و فضلاء کو ملازم رکھاہوتا تھا اور اہم سیاسی اور حکومتی امور میں ان سے مشاورت بھی کی جاتی تھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دانشور دربار اور حاکم وقت کی ذات اور خاندان تک ہی محدود ہوتے تھے۔
پاکستان میں اس نوعیت کی تعلیم و تربیت اور حکمران طبقہ کی علم دوستی کے حوالہ جات سے طالب علموں کی توجہ علم و حکمت سے دل چسپی سے زیادہ شخصی حکومتوں کی ترویج و اشاعت کی طرف کی جاتی ہے اور اس سے بادشاہوں کا قد و قامت بلند کیا جاتا ہے بلاشبہ دربار میں علماء و فضلاء ہوا کرتے تھے مگر بادشاہ اور شہزادے ان سے حکمرانی کی شطرنجی چالیں اور گر سیکھا کرتے تھے اور پھر یہی ہتھکنڈے وہ عوام الناس پر آزماتے تھے۔
تاریخ میں ایسے کئی حکمرانوں کا پتہ چلتا ہے جنہوں نے علم و حکمت کے فروغ کے حوالے سے اقدامات بھی کئے تاہم جہاں ان کو دانشوروں سے خدشات اور خطرات کا احساس ہوتا تھا اور مفادات پر ضرب پڑتی تھی تو پھر ان کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے چنانچہ ماضی کے ہر دور میں ارباب اختیار اور بالا دست طبقے نے ان تعلیمات کی ترویج و اشاعت کی حوصلہ افزائی کی جن سے بادشاہ،بادشاہت کے ادارے اور جاگیردار طبقہ کے مفادات کو تقویت ملتی رہی لیکن ان تعلیمات کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا گیا جن سے خطرے کی بو آتی تھی اس حوالے سے حکمران، بالادست طبقات اور مالک کی ہمیشہ دو غلی شخصیت اور پالیسی رہی ہے۔
♠