بیرسٹر حمید باشانی
کویت کی خاتون پروفیسر الجاسم نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ایک مدت سے عرب اور اسلامی دنیا کے سنجیدہ دانشور حلقے سیاست کو مذہب سے علیحدہ کھنے پر زور دے رہے ہیں۔مگر الجاسم کے خلاف کویت میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ان کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ چلانے اور ان کو اپنی ملازمت سے بر خواست کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔اس مہم میں کویتی پارلیمان کے شدت پسند اور بنیاد پسند ارکین آگے آگے ہیں۔
مگر ان کے ساتھ سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک کے بنیاد پرست بھی اپنی آوازیں شامل کر رہے ہیں۔ یہ بڑی ستم ظریفی کی بات ہے کہ عرب دنیا میں اج ان موضوعات پر بات ہو رہی ہے جو ترقی یافتہ دنیا میں ایک صدی پہلے بحث و مباحثے کے بعد طے ہو چکے ہیں۔اور اب دنیا کے تقریباً تمام جدید اور جمہوری ممالک میں کوئی اس موضوع پر سوچنے یا بحث کرنے کو محض توضیع اوقات ہی قرار دے گا۔مگر چونکہ عرب اور اسلامی دنیا میں بحث و مباحثے، غور و فکر اور ازادی اظاہر رائے پر پابندیاں رہی ہیں اس لیے ان موضوعات پر کبھی عوامی سطح پر بات چیت نہیں ہوئی۔
اب ابلاغ کے متبادل ذرائع سامنے آنے کے بعد کبھی کبھار عرب دنیا سے ایسی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں جن کو ممنوع سمجھا جا تا رہا ہے۔اور یہ عرب جیسے قدامت پرست سماج میں کئی لوگوں کے لیے پریشان کن ہیں۔تیل کی بے تحاشا دولت کے زور پر فلک بوس عمارتیں بنانے اور چوڑی شاہراہیں بنانے کے باوجود عرب معاشرہ اپنے سماجی رویوں کے اعتبار سے صدیوں پرانا ہے۔یہاں پر دنیا کے سب سے اونچے ٹاور تو بن چکے ہیں لیکن کچھ عربوں کو ابھی تک ان ٹاوروں کے اوپر کالا گھوڑا اڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
نا صرف دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ اس کی باقاعدہ وڈیو بنا کر یوٹیوب پر ڈالتے ہیں۔اور یو ٹیوب پر ملین کی تعداد میں مسلمان نا صرف اس وڈیوکو لائق کرتے ہیں بلکہ اس کی حقانیت کی قسمیں کھاتے ہیں۔ایسے میں اگر ان کی ایک یونیورسٹٰی پروفیسر ، اور وہ بھی عورت، یہ کہے کہ مقدس اور مقدم صرف ملکوں کا آئین اور قانون ہو تا ہے۔یا آئین و قانون کو مقدم مانے بغیر ہم جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتے تو اس پر کچھ لوگوں کا روائتی رد عمل سمجھ میں آنے والی چیز ہے۔
عرب علما فتوے بازی میں تاریخی اعتبار سے بہت تیز اور جلد باز واقع ہوئے ہیں۔ان کے فتووں کی تاریخ دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے ہر نئی چیز کے خلاف فتوے صادر فرمائے۔ان میں لاؤڈسپیکر سے لے کر ٹیلی ویثزن تک، اور عورتوں کی تعلیم سے لیکر انتخابات تک جو کچھ بھی نیا ہے سب شامل ہے۔عرب ملاؤں کے ان فتووں کا بر صغیر کے علمائے کرام بڑا ثر قبول کرتے ہیں۔ان فتوؤں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر پیش کرتے رہتے ہیں۔
چنانچہ سیاست کو مذہب سے علیحدہ رکھنے کی بات کے خلاف اب پاکستان میں نئے جوش و خروش کے ساتھ نئے فتووں کا ایک سیلاب آئے گا۔حالانکہ پاکستان میں اس موضوع پر اتنی فتوے بازی ہو چکی ہے کہ اب اس موضوع کو چھیڑنا ہی از خود ایک نئے فتوے کا موجب بن سکتا ہے۔کیونکہ عرب دنیا کے بر عکس پاکستان میں یہ موضوع بہت پہلے زیر بحث آ چکا تھا۔یہ بحث بنیادی طور پر قیام پاکستان سے پہلے چھڑ چکی تھی۔اور اس کا آغازخود بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ ہوا۔ان کی گیارہ اگست والی تقریر کے بعد اس موضوع پر ان کے خیالات کے حوالے سے کچھ کہنے سننے کو رہ ہی نہیں گیا تھا۔
انہوں نے واشگاف انداز میںیہ کہہ دیا تھا کہ ریاست کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ پاکستان کے کسی شہری کا مذہب کیا ہے۔ یا کوئی اپنے مذہبی فرائض کی ادئیگی کے لیے کس عبادت گاہ میں جاتا ہے۔ بانی پاکستان کی ساری تعظیم ا وتکریم کے باوجود مذہب کی سیاست اور ریاست سے علیحدگی کے خلاف بنیاد پرستوں کی پیش قدمی جاری رہی۔اس مقصد کے لیے انہوں نے نظام مصطفی کا نعرہ ایجاد کیا۔ایک عام اور سیدھے سادے مسلمان کے لیے یہ ایک پر کشش نعرہ تھا، اور وہ اس کے پیچھے چھپے ہوئے بنیاد پرستوں کے عزائم نہیں دیکھ سکتا تھا۔
نظام مصطفی کا یہ نعرہ سعودی یا کویتی علمائے کرام نے کبھی نہیں لگایا۔ شاید اس لے کہ وہ ہمیشہ اپنی بادشاہتوں سے خوف زدہ یا ان کے نمک خوار رہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ نظام مصطفی میں بادشاہت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔اس کے بر عکس ایران اور پاکستان وغیرہ میں اس نعرے کو بہت مقبولیت حاصل رہی اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مختلف اوقات میں یہ نعرہ مطلق العنان حکمرانوں اور فوجی آمروں کے اقتدار کو طوالت بخشنے کا با عث بنتا رہا۔
عرب دنیا میں اب پروفیسر الجاسم اس قبیل کے دوسرے دانشوروں کا منظر عام پر آنا ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔عرب سماج میں تبدیلی ایک لازمی اور ناگزیر ضرورت ہے۔اس تبدیلی کا فائدہ پاکستان جیسے اسلامی ملکوں کو بھی ہو گا جہاں مذہب اور سیاست کو بہت زیادہ اپس میں خلط ملط کر دیا گیا ہے۔
♠