ایک سوسال کی عبادت

سبط حسن

00 muslim

بہت سال پہلے کی بات ہے، جاپان کے ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ اس کا نام ویسوتھا۔ ویسو کے پاس چند کھیت تھے۔ وہ سارا دن محنت کرتا تھا تاکہ سال بھر کے لئے روزی کماسکے۔ اس کی بیوی اوربچے بھی اس کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے۔ سب محنت کرکے بہت خوش ہوتے۔ شام کو تھکے ہارے گھر لوٹ آتے۔ روٹی کھاتے اور گہری نیند سوجاتے۔

ایک دن ایک بوڑھا پادری ویسو کے گھر آیا۔ ویسو اوراس کی بیوی نے اسے اچھا کھانا کھلایا۔ جانے سے پہلے پادری نے ویسو سے پوچھا:۔

’’میاں، کبھی عبادت بھی کی ہے یا صرف ہر وقت روزی روٹی کے چکر میں لگے رہتے ہو۔۔۔؟‘‘۔
’’
کام سے ہی فرصت نہیں ملتی۔۔۔ کبھی کبھار عبادت کرلیتا ہوں۔۔۔!‘‘ ویسو نے کہا۔
’’
یہ تو بڑی بُری بات ہے۔۔۔ سارا دن بس کام ہی کام۔۔۔ عبادت نہیں کرو گے تو کام میں برکت نہیں رہے گی۔۔۔‘‘ پادری نے غصے سے کہا۔
’’
جی۔۔۔!‘‘ ویسو نے شرمندگی سے کہا۔
’’
اگر عبادت نہیں کرو گے تو اگلے جہان تمہیں سزا ملے گی۔۔۔ ایسی سزائیں جن کے بارے میں سوچ کر ہی تمہارے پسینے چھوٹ جائیں۔‘‘ پادری نے کہا۔

پادری کے جانے کے بعد، ویسو نے سزاؤں کے ڈر سے عبادت شروع کردی۔ وہ سارا دن اپنے کمرے میں بند، عبادت کرتا رہتا۔ دھان کی فصل تیا رہوگئی۔ اس کی بیوی اسے بار بار سمجھاتی رہی کہ عبادت کے ساتھ ساتھ کام بھی ضروری ہے۔ ویسو نے بیوی کی بات نہ مانی۔ اس کی بیوی سے جتنی فصل سنبھالی گئی، اسے گھر لے آئی۔ باقی سب فصل تباہ ہوگئی۔ گھر میں اناج کی کمی تھی۔ بچوں کی خوراک کم ہونے لگی۔ وہ کمزور ہونے لگے۔

دھان کی فصل کے بعد نئی فصل کو بونا تھا۔ اس کے لئے زمین تیار کرنا تھی۔ مگر ویسو سارا دن عبادت میں مصروف رہتا۔ وہ بیوی کی باتوں سے تنگ آکر، گھر سے نکل، گاؤں کے باہر ایک بڑے درخت کے نیچے جابیٹھتا۔ وہاں آنکھیں بند کئے، منہ میں کچھ پڑھتا رہتا۔ اسے اگر کوئی سمجھانے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا:۔
’’
کام نہیں، صرف عبادت ہی اسے سزاؤں سے نجات دلائے گی۔۔۔!‘‘۔
اکیلی بیوی کیا کرتی، گھر میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی۔ بچے کم خوراک ملنے کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہوتے گئے۔ان میں ایک اس قدر بیمار ہوگیا کہ اس کے بچنے کی کوئی اُمید نہ رہی۔ علاج کے لئے پیسے نہ ہونے کے باعث، آخر وہ چل بسا۔ جب بچہ مرگیا تو ویسو کی بیوی گاؤں کے باہر درخت کے نیچے گئی۔ اس نے اپنے خاوند سے بہت لڑائی کی۔ بچوں کے واسطے کام کرنے کی منت کی۔ مگر ویسو پر ان سب باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ وہ کہنے لگا:

’’تم ایک بُری عورت ہو۔۔۔ تم میری عبادت میں خلل ڈالتی ہو۔۔۔ میں تم سے دور، کہیں چلا جاؤں گا۔۔۔‘‘
ویسو نے اپنی لاٹھی اٹھائی اورجنگل کی طرف چل دیا۔ وہ کئی دن چلتا رہا۔ آخر جنگل کے پاس ایک پہاڑی پر جا بیٹھا۔ پہاڑی کے سامنے ایک دریا بہتا تھا اور دریا کے ساتھ ساتھ ایک گھنا جنگل تھا۔ ایک شام ویسو آنکھیں بند کئے، پہاڑی کے اوپر بیٹھا عبادت میں مشغول تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ ٹھنڈی ہوا تیز ہوگئی۔ اس کے چلنے کی آواز آنے لگی۔ پھر آواز اوربھی تیز ہوگئی۔ ویسو نے گھبراہٹ میں اپنی آنکھیں کھول دیں۔ کیا دیکھتا ہے ۔ اس کے سامنے ایک بزرگ نمودار ہوئے اس نے سوچا کہ شاید اس کی عبادت قبول ہوگئی ہے۔ اس اثنا بزرگ اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

شام ہوگئی۔ آسمان پر ایک بڑا چاند نمودار ہوا۔ ویسو چاند کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چاند، آہستہ آہستہ نیچے جھکتا جارہا تھا۔ چاند سے دو عورتیں، لمبے سیاہ لباس پہنے زمین پر اتریں۔ وہ پہاڑی کے ایک کنارے پر نمودار ہوئیں اور زمین کے اوپر اڑتی ہوئیں، ویسو کے سامنے سے گزرگئیں۔ ویسواان کے پیچھے چلنے لگا۔ وہ ان کے پیچھے چلتا رہا۔ پہاڑی ختم ہوگئی، آگے کھائی تھی۔ ویسو اس کھائی میں گرا نہیں، بلکہ تیرتا ہوا، ایک چوٹی پر جااترا۔ عورتیں غائب ہوچکی تھیں۔

چوٹی پر اس کے بچے اور بیوی بیٹھے تھے۔ ویسو نے دیکھا کہ اس کے بچے اوربیوی شکل صورت سے تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں مگر ان کے جسم مکمل نہیں ہیں۔ کسی بچے کی ٹانگیں اوربازوتو ہیں، مگر اس کا پیٹ غائب ہے۔ کسی بچے کا پیٹ تو ہے مگر ٹانگیں آدھی ہیں اورپیٹ سے سفید رنگ کا دھواں اٹھ رہا ہے۔ وہ اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے۔ وہ اسے چھوتاہے مگر اس کی بیوی کی شکل صورت نیلے رنگ کی دھوئیں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

ویسو یہ سب دیکھ کر سخت پریشان ہوجاتا ہے۔ وہ آسمان کی طرف منہ اٹھاتا ہے۔ اسے وہی دو عورتیں نظر آتی ہیں۔ وہ ان عورتوں کے پیچھے چلنا شروع کردیتاہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے اس کے جسم میں طاقت ختم ہوچکی ہے۔ وہ اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھتا ے۔ اس کی ٹانگیں، جیسے پگھل کر مٹی کا گاراسی بن گئی ہوں۔ اتنے میں آسمان پر تیرتی عورتیں، نیچے اتر آتی ہے۔ وہ زمین کو چھوتے ہی لومڑیاں بن جاتی ہیں۔ ویسوان کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے۔

بھاگنے کی کوشش میں ویسو کو ٹھوکر لگتی ہے اوروہ زمین پر گرپڑتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے اس کا جسم اکڑ چکا ہے۔ اس کی بہت ہی لمبی داڑھی ہے۔۔۔ بالکل سفید۔ اس کی لاٹھی اس کی نظروں کے سامنے ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔
ویسو کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کا گاؤں اس کی نظروں کے سامنے ہے۔ وہ جلدی جلدی چلتا ہوا، اپنے گھر کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ گھر کے سامنے ایک بڑھیا بیٹھی ہوتی ہے۔ ویسو اس سے پوچھتا ہے:
’’
اس گھر میں میری بیوی اوربچے رہتے ہیں۔۔۔ وہ کہاں ہیں؟‘‘
’’
تم کون ہو۔۔۔؟‘‘ بڑھیا نے پوچھا۔
’’
میں ویسو ہوں، اور یہ گھر میرا ہے۔۔۔ میرے بچے اور بیوی یہاں رہتے ہیں۔ میں آج صبح جنگل کی طرف گیا تھا اور اب شام کو لوٹ رہا ہوں۔۔۔‘‘ ویسو نے کہا۔
’’
ویسو کے بچوں اوربیوی کو مرے تو سوسال سے بھی زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ وہ سب بھوک سے مرگئے۔۔۔ صرف میری ماں بچی۔۔۔‘‘ بڑھیا نے کہا۔
’’
یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ میں تو آج صبح۔۔۔ اورشام کو واپس۔۔۔‘‘ ویسو نے کہا۔
’’
میں رشتے میں تمہاری نواسی ہوں اور دیکھو، میں بھی بوڑھی ہوچکی ہوں۔۔۔‘‘ بڑھیا نے کہا۔
ویسو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ سوچنے لگا:
’’
میری وجہ سے میرے گھر والوں نے نہ جانے کتنی مصیبتیں اٹھائیں۔۔۔ میں عبادت میں مصروف رہا۔۔۔‘‘
’’
ٹھیک ہے، عبادت کرنی چاہئے، مگر کام بھی توکرنا چاہئے۔۔۔ انسانوں کا خیال رکھنا بھی تو عبادت ہے۔۔۔‘‘ بڑھیا نے کہا۔
گاؤں والوں کا خیال ہے کہ اب بھی، جب چاند چودھویں رات کو نکلتا ہے تو ویسو کی شکل والا، لمبی داڑھی والا آدمی، چاند سے اترتا ہوا نظر آتا ہے۔

One Comment