بھارتی پریس سے ظفر آغا
کیا لکھوں اور کیا کہوں ، سب کچھ لکھ چکا اور سب کچھ کہہ چکا۔ ابھی پچھلے ہفتہ برسبلز میں جہادی حملے کے خلاف کالم لکھا تھا۔ لیکن اس کالم کی سیاہی ابھی سوکھی بھی نہ تھی کہ لاہور میں ایک پارک بم دھماکے میں لرز اٹھا، اور دھماکہ بھی کیسا دھماکہ معصوم بچوں کے سر اور بازو جسم سے الگ ہوکر پیڑوں پر لٹک گئے۔ ممتاکی ماری ماؤں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور ان کا دَم نکل گیا۔ جھولوں پر جھولنے والے بچے جھلس گئے۔ ان کا جرم کیا تھا۔
اللہ توبہ ، بس اب کچھ کہنے کے بجائے رب الکریم کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھے ہیں اور پروردگار سے دعا ہے کہ اے رب تو اپنے بندوں کو عقل عطا کر انہیں ہوش عطا کر، پروردگار یہ تو وہی آثار ہیں جو تیرے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے قبل ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے خون کا پیاسا تھا اسی دور جاہلیت میں عرب اپنی اولاد کو اس لئے زندہ دفن کردیتے تھے کہ انہیں بیٹی کی ولادت معیوب محسوس ہوتی تھی۔
اس دور جاہلیت میں انسان، انسان کا خون ایسے ہی بے وجہ بہا رہا تھا جیسے آج جہاد کے نام پر بے گناہوں کا خون بہایا جارہا ہے، یہ جہاد نہیں جہالت ہے، یہ جنگ نہیں خودکشی ہے، عالم اسلام کو اس جہالت سے نکلنا ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمان کو کون عقل دے اور کون سمجھائے۔ عالم اسلام نے علماء پر صدیوں سے تکیہ کیا ہوا ہے۔
بات یہ ہے کہ مسلم علماء کے نکتہ نگاہ سے وقت تھم چکا ہے، مسلم معاشرہ ان کے نزدیک اسی دور میں ہے کہ جیسا کبھی خلافت کے دور میں ہوا کرتا تھا وہ بھی خلفائے راشدین کا مسلم معاشرہ نہیں بلکہ عباسی اور ترکی خلافت کا دور کہ جس میں بادشاہت مطلق العنان ہوتا تھا اور علمائے کرام اس کی خلافت چلانے کے لئے شریعت کے نام پر بادشاہ وقت کے ہر فعل کو صحیح قرار دیتے تھے۔
بس اسی دور سے عالم اسلام میں مطلق العنان حاکموں اور علماء کرام کے درمیان ایک گٹھ جوڑ پیدا ہوگیا جو تب سے آج تک چلا آرہا ہے۔ دنیا بدل گئی، سارے عالم میں شاہی دور ختم ہوگیا اور جمہوریت نے اپنی جڑیں جمالیں۔ لیکن عالم اسلام ہے کہ آج بھی جمہوریت سے عاری ہے۔
وہ تو ہم ہندوستانی مسلمان ایسے خوش قسمت ہیں کہ آج بھی جمہوریت کے دم پر حکومت بدلنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ باقی تمام عالم اسلام مطلق العنان حاکموں کے جوتوں تلے آج بھی کراہ رہا ہے اور ان مطلق العنان حاکموں کے مظالم کو علماء کا گروہ شریعت کی آڑ میں جائز قرار دیتا رہتا ہے۔ تب بھی عام مسلمانوں میں وہ گھٹن ہے کہ جس کا اندازہ ہم جمہوری ہندوستان میں نہیں لگاسکتے ہیں۔
چند برس قبل بہار عرب نے سر اُٹھایا لیکن نوجوانوں کی آواز کچل دی گئی اور ہر جگہ علماء نے حاکموں کا ساتھ دیا۔ یعنی مسلم معاشرہ میں پیدا ہونے والے سیاسی انقلاب کو شریعت کے نام پر کچل دیا گیا۔ اب سوچیئے کہ ساری دنیا کا نوجوان کھلی سیاسی فضاء میں سانس لے رہا ہے اور دوسری جانب مسلم نوجوان گھٹ رہا ہے۔
آخر اس کے یہاں کس قدر جھنجھلاہٹ ہوگی اور وہ کس قدر غم و غصہ کا شکار ہوگا۔ اس کے لئے ہر قسم کا سیاسی راستہ بند ہے۔ اب وہ اپنے جسم پر بم باندھ کر خودکش حملے نہ کرے تو اور کیا کرے۔ اس خودکش حملے میں علماء اس کو جھوٹی امید سہی لیکن ایک امید یہ دلادیتے ہیں کہ اس طرح وہ شہید ہوگا اور شہید ہوتے ہی نہ صرف وہ جنت کا حقدار ہوگا بلکہ جنت میں اس کو خوبصورت حوروں کی صحبت نصیب ہوگی۔ یہ وہ سُراب ہے جو ابوبکر البغدادی جیسے خلیفہ وقت مسلمانوں کو دکھارہے ہیںاور خود ساختہ خود علماء اس بھرم کو شریعت کے نام پر نوجوانوں کو خودکش بمباری پر آمادہ کررہے ہیں۔
ایک طرف خود مسلم مطلق العنان حاکم ہیں تو دوسری جانب امریکہ اور مغربی دنیا کے بمبار ہوائے حملے ہیں۔ شام میں بشارالاسد جیسے ظالم بادشاہ کو بچانے کے لئے روسی اور امریکی بمباروں نے لاکھوں بے گناہوں کی جانیں لے لیں۔ وہ ابوبکر البغدادی جس کے سرپر اب امریکہ نے 10ملین ڈالر کا انعام متعین کیا ہے اسی البغدادی کو ایک وقت بشارالاسد کے خلاف سی آئی اے کی جانب سے ہر امداد مل رہی تھی اور پھر البغدادی کو کس نے خلیفہ بنایا۔
سچ تو یہ ہے کہ ابوبکر البغدادی 2004 تک بغداد کی ایک چھوٹی سی مسجد میں پیش امام اور قاری کے فرائض انجام دے رہا تھا، یہ وہ دور تھا کہ جب امریکی فوج نے عراق میں صدام حسین کا تختہ اُلٹ کر پورے عراق میں لاکھوں معصوم عراقیوں کو موت کے گھاٹ اُتار چکا تھا۔ ایسے ماحول میں محض شک کی بنیاد پر امریکی فوجی ابوبکر البغدادی کو ایک گھر سے اٹھاکر لے گئے اور ایک جیل میں قید کردیا۔ جہاں القاعدہ کے عناصر سے ابوبکر کی ملاقات ہوئی۔
اسی ماحول میں ابوبکر البغدادی کے دل میں مغرب کے خلاف نفرت کا انکور پھوٹا جو اب ایک مغرب دشمن اسلامی خلافت کا تناور درخت بن چکا ہے۔ بھلے ہی البغدادی عراق اور شام کے کچھ علاقے ہار گیا لیکن اس کی مغرب کے خلاف نفرت کی سیاست کی بیماری اب جہادی کی شکل میں محض عالم اسلام ہی میں نہیں بلکہ امریکہ اور ہر یوروپی ملک میں گھوم رہے ہی ہے۔ یعنی امریکہ نے عراق اور شام میں جو مظالم ڈھائے ہیں اس نے ابوبکر البغدادی کو جنم دیا جو اب دنیا کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔
اب ہو تو کیا ہو، ہم مسلمان امریکہ اور اسرائیل کو کوستے کوستے تھک گئے لیکن یہ بھول گئے کہ امریکہ اور اسرائیل مسلمان کے خلاف ہر سازش میں اس لئے کامیاب ہیں کہ ہم مسلمان خود زندگی کے ہر شعبہ میں بچھڑ گئے۔ ہم مسلمانوں نے ہر تبدیلی کو غلط تسلیم کرلیا ہے اور علماء نے ہر تبدیلی کے خلاف فتوے صادر کردیئے ہیں۔
اس لئے مسلم معاشرہ ایک ایسے گندے تالاب میں تبدیل ہوچکا ہے جس کو تازہ پانی میسر ہی نہیں ہے۔ آج کا مسلمان مطلق العنان بادشاہوں اور جہادی فکر کے بندھن میں بندھ کر خود اپنے سماج کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ مسلمان کو تبدیلی ہی نہیں ایک سماجی و سیاسی انقلاب کی ضرورت ہے جو علماء پیدا نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر مسلمانوں نے اس تبدیلی کو تسلیم نہیں کیا تو نہ جانے کتنے لاہور اور ہوں گے اور دنیا مسلمانوں کی جہالت پر تالی بجائے گی۔ خدارا دور جہالت سے باہر نکلیئے اور جدیدیت کو تسلیم کیجئے ورنہ بکھر جایئے گا۔
Daily Siasat, Hyderabadd, India