حیدر چنگیزی
یہ بلا شبہ ایک حقیقت ہے کہ احتساب وہ واحد راستہ ہے جس سے نہ صرف ملک میں گڈُ گورننس کو یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ مساوات ، انصاف اور جمہوریت کے دائرے کو بھی وسیع سے وسیع تر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں جہاں پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد وزیراعظم میاٍں نواز شریف صاحب کے بیرون ملُک بطور آف شور کمپنیوں کے خُفیہ کاروبار اور سرمایہ کاری اُن کے لیے خطرہ پیدا کر رہی ہے، وہاں اپوزیشن اور پاکستان کے مین سٹریم پولیٹیکل پارٹیز کے رہنما جیسے پیپلز پارٹی کے شاہ محمود قریشی، تحریک انصاف کے عمران خان صاحب اورجمعیت کے مولانا فضل الّرحمان صاحب کے بیانات میاں صاحب کے پریشر میں مزید اضافہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
ان تمام سیاسی رہنماؤں کے بعد پاکستان آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی اسی احتساب کے حوالے سے عملی اقدام لیتے ہوئے اپنے گھر سے کرپشن کی صفائی کا آغاز شروع کیا ہے جو میاں صاحب کیلئے خطرے کی گھنٹی سے کچھ کم نہیں۔
آرمی چیف کی یہ بلا متیاز احتساب صرف فوج کے دائرے سے نکل کر اگر پانامہ لیکس میں نامزد پاکستان کے سیاسی رہنماؤں تک بھی آجائے تو یہ عمل واقعاََ قابلِ تعریف ہوگی لیکن آرمی چیف کے اسِ احتسابی عمل کو جہاں پورے پاکستان میں سراہا جا رہا ہے ، وہاں انِ کے اسِ اقدام کے حوالے سے کئی سوالات بھی اُٹھتے ہیں۔۔۔
اسِ احتسابی عمل کی زد میں جنِ افسران کے نام شامل ہیں انُ میں2جرنیل،3بریگیڈئر،1کرنل اور میجر سمیت کل7افسران ہیں اور یہ بات واضح رہے کہ انِ تمام افسران کو فرنٹئیر کانسٹیبلری بلوچستان میں کرپشن کے سلسلے میں جبری ریٹائر کیا گیا ہے۔انِ ریٹائرڈ افسران میں لیفٹیننٹ جنرل عبید اللہ خٹک 2010 سے2013 تک اور میجر جنرل اعجاز شاہد2013سے2015 تک انسپیکٹرجنرل ایف سی بلوچستان رہ چکے ہیں ۔
یاد رہے کہ انہی پانچ سالوں یعنی 2010-2015میں کوئٹہ بلوچستان میں آباد شیعہ ہزارہ برادری کی بد ترین نسل کشُی کی گئی جس میں ہیومن رائٹس واچ کے رپورٹ کے مطابق 1500سے زائد افراد کو دنِ دھاڑے ٹارگٹ کیا گیا جس کی وجہ سے کوئٹہ میں سالوں سال بسے ہزارہ برادری کے نصِف آبادی اپنے جائیدادوں اور ذریعہ معاش کو چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ انہی پانچ سالوں میں بلوچوں کی مسخ شدُہ لاشیں ملنے میں مزید اضافہ ہونے لگی اور یہاں تک کہ ان کی عورتوں کو بھی نہ بخشا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انہی پانچ سالوں میں ایف سی بلوچستان کو کوئٹہ میں وقفے وقفے پر پولیس کے مکُمل اختیارات سونپ دئے گئے تھے اور ہاں، انہیِ پانچ سالوں میں یعنی جون2015کو سالانہ بجٹ میں سے ڈیفنس سیکٹر پر11فیصد اضافہ کیا گیا اور بلوچستان حکومت کی جانب سے بلوچستان کے بجٹ کی26ارب سے زائد ایف سی کے لیے مختص کی گئی تھی لیکن اسِ کے باوجود انِ افسران کو دولت کی پیاس اورہوس ستاتی رہی اور یہی وجہ تھی کہ کل بھوشن یادیو جیسے را کے ایجنٹس انِ افسران کی غفلت کے باعث بلوچستان میں بد امنی پھیلاتے رہے۔
انِ تمام لاپروائیوں اور جرائم کو سر انجام دینے کے بعد آرمی چیف صاحب نے انِ افسران کو جبری ریٹائر کر کے انُ کے تمام مراعات)ما سوائے پینشن اور میڈیکل(کو ختم کر کے انُ کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔ اب جنرل راحیل شریف صاحب سے یہ سوال ہے کہ آپ نے تو انِ افسران سے کرپشن کے تمام رقوم حاصلِ کر کے انِ کو لیٹر آف تھینکس تھما کر بہ آسانی گھر بھجوا دیا ہے جو کہ ویسے بھی ریٹائر ہونے والے ہی تھے لیکن کیا یہ کافی ہے؟
کیا ملکی بجٹ میں سے ڈیفنس سیکٹر پر اضافہ اسیِ وجہ سے ہواتاکہ آپ کے ما تحت افسران دولت کمانے میں مصروف رہے اور بھارتی ایجنٹ کھلے عام کاروائیاں کر کے ملُک میں بد امنی پھیلاتے رہے؟ کیا ایف سی بلوچستان کے انِ پانچ سالہ خراب کارگردگی کو دیکھ کر آپ کو یہ محسوس نہیں ہو رہا کہ ایف سی بلوچستان کو بارڈرز تک ہی محدود رکھا جائے جس کیلئے یہ فورس بنائی گئی تھی؟ کیا یہ ٹھیک نہیں ہوگا کہ انِ پر خرچ ہونے والے صوبہ بلوچستان کے بجٹ میں سے26 ارب کوانِ کے بجائے تعلیم و صحت پر خرچ کیا جائے؟
اور ہاںانُ ہزاروں بے گناُہ بلوچ اور شیعہ ہزارہ نوجوان، خواتین اور معصوم بچے اور بچیاں جو بے گناہ مارے گئے، کیا انُ کا خونِ ناحق آپ کے انہیِ افسران کے ذمےِ نہیں ہوتا؟
کیا واقعی آپ کا یہ احتسا ب کافی ہے؟
♠