حکومتِ پاکستان نے آٹھ اپریل کو ریلیز ہونے والی فلم ’’مالک‘‘ پرموشن پکچرز آرڈیننس 1979کی شق 9 کے تحت پابندی لگا دی ہے اور اس فلم کے لئے جاری کیا جانے والا سنسر سرٹیفیکیٹ واپس لے لیا گیا ہے۔
پابندی کی خبر پرنٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر زیر بحث ہے ۔ سنسربورڈ کے چیئرمین مبشرحسن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’ بورڈ کوفلم کے خلاف متعدد شکایات موصول ہوئیں۔ فلم نے یہ تاثر دیا کہ ملک میں کوئی قانون نہیں، لاقانونیت پر اکسایا گیا۔ ایک لسانی اکائی کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ، جہادی عناصر کو ہیرو بنایا گیا اور سیاست دانوں کی شخصیات کو منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ پابندی کا اطلاق اسلام آباد اور ملک بھر کے گیریژن علاقوں میں ہوگا۔
اس پابندی پر مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور اس پابندی کو آزادی اظہار رائے کے منافی قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر فلم اچھی نہیں ہو گی تو عوام خود ہی اسے مسترد کر دیں گے حکومت کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ فلم پر پابندی لگائے ۔
معروف ڈرامہ نگار یونس بٹ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا،’’جب بھی آپ کوئی فلم، ڈرامہ یا ناول لکھتے ہیں، اس سے کوئی نہ کوئی ناراض ضرور ہوتا ہے، لیکن اس کا فیصلہ لوگوں نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ فلم یا ڈرامہ اچھا ہے یا نہیں۔ پاکستان میں ایک فلم بنانے کے لئے چار سے آٹھ کروڑ روپیہ لگتا ہے۔ جو لوگ سماجی و سیاسی موضوعات پر فلم بنانے کاسوچ رہے ہوں گے، اب وہ پیسہ نہیں لگائیں گے۔ فلم انڈسڑی پہلے ہی بحران کا شکار ہے، حکومت نے پابندی لگا کر فلم میں پیسہ لگانے والوں کو منفی پیغام دیا ہے۔‘‘
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فلم فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی معاونت سے تیار کی گئی ہے جس میں سیاست دانوں کے خلاف انتہا ئی منفی پروپیگنڈا کیا گیا ہے ۔ جبکہ فلم کے ہدایت کار عاشر عظیم نے کہا ہے کہ فلم کی تیاری میں فوج نے کوئی معاونت نہیں ۔
سوشل میڈیامیں ایک کمنٹ کے مطابق فلم ’’ مالک‘‘ میں ’’وزیر اعلیٰ سندھ‘‘ کو عیاش ، کرپٹ اور لڑکیوں کا ریپ کرنے والے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس پر بھی بس نہیں کیا گیا اور پھراس وزیراعلیٰ سے ایک افغان لڑکی کا بھی ریپ کروایا گیا ہے اور لڑکی بھی ایسی جس کا ایک بھائی افغان طالبان کا ساتھی ہے۔ اس فلم میں ایک جنرل کو ایک پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی کا مالک دکھایا گیا ہے جس کا میجر بیٹا فلم کا ہیرو ہے چونکہ وزیر اعلیٰ کو وی وی آئی پی سیکیورٹی نہیں مل پاتی تو وہ اس پرائیویٹ کمپنی کی سیکیورٹی لے لیتا ہے اور سیکیورٹی پر مامور میجر وزیر اعلیٰ کو قتل کا ’’کارنامہ ‘‘ سر انجا م دے دیتا ہے۔ یعنی وہی حرکت بطور کمال پیش کی گئی ہے جو ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کے ساتھ کی۔
فلم کی کہانی میں ریٹائرڈ فوجی افسران ایک نجی سکیورٹی کمپنی میں اکٹھا ہوتے ہیں اور لوگوں کو انصاف تک رسائی میں مدد فراہم کرتے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ بتایا جارہا ہے کہ ریاست ناکام ہو چکی ہے اور لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فلم کے ہدایت کار عاشر عظیم جو کہ خود بھی پاکستان ائیر فورس میں ایرو ناٹیکل انجینئر رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ ’’مالک ‘‘کا تصور بہت سادہ ہے کہ پاکستان کا شہری پاکستان کا مالک ہے اور یہ وطن دوست فلم ہے، جس میں ہم شہری کو بتانا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب صرف ووٹ ڈالنا نہیں ہے، بلکہ ہر روز اپنے حقوق ادا کرنا اور ذمہ دارایاں نبھانا ہے‘۔
جو ریاست اپنے عوام کے جان و مال کی حفاظت نہ کر سکتی ہو وہ ناکام ریاست ہی کہلاتی ہے۔جہاں ہر کوئی اپنی خواہش کا انصاف حاصل کر لیتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کی ناکامی کا ذمہ دار صرف سیاست دانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔میڈیا اور اس کے پروردہ دانشور و اینکر پرسن ایک مخصوص انداز سے مسلسل نہ صرف سیاستدانوں کی کردار کشی کرتے ہیں بلکہ سیاسی عمل سے نفرت کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں عدلیہ اور فوج دو کرپٹ ترین ادارے ہیں جو مقدس گائے کا روپ دھار ے ہوئے ہیں لیکن نزلہ ہمیشہ سیاست دانوں پر گرتا ہے ۔
قائداعظم یونیورسٹی میں انتھراپالوجی کے طالب علم اعظم خان نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ اگر عوام ہی پاکستان کے ’’مالک‘‘ ہیں تو پھر عوام کی حکمرانی کی راہ میں کون رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے ؟ کون پاکستان کے آئین کو بار بار اپنے بوٹوں تلے روندتا ہے؟کون سی طاقت ہے جو پاکستانی عوام کے وسائل دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے؟ کیا سیاست دان عوام کو مذہب کے نام پر جہاد میں جھونک رہے ہیں؟ کیا سیاست دانوں نے مذہب کے نام پر دہشت گرد تیار کیے ہیں؟ کیا سیاستدانوں نے دہشت گردی کے لیے ٹریننگ کیمپ بنائے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دفاعی اخراجات کے متعلق کوئی سوال بھی پوچھ سکیں۔۔۔