مقبول ملک
’’کتنے پیسے لیں گی آپ،‘‘ اس نے بظاہر اپنے قد سے چھوٹے چست لباس میں ملبوس اس جوان لڑکی سے پوچھا، جو ایک بند سٹور کے سامنے اس بازار کے ایک مقابلتاً کم روشن حصے میں کھڑی تھی جہاں دن غروب آفتاب کے بعد نکلتا ہے۔ دن کا تعلق صرف طلوع آفتاب ہی سے نہیں ہوتا۔ بڑے شہروں کے ایسے علاقوں میں دن کا چڑھنا لوگوں کے ہجوم سے مشروط ہوتا ہے۔ خریدنے والے اور بکنے والے نہ ہوں تو دوپہر کی کڑی دھوپ بھی گھپ اندھیرا ہوتی ہے۔ لیکن گاہکوں کا ہجوم ہو تو کچھ ہی دور باقی ماندہ شہر کے لوگوں کے دن بھر کے کام کاج کی تھکن کے بعد محو خواب ہونے سے قطع نظر اس بازار کا دن رات کی سیاہی میں بھی اتنا ہی روشن ہوتا ہے جیسے جون جولائی کی کوئی سہ پہر۔
اس لڑکی نے کمال کا سوال سن تو لیا تھا اور ابھی اس کے لہجے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مخمصے ہی میں تھی کہ اس نے پھر پوچھا، ’’کتنے پیسے لیں گی آپ؟‘‘ یہ مڈل کلاس کے بھوکے جانور بھی عجیب ہوتے ہیں، اس لڑکی نے سوچا۔ ’’باتیں بڑے مہذب خاندانی افراد کی طرح آپ جناب کہہ کر کرتے ہیں اور جسم نوچنے میں گنوار، بدبودار مزدوروں اور امیر گھرانوں کے بظاہر صاف ستھرے مردوں سے کم نہیں ہوتے۔ اس کے آپ جناب کو ختم ہونے میں بھی تین چار منٹ ہی لگیں گے،‘‘ اس لڑکی نے سوچا اور اپنے اندر کی ذہنی بیزاری کو جسم اور لہجے کی دانستہ کشش میں چھپا کر بولی، ’’ایک ہزار۔‘‘
پیسے بتاتے ہوئے اس لڑکی نے، جو پچیس چھبیس برس کی ہو گی اور جس کا نام اس کی ماں نے جمیلہ رکھا تھا، ایک لمحے ہی میں اندازہ لگا لیا تھا کہ اس ’آپ جناب‘ کو تو وہ دس پندرہ منٹ میں ہی بھگتا لے گی اور پھر اس بھرے بازار میں اسے گوشت نوچنے والا کوئی نیا گدھ تلاش کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ جمیلہ جو کچھ بھی کرتی تھی، وہ اسے اچھا تو نہیں سمجھتی تھی۔ لیکن جسے وہ برا سمجھتی تھی، وہ شروع سے ہی اس سے ہونے والی کمائی کی وجہ سے اس کی ضرورت تھا اور حالات سے سمجھوتے نے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی عملاً اس کام کو قبول کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
پچھلے چند مہینوں سے جمیلہ، جو کسی گاہک کو کبھی اپنا اصلی نام نہیں بتاتی تھی، یہ جان چکی تھی کہ جمعرات کی رات بازار میں رش کم ہوتا ہے اور جمعے اور ہفتے کی راتوں کو کہیں زیادہ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آج بھی جمعرات ہی کی رات ہے اور دو تین ہزار کمانے کے بعد وہ سکون سے اپنے کمرے میں جا کر حسب معمول اپنی پسند کی کچھ موسیقی سنے گی اور پھر میک اپ اتار کر اپنے تھکے ہوئے جسم کو نیند کے حوالے کر دے گی۔ کل رات اس نے پانچ ہزار کمائے تھے اور اس کی نیند پوری نہیں ہو سکی تھی، حالانکہ پچھلی رات بدھ کی رات تھی۔
’’لیکن پہلے میں اس آپ جناب کرنے والے گدھ سے تو نمٹ لوں،‘‘ اس نے دل میں سوچا اور بولی، ’’چلیں، کچھ ہی دور ایک کمرہ ہے۔ زیادہ چلنا نہیں پڑے گا؟‘‘ لیکن کمال کے جواب نے اسے حیران کر دیا، ’’پہلے کچھ کھا لیں۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ آپ بھی کچھ کھائیں گی؟‘‘ جمیلہ جتنی حیران تھی، بیزار اس سے کہیں زیادہ۔ لیکن اس نے کمال پر اپنی سوچ ظاہر نہ ہونے دی۔ ’’کچھ کھا سکتے ہیں۔ مجھے زیادہ بھوک تو نہیں لیکن کچھ کھایا جا سکتا ہے۔‘‘ اسے یاد تھا کہ اس نے جو کچھ بھی کھایا تھا شام سے پہلے نہانے کے بعد تیار ہوتے ہوئے ہی کھایا تھا۔
دونوں چلتے چلتے ایک قریبی ریستوراں میں پہنچے۔ ملازم جو بازار کی تقریباً سبھی عورتوں کو جانتا تھا، کندھے پر رکھے رومال سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے جمیلہ کی طرف دیکھ کر ایسے مسکرایا جیسے اسے اپنی شناسائی یاد دلا رہا ہو۔ ایسے ہوٹل ملازمین کے لیے عورتوں کے ساتھ آنے والے مرد اہم نہیں ہوتے۔ وہ بدلتے رہتے ہیں۔ اب کوئی کس کس کا چہرہ یاد رکھے۔ ریستوراں میں کمال نے کھانے کا آرڈر دیا اور دیر تک وہاں بیٹھا جمیلہ سے باتیں کرتا رہا۔ وہ کافی دیر تک وہاں بیٹھے۔ ایسی نشستوں میں مرد وقت کا دھیان نہیں کرتے لیکن جمیلہ جو شروع میں کچھ بے چین تھی، اب سکون سے وہاں کمال کے ساتھ بیٹھی تھی۔
’’آپ ایک رات میں کتنا کما لیتی ہیں؟‘‘ کمال کے اس سوال پر جمیلہ کو اس بار کوئی کوفت نہ ہوئی۔ وہ اتنی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے اس کے آپ جناب کی کچھ عادی سی ہو گئی تھی۔ ’’چار پانچ ہزار،‘‘ جمیلہ نے ہلکی آواز میں کہا اور سوچا کہ آج تو تین ہزار بھی مشکل لگتے ہیں۔ کھانے کے بعد کمال نے چائے کا آرڈر دیا تو جمیلہ سوچنے لگی کہ بڑی غنیمت ہو گی اگر آج تین ہزار جمع ہو گئے۔ جمیلہ کو اس کے ساتھ گفتگو بری نہیں لگ رہی تھی لیکن دل ہی دل میں یہ خیال بار بار آ رہا تھا کہ آج کی رات تو اب تک غارت ہی گئی۔
چائے پینے کے کچھ دیر بعد کمال نے ریستوراں کے ملازم سے پوچھا، ’’کتنے پیسے؟‘‘ ملازم نے بل بتایا، جو کمال نے ادا کیا تو دونوں ریستوراں سے باہر نکل آئے۔ ویٹر کافی زیادہ ٹپ پر خوش تھا۔ جمیلہ یہ سوچ رہی تھی کہ تیس پینتیس برس کی عمر کا جو مرد اس کے ساتھ تھا اور جس کا وہ نام بھی نہیں جانتی تھی، یا تو بہت شرمیلا تھا یا پھر وہ اس کام کے قابل ہی نہیں تھا جس کے لیے اس نے ایک ہزار مانگے تھے۔
چلتے چلتے واپس اسی بند سٹور کے سامنے پہنچ کر جہاں دونوں کے بیچ ان کے مشترکہ وقت کا معاوضہ طے ہوا تھا، کمال نے جمیلہ سے کہا، ’’اگر آپ یہاں سے واپس اپنے کمرے میں جائیں، اکیلی، تو آپ کو کیسا لگے گا؟‘‘ جمیلہ کو اندازہ ہو گیا کہ وہ شاید کوئی ایسا مرد تھا، جو کسی عورت کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ ایک ایسا گدھ جو گوشت نوچنے کے قابل نہیں تھا۔ اسے پریشانی ہوئی لیکن ساتھ ہی کسی حد تک یہ تسلی بھی کہ اس کے وقت کی کچھ نہ کچھ قیمت تو اسے مل ہی جائے گی۔
اس سے پہلے کہ کمال کچھ اور کہتا، جمیلہ بولی، ’’تمہیں خوف ہے کہ تمہیں مجھ سے کوئی بیماری لگ جائے گی؟ یا میرا جسم تمہارے لیے پر کشش نہیں ہے یا پھر تم کچھ کر ۔۔۔‘‘ جمیلہ نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ کمال کے لیے یہ سوال نیا نہیں تھا۔ اس نے بس اتنا ہی کہا، ’’آپ کی آخری بات سچ ہے۔‘‘ پھر اس نے یکایک اپنی جیب سے ہزار ہزار کے پانچ نوٹ نکال کر جمیلہ کے ہاتھ میں تھما دیے اور بولا، ’’جمعرات کی رات کو جمعے کی پوری رات کی کمائی۔ کچھ نہ کرنے کا معاوضہ۔ صرف آج کی ایک رات اگر آپ یہاں سے واپس اپنے گھر چلی جائیں تو یہ رات آپ کے لیے خسارے میں نہیں جائے گی۔ کبھی کوئی گاہک میرے جیسا بھی ہو تو نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ کبھی کبھی کوئی گاہک نہیں بھی ملتا اور کبھی مل کر بھی نہیں ملتا۔ لیکن یہ بات ضرورتیں کہاں جانتی ہیں؟‘‘
جمیلہ کو پہلے کبھی کچھ نہ کر کے بھی کچھ کمانے کا کوئی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ وہ ابھی کمال کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ وہ مڑا اور بازار میں اس طرف کو چل دیا جہاں سے اسے کوئی نہ کوئی سواری مل سکتی تھی۔
وہ ایک ایسا سرکاری ملازم تھا جس کی تنخواہ اگر بہت زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھی۔ وہ کوئی مذہبی شخص نہیں تھا لیکن اس مہینے بھی اپنے مقصد میں کامیاب رہا تھا۔ وہ ہر ماہ تنخواہ ملنے کے بعد پہلے ہی ہفتے کسی نہ کسی رات خود کو نامرد ثابت کر دیتا تھا۔ اس کی بیوی جانتی تھی کہ اسے ہر مہینے کے پہلے ہفتے کسی ایک روز آدھی رات کے بعد تک دفتر میں رکنا پڑتا تھا۔
’’سینٹرل ہسپتال،‘‘ کمال نے ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور کو بتایا۔ ہسپتال کے باہر کیمسٹوں کی درجنوں دکانیں تھیں جو چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھیں۔ اسے اپنی بیوی کی دوائی لینا تھی جو قریب دو ماہ بعد تیسری بار ماں بننے والی تھی۔ دوائی خریدنے کے بعد اس نے دوبارہ ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے فارمیسی کے ساتھ والے سٹور سے تین ڈیری ملک چاکلیٹ بھی خرید لیے۔ کمال کی بیوی اور دونوں بچوں کو چاکلیٹ بہت پسند تھے، سب سے زیادہ بیٹی جمیلہ کو۔
پانچ اپریل، دو ہزار سولہ
♠
One Comment