مہرجان
انسان آزاد پیدا ہوا لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہو ا ہے ۔
کیا واقعی انسان آزاد پیدا ہوا؟ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ریاستی زنجیر بھی اک ایسی زنجیر ہےجس سےروسو بھی جان نہ چھڑا سکا۔میں یہاں کچھ ایسے لبرل حضرات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو آزادی افکار کا روز و شب بھاشن دیتے ہیں لیکن خود وہی کام کررہے جو اک مذہبی ملا مذہب کے نام پہ سرانجام دیتا ہے ۔
ایک مُلا جب یہ کہے کہ اگر کوئی مذہب کا باغی ہے تو اس پہ نہ صرف جہاد بلکہ اس کا قتل بھی اہل مذہب پہ واجب ہے ۔بس یہ سننے کی دیر ہوتی ہے کہ لبرل حضرات آزادی افکار کا علم لے کر میدان میں اترآتے ہیں اور مذہب کو انسان کا ذاتی فعل قرار دے کر اہل مذہب کو خوب لتاڑتے ہیں جبکہ قصور مذہب کا ہے یا اہل مذہب کا وہ اس قضیہ سے اپنے آپ کو بڑی چالاکی سے بچانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں تصویرکے دوسرے رخ کی جانب، کیا یہی کام بالکل اسی انداز سے لبرل حضرات انجام نہیں دے رہے؟ گر کوئی ریاست کا باغی ہو یا ریاستی جبر کو نہ مانے تو اور ریاست مذہب سے بڑھ کر ظلم کی انتہاء کرلے۔تو اس وقت ریاست کا کلمہ پڑھنے والے لبرل حضرات کی خاموشی بالکل دیدنی ہوتی ہے۔
پھر ریاستی لبرل کبھی بھی ریاست کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا تو دور کی بات چوں بھی نہیں کرتے چونکہ وہ ریاستی کلمہ اسی طرح پڑھ چکے ہیں جیسا کہ اک مذہبی شدت پسند مذہبی کلمہ پڑھ کر ظلم کو جواز فراہم کرتا ہے۔ یہاں پاکستان میں تو خیرآپ کو ایسے بھی لبرل دانشور ملیں گے جو “تمہارا حاکم قریش سے ہوگا” اس اک جملے سےجمہوریت ثابت کرنے میں طاق ہیں لیکن جو حضرات ویسٹ فیلیاء سے لے کر میگنا کارٹا ،ہابس، لاک، روسو سے نیچے بات نہیں کرتے ان کی بھی ترجیحات اور دانش کچھ عجیب و غریب ہے ۔
پچھلے دنوں اک مایہ ناز لبرل دانشور سے جب اسی تنا ظر میں بات ہوئی کہ ریاستیں اخلاقی معاہدات پلتی اور پھولتی ہیں جبکہ یہاں مسٹر جناح سے لے کر اب تک ریاستی معاہدات کے ساتھ جو کھلواڑ ہورہا ہے اس پہ آپ کی کیا رائے ہے؟ تو بجائے جواب دینے کے طالب علم کو کٹہرے میں کھڑا کرکے یہ پوچھنے لگے کہ آپ خان آف قلات کی حق حکمرانی کو بلوچوں پر کیسے تسلیم کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہیں کہ میں نے خان آف قلات کی حق حکمرانی نہیں بلکہ مسٹر جناح کی بات کی تھی جو کہ لبرل حضرات کے لیے پیغمبر سے بڑھ کر ہے۔ انہوں نے یہ حق حکمرانی کو تسلیم کیا میں نے ہرگز نہ تسلیم کیا نہ کرتا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ آزادی افکار کی بات کرنے والے ریاستی کلمہ پڑھ کر ریاستی ظلم کو ایسے ہی جواز دے رہے ہیں جو کہ اک ملا مذہب کے نام پہ دیتا آرہا ہے۔ میری نظر میں اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہے پہلی وجہ یہ کہ وہ محکومیت کا تجربہ نہیں رکھتے وہ مسخ شدہ لاشیں ویرانوں اور دریاے سندھ کے کنارے پاتے۔
وہ اس درد سے سے گذرے ہی نہیں ہیں، اسی لیے وہ ریاستی ظلم کو ریاست کے نام پہ جواز دے رہے ہیں اور ان کی ترجیحات اس ظلم کا خاتمہ نہیں بلکہ ویلنٹائن ڈے منانا ہے۔ دوسری وجہ میرے خیال میں حساسیت ہے جو کہ بالکل معروضی ہے۔ سارتر، ڈیگال کے سامنے احساس کی بنیاد پہ کھڑا ہوا نہ کہ تجربے کی بنیاد پہ۔
یہاں بات ختم کرنے سے پہلے میں چیخوف کی اک کہانی کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو کہ تجربیت کی واضح مثال ہے۔جب وارڈ نمبر6 میں اک ڈاکٹر اک پاگل مریض کو یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ آپ اس وارڈ کو اک لائبریری سمجھ کر ذہنی سکون حاصل کریں چونکہ مریض کا تجربہ کچھ اور تھا وہ ڈاکٹر کی طرح سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ اسی لیے جب اسی ڈاکٹر کو معاشرہ زبردستی مریض بناکر اسی وارڈ میں لایا تو وہی پاگل مریض ڈاکٹر کو طنزا یہ کہہ کر سوگیا کہ آپ بھی اب اس وارڈ کو پوری زندگی لائبریری سمجھ کے سوجائیں۔
تجربہ اور احساس دو ایسے سرمائے ہیں جو کبھی بھی کتابوں سے نہیں ملتے آپ بھلے فلسفے میں تھیلز سے لے کر رسل تک سیاسیات میں ارسطو سے لے کرفوکو یاما تک تاریخ میں ہیروڈوٹس سے لے کر ول ڈیورا نٹ تک علم کو کھنگالیں لیکن جب تک آپ ظلم کو جواز دیتے رہیں گے چاہے مذہب کے نام پہ یا ریاست کے نام پہ سب بیکار ہے۔
♠