آصف جیلانی
سن انیس سو چون کی بات ہے۔ مظفر علی منصوری صاحب جو ان دنوں خبر رساں ایجنسی اے پی پی میں تھے اور ڈان کے مشیر حسن کے ساتھ میں سندھ چیف کورٹ کے چائے خانے میں بیٹھا تھا کہ چھبیس سال کا ایک نوجوان جو لباس سے نرا ’ٹیڈی بوائے‘ نظر آتا تھا، پتلی موری والی ٹانگوں سے چپکی ہوئی پتلون، جسم پر کسا ہوا کوٹ ، چمک دار غیر ملکی جوتے اور چال ایسی کہ جیسے کوئی رقص پر موسیقی کی تیز دھن سے قدم ملا رہا ہو۔
یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جو کیلی فورنیا کی برکلے یونیورسٹی سے فارغ ہو کر تازہ تازہ پاکستان لوٹے تھے اور کراچی میں وکالت شروع کی تھی۔ اس زمانہ میں وہ سندھ کے مشہور وکیل رام چندانی ڈنگو مل کے چیمبر سے منسلک تھے۔
گاندھی گارڈن کے عقب میں اس علاقہ میں جو گارڈن ایسٹ کہلاتا تھا یہ اپنے والد سر شاہ نواز کی کوٹھی میں رہتے تھے۔ میں اس زمانہ میں اسی علاقہ میں رہتا تھا اور گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔
سندھ چیف کورٹ کے چائے خانہ میں مجھے دیکھ کر ہی وہ ہماری میز پر آئے تھے۔ اس دن وہ بہت خوش تھے کہنے لگے کہ آصف، مجھے پہلا مقدمہ ملا ہے جو بہت اہم ہے۔ سندھ کے ہاری رہنما حیدر بخش جتوئی کو ایوب کھوڑو نے گرفتار کر لیا ہے۔’میں ان کی حبس بے جا کی درخواست داخل کرنے حیدرآباد جا رہا ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ بد بخت کھوڑو مجھے بھی پکڑ لے گا۔‘
پھر کچھ توقف کے بعد بولے ، اگر چار روز کے بعد میں کراچی واپس نہ آیا تو 249249تم میرے لئے حبس بے جا کی درخواست داخل کردینا،،۔
میں نے منصوری صاحب اور مشیر حسن سے بھٹو صاحب کا تعارف کرایا۔ مجھے علم تھا کہ ان کے والد سر شاہ نواز انہیں سفارت کار بنانا چاہتے تھے اور وہ انہیں لے کر ایوب کھوڑو کے پاس گئے تھے۔ لیکن انہیں بے التفاری کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے کہا کہ بھٹو صاحب سفارت کار بننا چاہتے ہیں۔
منصوری صاحب نے پوچھا کہ کیوں سیاست میں آنے کا کوئی اراداہ نہیں؟
اس پر بھٹو صاحب نے کہا ارادہ تو ہے لیکن۔۔۔
میں نے پوچھا کہ لیکن کیا؟
وہ بولے کوئی جماعت مناسب نظر نہیں آتی ۔ پھر خود کہا کہ مسلم لیگ زمینداروں اور جاگیر داروں اور عہد رفتہ کے سیاست دانوں کی جماعت ہے۔
میں نے از راہ تفنن کہا تو پھر کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوجائیں ۔
کہنے لگے کہ نظریات توبھلے خوش نما ہوں لیکن میرے مزاج کے مطابق نہیں۔
منصوری صاحب نے کہا ہاں عیش و عشرت کی زندگی ترک کرنی ہوگی اور جاگیر داروں کا چولا اتار کر مزدوروں اور کسانوں میں کام کرنا پڑے گا۔
میں نے کہا کہ آزاد پاکستان پارٹی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس ترقی پسند پارٹی میں تووہ پڑھے لکھے روشن خیال لوگ ہیں اور خود ان کے وکالت کے پیشہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد ہیں جیسے بیرسٹر نور العارفین ، محمود علی قصوری اور فخر الدین جی ابراہیم وغیرہ ۔
بھٹو صاحب کہنے لگے ، وہاں پہلے ہی سے میاں افتخار الدین اور شوکت حیات ایسے سیاست دان ہیں میں ان میں گہنا جاؤں گا۔
منصوری صاحب نے سوال کیا کہ عوامی لیگ کے بارے میں انہوں نے نہیں سوچا۔
بھٹو صاحب بولے اس پارٹی کی جڑیں بنگال میں ہیں ، اس کے مسائل اور اس کی شبیہ بنگالی ہے ۔ پاکستان کی اس مغربی حصہ میں یہ کبھی قبولیت حاصل نہیں کر سکے گی۔
مشیر حسن نے برجستہ کہا کہ اب صرف جماعت اسلامی بچ گئی ہے۔
اس پر انہوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا کہ میں اورمُلاؤں کی جماعت میں شامل ہوں؟
میں نے کہا کیوں نہیں ، دین بھی مل جائے گا اور دنیاوی سیاست میں بھی نام ہوگا۔
کہنے لگے نہیں وہاں مجھ جیسے روشن خیال شخص کی گنجایش نہیں۔
یہ تھا ہمارا پہلا مفصل تعارف ذوالفقار علی بھٹو سے ۔ بڑے زمیندار سر شاہ نواز بھٹو کا بیٹا ، نازو نعمت میں پلا بڑھا ، عیش و عشرت سے سرشار ، جو غریب ہاریوں کے رہنما کا مقدمہ لڑنے جارہا تھا اور جو ملک کی سیاست میں آنے کا آرزو مند ، لیکن کوئی جماعت اسے خاطر خواہ نظر نہیں آتی۔
پھر ایک عرصہ گزر گیا۔ بھٹو صاحب کو نہ تو کوئی بڑا مقدمہ ملا، ویسے انہیں ضروت بھی نہیں تھی۔ زیادہ وقت ان کا اشرفیہ کی شبینہ پارٹیوں میں گزرتا تھا یا پھر لاڑکارنہ میں المرتضی میں جہاں وہ صاحب ثروت افراد کو تیتر بٹیر کے شکار کی دعوتیں دیتے تھے ۔
اکتوبر سن اٹھاون میں پاکستان میں پہلی بار جنرل ایوب خان کی قیادت میں فوج نے ملک فیروز خان نون کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ اس مارشل لاء کے تحت ایوب خان نے ملک کے تمام صوبوں کی نمایندگی کے لئے کابینہ تشکیل کی تھی لیکن سندھ میں شدید مخالفت کی وجہ سے اس صوبہ سے کوئی وزیر نہیں مل رہا تھا۔ اس بارے میں جب ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا سے ذکر کیا تو انہوں نے بھٹو صاحب کا نام تجویز کیا جن کے ہاں وہ عام طور پر شکار کھیلنے جاتے تھے۔ پھر اسکندر مرزا کی بیگم ناہید بھٹو صاحب کی اہلیہ نصرت بھٹو کی دوستی کے ناطے قریبی تعلقات تھے۔ یوں بھٹو صاحب وزیر تجارت کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
بلا شبہ اس دور میں ، بھٹو صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ روس کو پاکستان میں فولاد کے کارخانہ کے قیام کے منصوبہ کے لیے آمادہ کرنا تھا جس سے پاکستان نے صنعتی ترقی نے ایک نیا موڑ لیا۔ پھر سن تریسٹھ میں ان کا کارنامہ چین اور پاکستان کے درمیاں سرحد کے تعین کے بارے میں سمجھوتہ تھا۔
سن انیس سو اٹھاون میں فوجی حکومت کے راستے سیاست میں داخلے نے، ایسا جان پڑتا تھا کہ، بھٹو صاحب کی سیاسی تقدیر پر فوج کی ایسی ان مٹ مہر ثبت کر دی ہے جس سے انہیں تختہ دار تک نجات نہیں مل سکی۔
انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ چونکہ ان کا تعلق ملک کے ایک چھوٹے صوبے، سندھ سے ہے لہٰذا اقتدار کے حصول میں انہیں فوج کے سہارے کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں ہے اور اس کے لیے انہیں بہت قربانی دینی ہوگی۔
بنگلہ دیش کے بحران کے سلسلہ میں ان پر یہی الزام عائد ہوتا ہے کہ انہوں نے فوج کا موقف اختیار کیا اور شیخ مجیب سے ’ادھر تم ادھر ہم‘ کے نعرے کی بنیاد پر دو بدو مقابلہ کیا اور مفاہمت کے تمام کواڑ بھیڑ دیے۔
پھر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انہوں نے ملک کی شکست خوردہ فوج کی امیج بحال کرنے کے جتن کیے، یہاں تک کہ فوج کی پرانی وردی بدل دی اور وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کی فوج کو ایشیا کی بہترین لڑاکا فوج بنا دیں گے۔
اور فوج کو بدنامی سے بچانے کے لیے انہوں نے مشرقی پاکستان میں سیاسی اور فوجی ہزیمت کے بارے میں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو مْقفل رکھا اور کسی کو اس کی سن گن نہ ہونے دی۔ جب کہ اس وقت اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ قوم کھل کر ان عوامل پر بحث کرے جن کے نتیجہ میں ملک دو لخت ہوا۔
پھر شکست خوردہ فوج کے سربراہ اور ملک کے ٹوٹنے کے حالات کے ذمہ دار جنرل یحییٰ کی معزولی کے بعد ان کی موت تک ان کے خلاف مقدمہ چلانے سے صاف انکار کیا۔
فوج اور فوجی جرنیلوں کا خوف بھٹو صاحب کے ذہن پر بری طرح سے طاری تھا۔
مجھے یاد ہے کہ سن اکہتر میں سقوط ڈھاکہ کے بعد جب بھٹو صاحب سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کر کے جرنیلوں کے بلاوے پر وطن واپس جا رہے تھے تو وہ لندن کے ہیتھ رو ہوائی اڈہ پر رکے۔ اتوار کا دن تھا۔ وی آئی پی لاؤنج میں ان کی اس زمانہ کے برطانوی وزیر خارجہ سر ایلک ڈگلس ہیوم سے ملاقات ہوئی۔
ا س ملاقات کے بعد پتہ چلا کہ جرنیلوں نے طیارہ لندن بھیجنے کے بجائے روم بھیجا ہے۔ اس پرواز کے لیے ہیتھ رو کے یورپی ٹرمنل پر جانا پڑا۔ روم کی پرواز تین گھنٹے بعد تھی۔ اس دوران میں ان کے ساتھ تھا۔ ملک ٹوٹنے کا صدمہ اتنا شدید تھا کہ مجھ سے زیادہ بات نہیں ہو رہی تھی اور بھٹو صاحب اس بات پر سخت پریشان تھے کہ جرنیلوں نے طیارہ روم کیوں بھیجا ہے۔ لاؤنج میں بیٹھے بیٹھے وہ بولے ’آصف، رباط کے اس ڈرامہ کا قصہ سناؤ جو یحییٰ خان کو پیش آیا تھا۔‘ میرا دل دھک سے رہ گیا کہ اس وقت جب ملک پر ایسی آفت آن پڑی ہے بھٹو صاحب یحییٰ خان کے ان کرتوتوں کا وہ قصہ سننے کے لیے بے تاب ہیں جو رباط میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس کے دوران پیش آیا تھا اور جو میں نے انہیں سن انہتر میں لندن میں سنایا تھا جب وہ پیپلز پارٹی کی تنظیم کے سلسلہ میں یہاں آئے تھے۔
میں نے دل میں سوچا یہ کوئی وقت ہے ایسے قصوں کا۔ میں نے موضوع بدلنے کے لیے ان کی تشویش کو دہرایا کہ آخر جرنیلوں نے طیارہ روم کیوں بھجوایا ہے؟ کہنے لگے کہ کم بخت جنرل ان کا طیارہ کریش تو نہیں کرادیں گے؟
میں نے ان کو تسلی دی کہ اس وقت فوج کو ان کی سخت ضرورت ہے ملک کے سنگین ترین بحران سے نکلنے کے لیے۔ میں نے کہا سن اٹھاون میں فوج کو ان کی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی کہ اس وقت تھی۔ میں نے کہا کہ وہ سن اٹھاون میں جب مارشل لاء کی حکومت میں شامل ہوئے تھے تو اس وقت ان کی سیاسی قوت نہیں تھی لیکن اب وہ بچی کھچی پاکستان کی پارلیمنٹ میں اکثریتی پارٹی کے سربراہ ہیں۔
بھٹو صاحب کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ یہ باتیں سننے کے لیے بے تاب تھے۔
سن بہتر کے اوائل میں بھٹو جب ایران، ترکی، مراکش، تیونس، الجزائر، لیبیا، مصر اور شام کے دورے پر نکلے تو میں ان کے ساتھ تھا۔ ترکی میں دارالحکومت انقرہ کی پہاڑی پر کمال اتاترک کے مقبرہ پر حاضری دینے کے بعد بھٹو صاحب نے وہاں رکھی کتاب میں کمال اتاترک کو خطاب کرتے ہوئے لکھا کہ جس طرح شکست خوردہ ترکی کو انہوں نے پر آشوب دور میں سنبھالا تھا اور اس کااحیاء کیا اور اس کی عظمت کو بحال کیا اسی چیلنج سے وہ اپنے ملک میں دوچار ہیں۔
پھر جب دمشق میں انہوں نے آٹھ ملکوں کا دورہ مکمل کیا تو شام کے صدر حافظ الاسد کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ان کا یہ دورہ نشاۃثانیہ کا سفر تھا اور پاکستان کی مہارت اور عرب سرمایہ کے اشتراک سے ہم عالم اسلام کی ترقی اور قوت کے نئے دروازے کھول سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب کا واضح اشارہ جوہری توانائی کے میدان میں اشتراک کی طرف تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ بھی جو بھٹو صاحب کے سیاسی حریف تھے اور اب بھی ان کی سیاست کے مختلف پہلوں کے نکتہ چیں ہیں وہ اس بات کے معترف ہیں کہ پاکستان نے جوہری اسلحے کے میدان میں جو کچھ حاصل کیا ہے اس کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے اور در اصل اسی وجہ سے انہیں خمیازہ، اقتدار سے محرومی اور تختہ دار کی شکل میں دینا پڑا۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ سن اکہتر میں بھٹو صاحب نے بنگلہ دیش کے بحران میں فوج کا بھر پور ساتھ دیا اور پھر فوج کے ہاتوں دو لخت پاکستان کو برے وقت سنبھالا لیکن اسی فوج نے سن ستتر میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اناسی میں تختہ دار پر چڑھا دیا۔
بھٹو صاحب سے میری آخری ملاقات جولائی سن تہتر میں لندن میں ہوئی تھی جب وہ برطانیہ کے سرکاری دورہ پر آئے تھے۔ یہ خاصی طویل ملاقات تھی شرط ان کی یہ تھی کہ اس کے بارے میں ایک لفظ بھی ان کے جیتے جی باہر نہیں آئے گا۔ وہ نہ جانے کیوں ماضی کی یادوں کو بار بار کرید رہے تھے خود انہوں نے سن چون کی سندھ چیف کورٹ کی ملاقات یاد دلائی اور شکایتاً کہا کہ میں یہ طعنہ دیتا تھا کہ وہ سیاست میں فوج کے بل پر آئے ہیں لیکن لوگ اس بات کا اعتراف کیوں نہیں کرتے کہ انہوں نے پاکستان کی سیاست کو زمینداروں اور جاگیر داروں کے محلات سے نکال کر عوام کے حوالہ کی۔
مجھے بھٹو صاحب کے جاگیردارانہ انداز کا بخوبی احساس تھا اور مجھے پورا علم تھا کہ وہ اپنی کوئی مخالفت اور نکتہ چینی برداشت کرنے کے عادی نہیں۔مجھے ان کے نہایت سہل موڈ سے ہمت ہوئی۔ میں نے کہا بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں یہ بات ہمیشہ روشن رہے گی لیکن اس نکتہ چینی سے آپ دامن نہیں بچا سکتے کہ پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت جو ترقی پسند لوگ آپ کے ساتھ تھے وہ لوگ جنہوں نے سن ستر کے انتخابات میں آپ کو اور آپ کی پارٹی کو فتح سے ہمکنار کرایا وہ اقتدار کے حصول کے بعد بہت جلد یکے بعد دیگرے آپ سے جدا ہو گئے۔ پھر آپ نے اپنی پیپلز پارٹی کا تمام تر انتظام ایک سرکاری افسر وقار احمد کے حوالے کردیا ہے۔
میں نے کہا کہ لوگ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ملک میں صدارتی نظام قائم کرنے کے زبردست خواہاں تھے لیکن آپ نے عوام کی اکثریت اور ان جماعتوں کی رائے کا خیال رکھا جو ملک میں پارلیمانی جمہوریت چاہتی تھیں اور آپ نے آئین انہی خواہشات کے مطابق مرتب کیا۔ لیکن اسی کے ساتھ لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس کے فوراً بعد آپ نے سرحد اور بلوچستان میں حزب مخالف کی نیپ کی حکومتیں برطرف کردیں۔
بھٹو صاحب نے موضوع بدلتے ہوئے کہا کہ سن تریسٹھ کے وہ دن یاد ہیں جب دلی اور کلکتہ میں کشمیر کے بارے میں سردار سورن سنگھ سے مذاکرات کے دوران ملاقاتیں ہوئی تھیں اور ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بحث ہوئی تھی۔
کشمیر کے ذکر پر مجھے آپریشن جبرالٹر اور اس کے بعد سن پینسٹھ کی جنگ کے سلسلہ میں بھٹو صاحب کے رول پر سخت نکتہ چینی یاد آئی کہ انہوں نے کشمیر میں صورت حال کا صحیح تجزیہ نہیں کیا اور آنکھ بند کر کے چار ہزار کمانڈوز وادی میں جھونک دیے یہ جانے بغیر کہ کشمیر کے عوام کی انہیں حمایت ملے گی یا نہیں۔ پھر سن پینسٹھ کی جنگ میں یہ سوچے بغیر کہ اگر امریکا اور برطانیہ نے اسلحہ کی سپلائی بند کردی تو جنگ کیسے جاری رکھی جائے گی، صدر ایوب خان کو اس جنگ میں کودنے پر مجبور کیا۔ ان سب باتوں کا ذکر میں کرنا چاہتا تھا لیکن عمداً نہیں کیا کیونکہ رات کافی گذر چکی تھی اور میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ ملاقات بھٹو صاحب کی ناراضگی اور غصہ پر ختم ہو۔
واپسی پر میں یہ سوچتا آیا کہ کس قدر تضادات ہیں ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت میں۔ ایک طرف ایسی سیاسی بصیرت جس کا پاکستان کے سیاست دانوں میں سخت فقدان رہا ہے۔ روشن خیال اور اعلیٰ تعلیم سے لیس دوسری طرف خالص جاگیردارانہ تحکمانہ اور آمرانہ انداز۔ اپنے خلاف ذرا سی بھی بات اور نکتہ چینی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس قدر بپھر جاتے تھے اور پھر بکھر جاتے تھے۔ یہی نہیں وہ مدتوں اس شخص کو نہ معاف کرتے تھے اور نہ بھولتے تھے جو ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات کہتا تھا ۔
بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی سوچتا ہوں کہ اگر سن اکہتر میں بھٹو صاحب شیخ مجیب سے سیاسی مفاہمت کر لیتے اور اقتدار میں شراکت پر تیار ہو جاتے تو آج پاکستان کا نقشہ ہی مختلف ہوتا اور ممکن ہے کہ فوج کو سیاسی میدان میں شکست ہوجاتی۔
اور اگر سن اکہتر کی جنگ کی شکست کے بعد وہ صحیح معنوں میں فوج کا محاسبہ کرتے تو پاکستان کی سیاست پر سے فوج کی بالادستی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جاتی۔
یہ دونوں بہترین مواقع تھے۔ جو ذولفقار علی بھٹو نے کھو دیے جو خود ان کے لیے مہلک اور ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔
♠