بندے اور خدا کے درمیان مُلا

ارشد نذیر

worship-1

مان لیتے ہیں کہ مسئلہ ’’خدا پر ایمان لانے کا ہے ‘‘۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ہر تخلیق کار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی تخلیق کے جواہر ہر قاری، سامع، ناظر ، شامع وغیرہ وغیر ہ پر کھلیں۔ ایک ماہر ، مشاق اور منجھا ہوا تخلیق کار اپنے شہ پارے کو فن اور کرافٹ کے امتزاج سے منظر ، مظہر ، اشاروں اور استعاروں جیسی بھر پور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر سامنے لاتا ہے ۔ پھراپنی اس تخلیق کے جواہر سے مستفید ہونے والے ہر قاری ، سامع، ناظر، شامع وغیرہ وغیرہ سے مترشح کردہ معنی ومفاہیم سے خوش ہوتا ہے ۔

اپنی تخلیق کے قبیح یا مستحسن پہلوؤں پر تبصرے اُس کے لئے دو طرح کے احساسات لاتے ہیں ۔ ایک احساس تو اُس کی اپنی ذات اور وجود کا ہے اوردوسرا احساس اس بات کا کہ اُس کی تخلیق کی حقیقی ارج قارئین کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ یہ دونوں احساس ہر دو صورتوں میں خوشی کا باعث ہیں۔ یہ وہ منزل ہوتی ہے جس پر خالق یا تخلیق کار اپنا مقصدِ حیات پا لیتا ہے ۔

اس طرح تخلیق کار کا رشتہ انسان کے ساتھ براہِ راست ہے ۔ ہر انسان اپنے تخلیق کار کو اُس کے شہ پاروں یعنی کائنات اور خود اپنی تخلیق کے حوالے سے سمجھنے میں آزاد ہے۔ خالق اور مخلوق کے درمیان ملاّ کا رشتہ غیر ضروری ہے ۔ یہی عذاب بنا ہوا ہے۔ پھر ملاّ تنگ نظری پھیلانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

اب ہم ’’واحد خدا‘‘ پر یقین رکھنے والے ادیان اور ان کے مبلغین اور شارحین کے رویوں پر بات کرتے ہیں۔ تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں کا تصورِ خدا اور شعورِ خدا دراصل انسانی شعور ہی کے تابع ہے۔ یعنی ’’خدا‘‘ کو سمجھنے اور سمجھانے کی تمام تر مثالیں مظاہرِ فطرت سے چرائی گئی ہیں۔ مظاہرِ فطرت کی وسعت اور گہرائی انسان نے سائنسی اور فلسفیانہ علم کے ذریعے سے حاصل کی ہے۔ ان مظاہر کی بدلتی توضیحات اور تشریحات دراصل اُس خالق اور فنان کے شہکار اور فن پارے ہی کی تشریح ہیں۔ ان مظاہر میں اندھیرا بھی ہے ۔اجالا بھی۔ مادہ بھی ہے اور غیر مادہ بھی اور بلیک ہولز بھی ۔

یہ تمام اضداد اپنی حیثیت و اہمیت رکھتے ہیں۔ دونوں فطری مظاہر ایک دوسرے کی تفہیم کے لئے ازبس ضروری ہیں۔ ’’خدا کی نفی‘‘ یا الحاد بھی ایک طرح سے ان مظاہرِ فطرت کو ماننے کے مترادف ہے۔ لیکن ملاّ جس طرح سے نفی کی نفی کرکے مثبت کو منوانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اُس وقت وہ مظاہرِ فطرت کی کلیت یعنی واحد کا منکر ہو جاتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس پر وہ خود خالق اور تخلیق کار کی منشاء کے خلاف ڈٹ جاتا ہے ۔ اُس کی یہ ضد سراسر سیاسی ہے ۔یہ مذہبی ہو ہی نہیں سکتی۔ پھر ہر فرد مظاہرِ فطرت اور کونیات کی ان وسعتوں اور پھیلاؤ کو اپنے اپنے انداز میں سمجھتا ہے۔ اس عمل میں نہ مذہب ملاّ کو بیچ میں لایا ہے اور نہ ہی خود خالقِ کائنات۔

تمام مذاہب ہمیشہ ہی اپنے بچوں کے اذہان میں ’’خدا‘‘ کا تصور مظاہرِ فطرت کی مثالوں سے گھڑنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ بیسویں صدی میں سائنس ، فلسفہ اور دیگر علوم نے جب کائنات کی وسعتوں اور پھیلاؤ کے معنی و مفاہیم اور انسان کے تصورِ خدا میں تفرق محسوس کیا تو مذاہب کو براہِ راست چیلنج کا سامنا ہوا۔ کائنات کی توضیح و تشریح میں مذاہب کا ’’تصورِ خدا‘‘ کہیں فٹ نہیں ہو رہا۔ اس پر دیگر دو بڑے مذاہب یعنی مسحیت اور یہودیت نے مذہب ، سائنسی اور فلسفیانہ علوم میں تفریق کو قبول کرتے ہوئے مذہب کو دنیوی امور سے دور کر لیا۔

اب مسئلہ اسلام کا آتا ہے۔ آخر اسلام میں ملاّ کیوں اور کس لئے اس خالق اور فنان جسے خدا کہتے ہیں کو اپنی مرضی کا تصور دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اِس کی وجہ مذہبی سے زیادہ سیاسی ہے۔ کیونکہ وہ تصورِ خدا کی علمی کاوش کم کرتے ہیں اور اُس کو بیچنے کی کوشش زیادہ کرتے ہیں۔ یہ اُن کا سیاسی فعل ہے۔ اُن کی اس حرکت سے خالق اور تخلیق کار کی حقیقی تخلیق کا مطمحِ نظر اور منتہائے نظر ہی ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن وہ اپنے اس سٹیٹس سے پیچھے ہٹنے کو قطعاً تیار نہیں ہیں۔

وہ خدا کے اپنے اِس تصور کو عملی زندگی میں اپنی خواہش کے مطابق لاگو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے وہ مذہبی سے زیادہ سیاسی ہوجاتے ہیں۔ دوسری سیاسی وجہ اس کے اندر عسکریت کا عنصر ہے جس کو ہمیشہ ہی سامراجی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ وہ اپنے ان تصورات کو بزورِ بازو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے ان نظریات کی وجہ سے یہ ہمیشہ سامراج کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ کچھ معاملات ہماری اجتماعی نفسیات کے بھی ہیں۔ بہرصورت یہ بات طے ہے کہ ملاّ جو خدا اور تصورِ خدا کا ٹھیکدار بنا پھر رہا ہے ، خود ہی ’’خدایت‘‘ کے تصور میں وسعت اور پھیلاؤ کا دشمن ہے۔

انسان کے خدا پر ایمان لانے یا نہ لانے سے کائنات کے نظام میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا۔ یہ کائنات جن اصولوں پر کاربند ہے ، انہی پر ہی کاربند رہے گی۔ انسان کا تصورِ خدا اگر تنگ نظر ہے ، تو بھی اس سے کائنات کو کوئی فرق نہیں پڑتااور اگر انسان اپنے تصورِ خدا کو ذرا اپنی فہم کے مطابق وسعت دے دیتا ہے تو بھی کائنات کو ویسا ہی چلتے رہنا ہے۔ البتہ ’’خدا‘‘ کے بارے میں سوچنے پر پابندی لگانے اور ملّا کے بیان کردہ تصورِ الہٰی کوقبول کرنے کا جبر جیسے تصورات جابرانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ معاشروں پر مسلط ہونے کی مفاد پرستانہ اور منفی قسم کی سیاسی سوچ ہے۔

اپنی اسی سوچ کے تحت بچوں کے ذہنوں میں ’’خدا‘‘ اور ’’تصورِ خدا‘‘ کے ادراک کے بارے میں ابھرنے والے سوالوں کو دبانا تخلیقی عمل کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ تخلیق ‘خدا اور انسان دونوں کا وصف ہے۔ خدا اول تخلیق کار ہے ۔ انسان فطرت کی نقالی کرکے اُس میں بہتری لانے والا تخلیق کار ہے ۔ دونوں تخلیق کار ایک دوسرے سے ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دوست بھی ہو سکتے ہیں۔

لیکن یہ وصف صرف اور صرف انسان ہی کا ہے کہ اُس نے اپنے علم ، عقل اور سائنسی ترقی کے زور پر ہی فطرت، مظاہرِ فطرت ، خالق یا تخلیق کار یا اسے خدا کا نام دے لیں کے تصور میں وسعت پیدا کی ہے ۔ اس لئے یہ کریڈٹ اُسے جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے تصور میں تبدیلی و ارتقاء کا باعث بن رہا ہے۔ اس تجسس میں اگر وہ منکر و ملحد بھی ہو جاتا ہے تو درحقیقت وہ خداکی پہچان اور زیادہ بہتر تفہیم کا ذریعہ بن رہا ہوتا ہے۔ روایت پرستوں اور دقیانوسیوں کے لئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ منکرین اور ملحدین کو سماج میں نمو پانے کی جگہ دیں تاکہ ان کے حقیقی خدا کی شناخت زیادہ بہتر طریقے سے ممکن ہو سکے اور سماج میں تعقلیت کو رواج حاصل ہو۔

سائنس اور فلسفہ کی تاریخ پر غور کرنے سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ آج تک کسی بھی ایجاد اور دریافت کا راستہ نہیں روکا جا سکا اور نہ ہی روکا جائے گا۔ ملّا کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اُسے نئے راہوں کے سالک کے لئے رکاوٹیں پیدا نہیں کرنی ۔ اُس کے ایسا کرنے سے بھی یہ ارتقائی عمل رکنے والا نہیں ہے ۔ تاہم اس سے انسانیت کا نقصان ہو رہا ہے۔

جب ایک منکر و ملحد فلسفی اور سائنسدان ملاّ سے زیادہ فطرت اور مظاہرِ فطرت کی تشریح کرکے انسانوں کو انسانوں کے قریب لانے اور کائنات اور انسان کے درمیان رشتے کو واضح کرتا ہے ، تو درحقیقت وہ کائنات کی ان وسعتوں اور پھیلاؤ سے تجسس اور پیار رکھنے والا انسان بن جاتاہے ۔ اس کائنات میں اس کا کردار بہت مثبت اور ملاّ سے کہیں زیادہ محبت کے لائق ہے ۔ ملاّ یہ مانے یانہ مانے لیکن ملاّکے ادارے کی موت جلد یا بادیر نظر آرہی ہے۔ اب ان خدائی ٹھیکداروں کو کائنات کے اس حسین خالق کی وسعتوں اور پھیلاؤں کا جاننے اور اس کی مختلف تشریحات کرنے والے قاری ، سامع، شامع وغیرہ کے درمیان حائل ہونا چھوڑ دینا چاہئے ۔یہی منشائے الہی بھی ہے اور اسی میں انسانیت کی فلاح بھی ہے۔

لوگوں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ملّا اپنے تشریحات و توضیحات سے اپنے وجود اور اپنے ادارے کی بقا کی لڑائی لڑ رہا ہے ۔ یہ ایک سیاسی لڑائی ہے جس میں وہ سماج کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کو نقصان پہنچا رہاہے۔اس سارے کھیل میں سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ملاّ اس قسم کے تمام سیاسی حربوں میں ہمیشہ سامراجیوں کا آلہ کار بنا ہے ۔ عوام کو خدا اور بندے کے درمیان سے مُلاکو نکال باہر کرنا چاہئے۔

آخری بات چلو یہ بھی مان لیتے ہیں ’’خدا نے خود کو واحد اور لاشریک ‘‘ ماننے کا حکم دیا ہے ۔ لیکن کیا ’’خدا‘‘ نے یہ منوانے کے لئے بھی کسی کو مقرر کیا ہے ۔ اگرایسا منوانے کے لئے اُس نے کوئی معیارات رکھیں ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سے انبیاء جو اس دنیا میں تشریف لائے ناکام ہوئے ۔

One Comment