صوبہ پنجاب کے جنوب میں راجن پور کے قریب دریائے سندھ کے کچے علاقے میں جاری آپریشن ناکام ہو گیا ہے۔ سات پولیس اہلکاروں کی ہلاکت، نو کے زخمی ہونے اور بائیس دیگر کے اغوا کر لیے جانے کے بعد یہ آپریشن روک دیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے پولیس فورس کی مکمل ناکامی کے بعد رینجرز کو طلب کر لیا ہے، علاقے میں فوجی ہیلی کاپٹر پرواز کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس علاقے کے ایک شہری مختار احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کا 42 سالہ بیٹا، جو ایک پولیس کانسٹیبل ہے، دیگر مغوی پولیس اہلکاروں کے ساتھ چھوٹو گینگ کی حراست میں ہے۔ مختار احمد نے کہا کہ اسے اس کے مغوی بیٹے کے ذریعے فون پر اغوا کاروں کی طرف سے یہ پیغام ملا ہے کہ اگر ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی، تو تمام مغوی پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ ’’انہوں (اغوا کاروں) نے کہا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کو بتایا جائے کہ مغوی پولیس اہلکاروں کی سلامتی کے لیے ان کے مطالبات مانے جائیں۔‘‘
مختار احمد کے بقول یہ ڈاکو آپریشن ختم کیے جانے، اپنے لیے محفوظ راستے اور اپنے زخمی ساتھیوں کے بہتر علاج معالجے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مختار احمد کے بقول ڈاکوؤں نے تو متاثرہ پولیس اہلکاروں کے گھر والوں سے رابطہ کر لیا ہے لیکن ابھی تک کسی حکومتی شخصیت نے ان سے اظہار ہمدردی تک نہیں کیا۔ اس شہری کے بقول بغیر مناسب تیاری کے ان کے بچوں کو ڈاکوؤں کی گولیوں کے سامنے ڈال دینے والوں سے باز پرس کی جانی چاہیے اور حکومت کو ہر قیمت پر مغوی پولیس اہلکاروں کی جانیں بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ادھر لاہور میں جمعرات کے روز وزیر اعلیٰ پنجاب کی صدارت میں ہونے والے ایک خصوصی اجلاس میں آپریشن ’ضرب آہن‘ کی ناکامی کی تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقع پرآپریشن کی ناکامی کے ذمہ دار عناصر کے تعین اور پولیس میں بڑے پیمانے پر تبادلوں اور معطلیوں کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔
راجن پور میں جاری آپریشن میں شریک پولیس اہلکاروں کے ساتھیوں نے ڈی ڈبلیو کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت ’پولیس فورس کا مورال بہت ڈاؤن ہے، اس آپریشن میں عملی طور پر کمانڈر حصہ نہیں لے رہے، سارے ایس پی اور ڈی آئی جی حضرات نے پیچھے رہ کر چھوٹے عملے کو بلٹ پروف کشتیوں کی بجائے عام کشتیوں میں سوار کرا کے خطرناک علاقوں کی طرف دھکیل دیا، جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں‘۔ ان اہلکاروں کے بقول اس آپریشن کے لیے جانے والے پولیس اہلکار کشتیوں میں سوار ہونے سے گریزاں تھے۔ ڈاکوؤں نے پہلے پولیس اہلکاروں کو جنگل میں آنے دیا اور پھر ان کے گرد گھیرا ڈال کر انہیں اپنے قبضے میں لے لیا۔
کئی پولیس اہلکاروں نے گلہ کیا کہ مختصر عرصے کے لیے آپریشن کے علاقے کو وزٹ کرنے والے آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے پولیس فورس کے جوانوں کے ساتھ ملنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے سے بھی گریز کیا۔ بعض پولیس اہلکاروں کو دکھ ہے کہ ہر جگہ پہنچنے والے پنجاب کے چیف منسٹر شہباز شریف نے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ تک میں شرکت کرنا گوارہ نہ کیا۔ آپریشن میں شریک پولیس اہلکاروں کو دستیاب سہولتوں (اسلحہ اور خوراک وغیرہ) کے ناکافی ہونے کی باتیں بھی سننے میں آ رہی ہیں۔
اسی دوران پنجاب کی وزارت داخلہ کے ذرائع نے تصدیق کر دی ہے کہ اس آپریشن سے پہلے دو معتبر انٹیلیجنس اداروں نے جن احتیاطی اقدامات کو پیش نظر رکھنے کی سفارش کی تھی، انہیں مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ ادھر ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے ڈی آئی جی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرف سے زمینی حالات کو پیش نظر رکھے بغیر فوری طور پر حملہ کرنے کے اصرار کی وجہ سے خراب ہوا۔
جمعرات 14 اپریل کی شام راجن پور کی پولیس لائن میں شہید ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں کی نماز جنازہ میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر کچھ شہریوں کی طرف سے احتجاج بھی کیا گیا۔ روجھان کے ایک سرکاری افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کوبتایا کہ یہ بات درست ہے کہ قبائلی علاقوں کے معززین کے ذریعے چھوٹو گینگ کے ساتھ ہونے والے انتظامیہ کے مذاکرات کے بعد مرنے والے پولیس اہلکاروں کی لاشیں حاصل کی جا چکی ہیں، چھوٹو گینگ کے ڈاکوؤں نے بائیس مغوی پولیس اہلکاروں میں سے جمعرات کی شام تک چار زخمیوں کو رہا کر دیا تھا جبکہ 18 پولیس اہلکار ابھی تک ڈاکوؤں کے قبضے میں ہیں۔ ’’ڈاکوؤں نے پولیس اہلکاروں کے وائرلیس سیٹ اور ہتھیار بھی چھین لیے ہیں۔‘‘ بعض اطلاعات کے مطابق ڈاکو آپریشن ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مغویوں کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ غلام رسول عرف چھوٹو نے چھوٹو گینگ کے نام سے جرائم پیشہ لوگوں کا ایک گروہ قائم کر رکھا ہے، جو پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع راجن پور کی تحصیل روجھان کے قریب دریائے سندھ کے پانیوں میں گھرے کچے کے علاقے میں درختوں اور جھاڑیوں سے ڈھکے ہوئے ایک ایسے علاقے میں موجود ہے جہاں اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ پولیس آپریشن ناکام ہو چکے ہیں۔
قدرے اونچائی پر واقع اس علاقے میں بنائے گئے مورچوں میں 70 کے قریب ڈاکو موجود ہیں اور آٹھ اضلاع سے بلائے گئے 1600 سے زائد پولیس اہلکار پچھلے 17 دنوں کی تگ و دو کے بعد بھی ان ڈاکوؤں کے گروہ پر قابو نہیں پا سکے۔ بعض مقامی ذرائع ابلاغ میں چند ڈاکوؤں کے مرنے اور 100 سے زائد سہولت کاروں کی گرفتاری کی خبریں بھی شائع کروائی گئیں تاہم ان خبروں کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی۔
پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چھوٹو گینگ میں بلوچستان کے بعض قبائل سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوان بھی شامل ہیں جن کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے ہے اور ان کے پاس پاکستان کے ایک ہمسایہ ملک کی خفیہ ایجنسی کا دیا ہوا اسلحہ بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔
اسی دوران پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ ’کچے کے علاقے‘ میں اس آپریشن کے لیے فوج سے مدد لی جا سکتی ہے۔
DW