رزاق کھٹی
جن گھروں میں کتاب کے بجائے کرنسی سےمحبت کی جاتی ہو اس گھر سے اگر اپنی ہی وکالت میں کوئی شعر آجائے تو حیرانگی تو ضرور ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ
’’ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض بھی چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے‘‘۔
یہ ایک عالمگیر عادت ہے کہ حساب کتاب کا وقت آئے تو حساب دینے والا معصوم و مظلوم بن جاتا ہے!!۔
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بیٹے حسین نواز شریف نے ایک ماہ قبل دو ٹی وی چینلز کوانٹرویوز دیئے تھے، ظاہر ہے کہ چھوٹے میاں کوئی اتنے بڑے سیاستدان یا انقلابی تو تھے نہیں کہ جن کی باتیں دیکھنے والوں کیلئے زندگی کی مشکلات کم کرنے کا سبب یا انکے علم میں اضافے کا سبب بنتیں ۔ عام آدمی کیلئے ان انٹرویوز میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی وہ لوگ جنہیں اپنے حلقوں میں دانش واری جھاڑنے کا شوق ہے ان کیلئے اس انٹرویو میں دلچسپی سامان ضرور تھا ۔
پاناما لیکس عالمی اسکینڈل سامنے آیا تو پتہ چلا کہ یہ صاحب کیوں وضاحتیں کرنے آئے تھے۔
’’انہیں بھنک پڑگئی گئی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے، اس لیے انٹرویو کا انتظام ہوا، اور اسکینڈل آنے سے پہلے وضاحتیں کردی گئیں‘‘
میرے ایک دوست بتارہے تھے ’’پاناما لیکس سے ایک ہفتہ قبل ہی یہ چہ مگوئیاں ہورہی تھیں کہ عالمی سطح پر کوئی اسکینڈل آنے والا ہے‘‘ وہ کہہ رہے تھے
بظاہر تو وہ بڑے معصوم دکھتے ہیں، لیکن ان کی معصومیت پر کوئی کیوں نہ قربان جائے، یہ وہ لوگ ہیں جو برفانی علاقوں میں برف بیچنے کا ہنر جانتے ہیں،عالمی سیاسی پس منظر کے برعکس ہمارا انداز سیاست زیادہ ہی مختلف ہے، ہم عزت کو آنی جانی چیز سمجھتے ہیں۔ ہم دولت کو ہی عزت کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہم دولت کو عزت پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جتنی زیادہ دولت ہوگی، اتنا ہی عزت میں اضافہ ہوگا، ۔
ہم سے لوگ حساب مانگیں تو ہم اپنی قربانیاں گنوانے بیٹھ جاتے ہیں، ہمارے وزیر اعظم کے غیر سیاسی بیٹے کو اتنا پتہ ضرور ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن پھر بھی پرویز مشرف نے انہیں جیل میں کیوں رکھا، وہ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کون کرے گا؟ ہم جب پوچھتے ہیں کہ آپ نے اتنی دولت کہاں سے کمائی تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ ہم سے اس طرح کے بیہودہ سوالات پوچھتے رہیں۔۔۔
ہمارے وزیر اعظم صاحب بھی خوب ہیں۔ 1994 میں انہوں نے ساڑھے چار سو روپے ٹیکس ادا کیا۔ اور صرف بیس سال میں یہ ٹیکس چھبیس کروڑ روپے تک پہنچ گیا، کون پوچھ سکتا ہے کہ آپ کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی، جو ٹیکس ادئیگی میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوگیا۔ اور کون ہے جو ان سے پوچھے کہ اگر ساڑھے چار سو روپے ٹیکس جس سال آپ نے ادا کیا تو اس وقت پاکستان کے دولتمندوں کی فہرست میں آپ کس نمبر پر تھے؟ لوگ تو خوب سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب کے رائے ونڈ کے محل کی قیمت کا تخمینہ لگادیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ ہمارے وزیر اعظم کتنا سچ بولتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان نے رتی بھر بھی کبھی خیانت نہیں کی!!۔
ہمارے وزیر اعظم صاحب کو ان کی پچھلی حکومت کے دوران خلیفہ بننے کا بڑا شوق تھا۔ وہ خود کومغلوں کا شہزادہ سمجھتے تھے( ایک مٹھی میں دو خربوز ) اب وہ لبرل بن گئے ہیں تو ان کے پرانے ساتھی ان کے دشمن بن گئے ہیں۔ وہ ماضی میں خلیفہ بننے کی خواہش کے تحت آئین میں ترمیم کرنا چاہتے تھے، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔
سگار اور بغل میں کتا رکھنے والے جرنیل نے ان کی حکومت پر شب خون مارکر انہیں جیل بھیج دیا۔ بھلا ہو خادمین حرمین شریفین کا جنہوں نے جان بخشی کرائی اور سرور محل عطا کردیا۔ اس جلاوطنی نے ان کی دولت میں بے انتھا انبار لگادیئے۔ لیکن اگر خلفا کے تقلید کی دعویٰ کرنے والوں کے بیٹوں سے حساب لیا جائے تو باپ بیٹے دونوں ناراض ہوجاتے ہیں!۔
تہمینہ درانی میاں شہباز شریف کی شریک حیات ہیں، دنیا جانتی ہے کہ کتاب کے صفحات سے ان کا دیرینہ تعلق رہا ہے،وہ کرنسی کے ڈھیر میں رہنے کے باوجود کتاب کے کاغذ سے اپنی وابستگی کا رشتہ نہیں توڑ سکیں، اس خاندان کا حصہ ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے خاوند کے خاندان کی وکالت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنیز چاہے قانونی ہوں لیکن یہ غیر اخلاقی ہیں ۔ اس سے زیادہ اور وہ کیا کہہ سکتی تھیں ؟
لیکن ہمارے دوست نے ہمارے موقف سے اختلاف کیا۔ کہنے لگے کہ پڑھے لکھے لوگ اس لیے زیادہ گناہگار ہوتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے گناہوں کے سرزرد ہونے کا جواز ہوتا ہے، جذباتی مت بنو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ تہمینہ بی بی نے خاندانی اختلاف کے اظہار کیلئے اس موقع کو ہی غنیمت جانا ہو۔
پاکستان میں دو اہم مقدس گایوں میں سے ایک کے عدلیہ بھی ہے، لیکن حیران کن بات یہ ہے لاہور کے ایک جسٹس کا نام بھی آف شور کمپنی کے مالکان میں شامل تھا، لیکن ابھی تک ان کے بارے میں کہیں سے کوئی صدا نہیں آئی!۔
ابھی ایک ہفتہ ہی پورا نہ ہوا تھا کہ حکومت ملاؤں سے جان چھڑاپائی تھی، تو پاناما لیکس گلے پڑگئی۔ اب تو سب کو موقع ہاتھ لگ گیا ہے۔ سیاسی اخلاقیات کے بحران میں پھنسے پاکستان میں عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، پاکستان میں سیاستدانوں کے حوالے سے عوام کی توقعات میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں کہ عوام جس طرح ان کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ خود کو اس قالب میں ڈھال لیں۔ دونوں میں فاصلے بڑھتے جارہے ہیں، پاکستان جو ایک نہیں ان گنت مرض لاحق ہیں لیکن ان کے معالج عطائی ہیں!!۔
♠
One Comment