رزاق کھٹی
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی آہستہ آہستہ جس تنظیمی بحران کا شکار ہونے لگے تھی، وہ بحران اب اپنی مکمل شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما اس حوالے سے نہ صرف پریشان ہیں، بلکہ پرامید بھی ہیں کہ وہ اس بحران سے نکل جائیں گے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت اس قسم کا کوئی بحران موجود نہیں تھا، وفاق سمیت پیپلزپارٹی نے سندھ اور بلوچستان میں حکومتیں بنائیں، جبکہ پختون خواہ میں اے این پی کے ساتھ الحاق بھی تھا۔ پنجاب میں ان کے اپنے گورنر ہونے کی وجہ سے صورتحال مکمل طور پر پارٹی کے حق میں تھی، اسلام آباد میں تمام اہم عہدے پیپلزپارٹی حاصل کرچکی تھی، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی کو اس طرح کا اقتدار ملا تھا۔ ہر کوئی اپنے کام میں لگ گیا، اور پارٹی کا وہ کارکن جو یہ سمجھتا تھا کہ وہ بھی اس حکومت کا حصہ ہے، اسے اس وقت شدید دھچکا لگا جب اسے یہ احساس دلایا گیا کہ محترمہ شہید ہوچکی ہیں۔ اب اسے ان لوگوں کی چمچہ گیری کرکے آگے بڑھنا ہوگا جن کا محترمہ کی شہادت سے پہلے پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
انہی دنوں میں سی ای سی کی موجودگی میں کور کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کا پارٹی کے آئین میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہی کور کمیٹی اہم فیصلے کرتی رہی اور کرتی آرہی ہے، پارٹی پر آصف علی زرداری کے ذاتی دوستوں اور رشتہ داروں کی گرفت اور زیادہ مضبوط ہوگئی، جس کے نتیجے میں پارٹی کا نظریاتی اور مزاحمتی کیڈر پیچھے چلاگیا ، دوہزار تیرہ کے انتخابات کے نتائج اصل میں اسی نظریاتی اور مزاحمتی کیڈر کے انتقام کا نتیجہ تھے،جو ان انتخابات میں باہر ہی نہیں آیا، اور اس شکست کے بعد پارٹی نے بھی اس پر غور کرنے کیلئے کوئی سی ای سی کا اجلاس طلب کرنے کی بھی زحمت نہ کی، تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جاسکے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے پارٹی شکست سے دوچار ہوئی۔
زرداری صاحب جو محترمہ کی شہادت کے بعد انتخابات، حکومت سازی میں مصروفیت اور اس کے بعد ایوان صدر منتقل ہوگئے تھے،ان تک ایک عام تو کیا کسی خاص رہنما یا کارکن کی رسائی بھی ممکن نہیں تھی۔ جب وہ اپنے آئینی عہدے کی مدت مکمل کرکے ایوان صدر سے باہر آئے تب بھی پیچھے دھکیلے گئے کارکنان کو ان تک رسائی نہیں مل سکی، اسی دوران سندھ میں پیپلزپارٹی نے پھر حکومت قائم کی جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی گورننس کی اصلیت بھی کھل کر سامنےآنے لگی،۔
وفاق میں تو پچھلے پانچ سالوں کی کارکردگی ویسے بھی سامنے آچکی تھی۔ سندھ کیونکہ پیپلزپارٹی کا بیس تھا، اس لیے امید تھی کہ وہ اپنی جڑیں نہیں کاٹی گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔جوں جوں وقت گذرتا گیا تو اس رائے میں اور اضافہ ہوتا گیا کہ اگر پارٹی تمام اختیارات کے ساتھ بلاول بھٹو کے حوالے نہ کی گئی تو نقصان اور زیادہ ہوجائے گا،اور پھر مستقبل میں اس کا ازالہ بھی ممکن نہیں رہے گا، پارٹی کے اندر آصف علی زرداری اور ان کے عزیزوں سے قرابت رکھنے والوں کے علاوہ باقی جو بھی پارٹی کارکنان اور ہمدرد تھے وہ ان سے شدید ناراض تھے، یہ لہر نہ صرف نیچے بلکہ اوپر کی سطح پر بھی موجود تھی اور ہے۔
گذشتہ برس پارٹی کے ڈیڑھ درجن سے زائد سینئر رہنماؤں نے آصف علی زرداری سے ملاقات کی ان رہنماؤں کو اندازہ تھا کہ اگر چند ماہ کے اندر پارٹی نے کوئی اہم فیصلہ نہ کیا تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا، دبئی میں ان رہنماؤں نے کھل کر باتیں کیں، جس کی جتنی حیثیت تھی اس نے اتنی ہی بات کی، اس اجلاس میں موجود ذرائع کہتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے باتیں کیں وہ ایک سمجھدار آدمی کیلئے کافی تھیں، یوں سمجھیں کہ زرداری کو ہاتھ جوڑ کر کہا گیا کہ مہربانی کریں اور جان چھوڑیں، سرپرست بن جائیں، اختیارات بلاول کے حوالے کریں، زرداری صاحب مان گئے، لیکن مخدوم امین فہیم کے انتقال کے بعد ان کا عہدہ زرداری صاحب نے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔
گذشتہ برس جون میں فوج کے خلاف دیئے گئے بیان کے بعد زرداری صاحب بیرون ملک چلے گئے اور بظاہر یہ محسوس بھی کرایا جارہاہے کہ بلاول بھٹو نے پارٹی کے اہم معاملات سنبھالنے شروع کردیئے ہیں، اس بار جب وہ اسلام آباد آئے تو انہوں نے دو اہم فیصلوں کا اعلان کیا ہے ، جس میں پارٹی کی تنظیم نو کے کیلئے تحت چاروں صوبائی زیلی اور ضلعی تنظیمیں توڑ دی گئیں ہیں۔ ان کی جگہ پانچ پانچ رکنی کوآرڈینیشن کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔
جبکہ دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ پارٹی کارکنان، ہمدردوں ، نقادوں اور سول سائٹی سے ایک سوال نامے کے ذریعے براہ راست رابطہ کیا جائے گا۔ پارٹی کی جانب سے قمر زمان کائرہ اور فیصل کریم کنڈی نے ایک پریس کانفرنس میں ان فیصلوں کے حوالے سے آگاہی دی، ان کی پریس کانفرنس کے بعد اس بات کی امید کی جارہی تھی کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت جو اس وقت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے، ان فیصلوں پر میڈیا میں بحث کی جائیگی، لیکن جان بوجھ کر اس ایشو کو نہیں چھیڑا گیا۔،
بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایک چھ نکاتی سوال نامہ تیار کیا گیا ہے، پارٹی کا کہنا ہے کہ ان سوالات کے جوابات آنے کی روشنی میں پارٹی کی نئی سمت کا تعین کرنے میں مدد ملے گی، جبکہ ان تمام افراد کا ڈیٹا بھی اکٹھا کرنے میں مدد ملے گی جو اس سوال نامے کے جوابات بھیجیں گے۔اس لیے جتنا جلد ہوسکے ہمیں ان سوالوں کے جواب بھیجے جائیں تاکہ ہم اس مرحلے کو جلد مکمل کر سکیں، کائرہ صحافیوں کو بتا رہے تھے۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے اس سوال نامے کے چھ میں سے پانچ سوالات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، جو کچھ اس طرح ہیں۔
۔1۔ یہ بتایا جائے اپنے بنیادی نظریئے پر قائم رہتے ہوئے پارٹی کس طرح نئے چیلینجز کا سامنا کرسکتی ہے؟
۔2۔ پارٹی کو کونسے اندرونی اور بیرونے چیلنجز درپیش ہیں؟ اور ملک کون سے مسائل میں پھنسا ہوا ہے؟
۔3۔ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو کس طرح فعال اور مؤثر بنایا جائے؟
۔4۔ پارٹی کے رابطے کو کس طرح مستحکم کیا جائے؟
۔5۔ موجودہ اور مستقبل کے چیلینجز کا سامنا کرنے کیلئے پارٹی کی اقتصادی ، سماجی، اور سیاسی ترجیحات کیاہونی چاہیئں؟ یہ بھی بتایا جائے کہ فوری طور پر مختصر اور طویل مدت کی پالیسی کیلئے تین ترجیحات کی نشاندھی جائے۔
ان سوالات کے جوابات تو ضرور آئیں گے،لیکن میرا خیال ہے کہ جتنے بھی جوابات آئیں گے ان میں اکثریت پارٹی کے اندر بدعنوان عناصر کی نہ صرف نشاندھی کے امکانات ہیں بلکہ شدید تنقید بھی کی جائیگی، کیونکہ بدعنوانی کے سبب نہ صرف پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ شدید متاثر ہوا ہے ، لیکن پارٹی کی ساکھ بھی برباد ہوگئی ہے، پارٹی کے اہم رہنماؤں کے عمل کے نتیجے میں مخالفین کو اب پارٹی کے خلاف کام کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ کیونکہ جو کام مخالفین کرتے تھے اب پارٹی کے اہم رہنما خود کررہے ہیں۔
اس سے ہی اندازہ لگالیں کہ بدعنوانی ایک عام آدمی کے سامنے اتنا خراب عمل بن گئی ہے کہ وہ ایک مُلا کو بھی قبول کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ عمران خان اس کی ایک بڑٰی مثال ہے، ان کی سیاسی پالیسی نہ صرف طالبان حامی رہی ہے بلکہ وہ نظریاتی طور پر بھی طالبان کے حامی رہے ہیں، اس کے باوجود عام آدمی کے منہ سے آپ کو یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ وہ کرپٹ نہیں ہے۔اس لیے عمران خان کو موقعہ ملنا چاہیئے۔
اس پورے منظرنامے میں بلاول بھٹو کیلئے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر بھٹو سے زیادہ چیلنجز درپیش ہیں، ذوالفقار علی بھٹو نے جب پارٹی قائم کی وہ مختلف نعروں کا معجون بناکر عوام میں آگئے، پاکستان میں سیاست کو انہوں نے نہ صرف ایک نیا رنگ دیابلکہ سیاست پر عام آدمی کا حق بھی تسلیم کرایا، عوام کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی شہادت کے بعد ایک آمر کا مقابلہ کیا، جلاوطنی برداشت کی ، لیکن عوام کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھا، وہ اپنی پارٹی کے تنظیمی اور سیاسی فیصلے پارٹی رہنماؤں سے مشاورت سے کرنے کی عادی تھیں، ان دونوں رہنماؤں کو بیرونی چیلنجز تھے،لیکن بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کے اندر چیلنجز کا سامنا ہے، وہ پارٹی کے اندر اگر صفائی کرنا چاہیں بھی تو ان کیلئے یہ ایک بہت مشکل کام ہے،۔
پارٹی کی سندھ حکومت نے جو گل کھلائے ہیں، اس نے بلاول بھٹو کی اپنی شخصیت پر بھی انگلیاں کھڑی کردی ہیں۔ ان کیلئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا، آپ غیر سے نظریئے کی بنیاد پر لڑسکتے ہیں، لیکن جب نظریئے کا تعین بھی نہ ہو، اور آپ کو بچہ کہہ کر اہم فیصلے خود کیے جائیں تو پھر بہرحال چیلینجز تو ہوتے ہی ہیں، یہی سبب ہے کہ پارٹی کی دوسری سطح کی قیادت بلاول بھٹو کو یہ کہتی رہی ہے کہ وہ پارٹی میں نوجوان قیادت کو سامنے لائیں۔
ان کی اس تجویز کے پس پردہ بھی یہی خواہش ہے، بلاول بھٹو اصل میں پارٹی کے تمام کارکنان کیلئے ایک رہنما کے بجائے ایک امید بھی بن گئے ہیں، ملک کے تیزی سے تبدیل ہوتے سیاسی منظرنامے میں پارٹی کی تنظیم نو ان کیلئے ایک بڑا چیلنج ہوگا، ان کی جانب سے جاری کیے گئے سوال نامے کے جوابات آنے بعد تنظیم نو کا کام مکمل کیاجائے تو بہتر ہوگا۔
اگر بلاول بھٹو اپنی پارٹی کو بدعنوانی کی دلدل سے نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ان کی کامیابی ہوگی۔گذشتہ سات آٹھ سالوں کے دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے اپنی پارٹی کو بدعنوانی کی جوا میں داؤ پر لگادیاہے۔ وہ آج بھی سمجھتے ہیں ان کی سیاسی زنبیل میں عوامی حمایت اب بھی موجود ہے، وہ شاید اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس زنبیل میں اب ایک بڑا سوراخ ہوچکا ہے۔
♠