ارشد نذیر
پاؤلو فریرے ایک پرتگالی ماہرِ تعلیم تھا۔جس نے1968ء میں ’’مظلوموں کا نصاب‘‘ یا لکھی۔ یہ کتاب دراصل برازیلین بالغوں کی تعلیم کے لئے لکھی گئی تھی۔اس کتاب میں فریرے نے ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے سامراج ، سامراجیت اور ان کی بنائی گئی کالونیوں کے تعلق کا مارکسی نقطہِ نظر سے جائزہ لیا ہے ۔ اس میں استاد ، طالبعلم اور معاشرے کے تعلق کاجائزہ بھی نئے انداز سے لیا گیا ہے۔فریرے کاخیال ہے کہ کوئی تعلیم کبھی بھی غیر جانبدار نہیں ہو سکتی ۔ کوئی بھی تعلیمی نصاب کبھی بھی غیر جانبدار نہیں ہوتا۔ تعلیمی پالیسی کے پیچھے سیاسی مقاصد ہوا کرتے ہیں۔
کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب میں ظالم اور مظلوم کے درمیان قائم استحصالی رشتے کے جواز تلاش کئے گئے ہیں۔ اس باب میں استحصالی اور استحصال زدہ کالونیوں کے درمیان طاقت کے توازن کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس بارے میں مصنف بتاتا ہے کہ استحصالی طاقت کے اس توازن کو اپنے حق میں کرنے کے لئے استحصال زدہ طبقے کو سب سے پہلے ’’غلامی سے آزادی ‘‘ یا ’’آزادی‘‘ ہی کے تصور سے ڈراتا ہے ۔اس پر مصنف کہتا ہے کہ آزادی کبھی بھی عطیہ کے طور پر حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ مسلسل جدوجہد اور شعوری آگاہی سے حاصل کی جاتی ہے۔ لہٰذا آزادی کوئی متھ ہے اور نہ ہی انسان سے ماورا کوئی تصور ۔یہ اس کی شخصیت ہی کا حصہ ہوتی ہے اور اُس کی شخصی تکمیل کے لئے ناگزیر ہوتی ہے۔
دوسرے باب میں فریرے تعلیمی نظریے کو بنکنگ اپروچ بتاتا ہے ۔ طالبعلم کے لئے وہ ایک خالی بنک کا استعارہ استعمال کرتا ہے۔ اس بنک میں استاد جو بھی چاہے جمع کر سکتا ہے ۔ خالی بنک میں کچھ بھی جمع کئے جانے کی گنجائش موجود رہتی ہے ۔ یہ بیان کرتے ہوئے وہ کمرشلائزڈ بنک کے تصور کی مخالفت کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ کمرشلائزڈ بنک کا لگا بندھا تجارتی نظریہ دراصل غیر انسانی رویوں کو جنم دیتا ہے۔ تعلیم کو بھی کمرشلائزڈ بنک تصور کرنے سے استاد اور شاگرد دونوں میں غیر انسانی رویے جنم لیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ بنک سماج میں مظلومیت کے رویوں اور رواجوں کو جنم دینے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔اس کے برعکس فریرے انسانوں کے ناممکن ہونے کی وجہ سے دنیا میں باہمی تعاون ، ضرورت اور اہمیت کی وجہ سے باہمی تعاون کے تعلیمی نظریے کی بات کرتا ہے ۔ سماج اور فرد کی شخصیت سازی کے عمل میں اس تعلیمی نظریے کو شعوری طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
تیسرے باب میں فریرے ’’محدود حالات یا معروض‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے انسانی شخصیت کی تکمیل کی بات کرتا ہے ۔ معروض یا سماج میں موجود مواد سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے انسانی شخصیت کی تکمیل کا یہ سفر ممکن ہے۔
چوتھے باب میں وہ ’’ڈائیلاجکس‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے ۔ وہ اس اصطلاح کو استحصال زدہ طبقوں اورر معاشروں کی آزادی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ انسانوں کی آزادی کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو باہمی تعاون، اتحاد و یکجہتی ، تنظیم سازی اور ثقافتی امتزاج جیسے نظریوں سے جوڑتے ہوئے پاٹا جاسکتا ہے۔
ستر کی دہائی میں اس کتاب کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ۔ نیویارک کے پبلشرنے 2000 ء میں کتاب کے پیش لفظ میں لکھا کہ اب تک اس کی سات لاکھ پچاس ہزار کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
اسی دوران ایک برطانوی ڈیویلپمنٹ پریکٹیشنر رابرٹ چیمبرز نے ’’پیچھے والوں کو آگے‘‘ لانے کی ایک اپروچ متعارف کرائی جس کا نام دیہی ترقی کی جانچ کا شراکتی عمل تھا۔ اس ڈیوالپمنٹل پریکٹیشنر نے حقیقی ترقی کے لئے اور اُس کی جانچ کے لئے اپنی اس اپروچ کو استعمال کیا۔
چنانچہ این ۔جی ۔ اوز تنظیم سازی اور دیہاتوں میں کام کرنے کے لئے اس اپروچ کو ٹول کے طور پر استعمال کیا۔
لہٰذا پاکستان میں این۔جی۔اوز سیکٹر میں ان دو نظریوں کو بہت زیادہ استعمال کیا گیا۔
مارکسی نکتہ نظر کی اس کتاب کو یاسیت میں گھرے ہوئے این جی اوز کے دانشوروں نے سرمایہ داری میں اصلاحی ایجنڈے اور ترقی کے عمل میں مظلوموں کی براہِ راست شرکت جیسی اصلاحات کے طور پر استعمال کیا۔ اسی کی دہائی میں ان این جی اوٹک دانشوروں نے ’’غربت‘‘، ’’ترقی‘‘اور ’’شراکتی عمل‘‘ جیسی عالمی بنک اور آئی ایم ایف کی اصطلاحات کو قبول کر لیا اور خیال کیا کہ اب دنیا میں صرف سرمایہ داری اور جمہوریت ہی کا راج رہے گا۔
چنانچہ انہوں نے اس مغربی تصور کو اپناتے ہوئے تنظیمیں رجسٹرڈ کروائیں ۔ اور عوام کو یہ ایجنڈا دینا شروع کر دیا۔ یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ ان این جی اوز نے خود کو پاکستان میں موجود خیراتی این جی اوز ایکٹس کے تحت ہی رجسٹرڈ کروایا۔ اسی کی آڑ میں وہ کرپشن اور بدعنوانی کرتے رہے۔ ابھی ہمارا یہ موضوعِ بحث نہیں ہے۔ اس لئے اس پر تفصیلی بحث نہیں کی جا سکتی ۔
این جی اوز اپنا ارتقائی سفر طے کرتی رہیں۔ بائیں بازو کے کچھ یاسیت کے مارے دانشورجنہوں نے سوچ لیا تھا کہ سوشلزم اب ناکام ہونے جارہا ہے اور ایسے میں انہیں کوئی اور کام تلاش کرنا چاہئے ۔انہوں نے این جی اوز کے اس تصور کا اپنایا اور این جی اوز کھول لیں۔ کچھ مغرب سے فارغ التحصیل دانشور بھی ملک کے سیاسی خلاء کو اسطرح پور کرنا چاہ رہے تھے۔ لہٰذا وہ بھی اس سیکٹر میں داخل ہو گئے۔ کچھ برگرفیملیز کی حقوقِ نسواں کے خواتین کو بھی اسی سیکٹر میں خاصا کام کرنے کی گنجائش نظر آئی۔ لہٰذا اس طرح این جی اوز کا یہ سلسلہ چل پڑا۔
پاکستان میں موجود سیاسی خلا کو این جی اوز نے اس طرح پُر کیا۔ اس سارے عمل میں این جی اوز خود بھی تضادات اور زوال پذیری کا شکار رہے۔ کرپشن اور بدعنوانی ان میں سرایت کرتی چلی گئی۔ پھر نیول لبرل معاشی ایجنڈے کے ماڈلز کو پاکستان میں ترقی کے ماڈل کے طورپر متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔ جنوبی ایشاء میں بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کے گرامین بنک کے ماڈل کی تعریفین کی گئیں ۔ اس ماڈل کو پاکستان میں بھی رپلیکیٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔
الغرض این جی اوز کے متعارف کردہ تمام ماڈلز بھی آج ناکام ہوگئے ہیں۔ اب ان کے ہاں بھی صرف اور صرف کرپشن اور بدعنوانی بچ گئی ہے۔ اب یہ کھلم کھلا ’’پبلک ، پرائیویٹ، پارٹنرشپ‘‘ کے ایجنڈے پر کھیلیں گے۔ اب صرف یہی ایک ایجنڈا این جی اوز کی اپنی بقا کے لئے بھی ضروری ہے۔ اس لئے ان پروپوزل رائٹر دانشوروں کے پاس کوئی سیاسی ایجنڈا ہے اور نہ ہی کوئی حقیقی سماجی اور معاشی ایجنڈا۔ اس لئے اپنے ہی وجود کی جنگ کے لئے وہ پبلک۔ پرائیویٹ ۔پارٹنرشپ یا اس سے ملتے جلتے ماڈلز کی آڑ میں عوام کا نقصان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سکولوں کی نج کاری کے اس عمل میں این۔جی۔اوز بس یہی کرنے جارہی ہیں۔
♠