لیاقت علی ایڈووکیٹ
فریڈرک اینگلز( 1820-1895) کومارکسی نظریات کی ترتیب و تدوین کے حوالے سے کم و بیش وہی مقام حاصل ہے جو خود مارکس ( (1817-1883کا ہے ۔ ان دونوں کے نظریات اور خیالات میں اس حد تک یکسانیت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ انھیں علیحدہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
اینگلز ،مارکس کی وفات کے بعد ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہے اور انھوں نے مارکس کے نظریات کی توسیع ،تشریح اور توجیح میں بہت اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔ انھوں نے مارکس کی نامکمل کتابوں بالخصوص ’سرمایہ ‘ کو مکمل کیا اور اس کی اشاعت کو ممکن بنایا ۔ تبدیل شدہ سیاسی اور سماجی حالات کے پس منظر میں جن نئے نظریاتی اور فکری سوالات نے جنم لیا تھااینگلز نے مارکس کے نظریات کی روشنی میں نہ صرف ان کے جوابات دیئے بلکہ ان لوگوں کے خلاف بھرپور نظریاتی مہم چلائی جو مارکس کے نظریات کو من مانے معانی پہنا کر محنت کشوں کی تحریک میں انتشار و افتراق پیدا کرنا چاہتے تھے ۔
حال ہی میں اینگلز کی ایک نئی سوانح عمری
The Frock Coated Communist
کے نام سے منظر عام پر آئی ہے جس میں نئے حقائق اور معلومات کی بنیاد پر ان کی زندگی، نظریاتی ارتقا اور سیاسی جد وجہد پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ٹرسٹرام ہنٹ کی لکھی ہوئی اینگلز کی اس سوانح عمری میں کہاگیا ہے کہ انگلستان میں کمیونز م کی ناکامی کے پس پشت جہاں اور بہت سی وجوہات اور عوامل کارفرما رہے ہیں وہاں ایک وجہ اینگلز کا اپنے معاصرین سے روا رکھا جانے والا رویہ بھی تھا ۔
سنہ1890میں پہلی مرتبہ لندن میں یوم مئی منا یا گیا تھا ۔ اس دن صبح ہی سے مختلف صنعتوں سے تعلق رکھنے والے مزدور اور انقلابی کارکن لاکھوں کی تعدا د میں شہر کی سڑکوں پر جمع ہوگئے تھے ۔ وکٹوریہ اسٹیشن سے لے کر ہائیڈ پارک تک ہر طرف سر ہی سر نظر آتے تھے ۔ محنت کشوں کے اس عظیم الشان جلوس کی قیادت کمیونسٹ مینی فیسٹو کا شریک مصنف فریڈریک اینگلز کررہا تھا ۔’میں اُ س دن سٹیج نمبر 4پر موجود تھا اور مجمع کے صرف ایک حصے ہی کو دیکھ پارہا تھا ۔ حد نظر تک چہروں کا سمندر تھا ‘۔ اینگلز نے یوم مئی کے اس جلوس کو یاد کرتے ہوئے لکھا تھا۔
’’محنت کشوں کا یہ اجتماع اس بات کی گواہی تھا کہ سوشلسٹ خواب پورا ہونے کی گھڑی آپہنچی تھی لیکن خوشی و انبساط کے اس لمحے میں دکھ اس بات کا تھا کہ اس کا جگری دوست مارکس اس اجتماع میں موجود نہیں تھا ۔محنت کشوں کی اس بیداری اور شعور کے لئے ایسی کون سی صعوبت اور تکلیف تھی جو مارکس نے براشت نہیں کی تھی ۔ اگر وہ آج زندہ ہوتا تو محنت کشوں کو اپنے حقوق کے لئے یوں متحرک دیکھ کر کس قدر خوش ہوتا ‘‘ اینگلز نے سوچا۔آ اس وقت پوری دنیا میں کساد بازاری اپنے عروج پر ہے۔صنعتیں بند ہورہی ہیں، بے روزگاری ہے کہ کہیں ٹھہرنے کا نام نہیں لے رہی ۔ لوگوں کا میعار زندگی بڑی تیزی سے گررہا ہے ۔ درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ اپنی بچتوں اور اثاثوں سے محروم ہورہے ہیں ۔ معاشی ابتری کی اس صورت حال میں ہر ملک میں عوام ’منڈی کی معیشت‘ کو مسترد اور سرمایہ داری نظام سے اظہار بے زاری کررہے ہیں لیکن اس ساری اقتصادی اور سماجی اتھل پتھل کے باوجود انگلستان میں آج بھی کمیونسٹوں کی طرف سے مزاحمت نہ ہونے کے برابر ہے ۔
انگلستان کے برعکس حالیہ برسوں میں یورپ کے دوسرے ممالک میں سوشلسٹ نظریات اور جذبات کو از سر نو حمایت اور تقویت ملی ہے ۔ مارکس کی کتاب’ سرمایہ‘ کی فروخت میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے ۔جاپان جسے ایشیا میں سرمایہ داری نظام کا قلعہ کہا جاتا ہے وہاں کمیونسٹ پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ اس کے ممبروں کی تعداد چار لاکھ دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور تیس سال سے کم عمر نوجوانوں میں اس کی مقبولیت میں بڑ ی تیز ی سے اضافہ ہورہاہے ۔
انگلستان میں کمیونسٹ نظریات اور اشتراکی تحریک کے ناکام ہونے کے پس پشت کون سے محرکات ہیں ؟مارکس اور اینگلز کے نظریاتی ارتقا میں ان کے قیام انگلستان نے اہم رول ادا کیا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگیوں کا بیشتر حصہ انگلستان میں جد وجہد کرتے ہوئے گذارا اور یہاں کی اشتراکی تحریک کو منظم و متحرک کرنے میں بھی کلیدی رول ادا کیا تھا لیکن اس سب کے باوجود یہاں کمیونزم کا پودا بارآور کیوں نہیں ہوسکا ؟ محققین کے نزدیک یہ سوال بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ انگلستان کے بر عکس فرانس ،اٹلی حتیٰ کہ امریکہ تک میں مارکسی نظریات کو بہت پذیرائی ملی اور اشتراکی پارٹیاں پھلی پھولیں لیکن انگریز سماج نے کمیونزم سے ہمیشہ بے اعتنائی برتی ۔
مورخین کے نزدیک انگلستان میں اشتراکیت کے پھیلاؤ کی راہ میں معیشت اور سماجی ساخت دو ناقابل عبور رکاوٹیں تھیں۔راس میکبن کے مطابق انگریز محنت کش طبقہ میں چھوٹی چھوٹی فرموں اور سروس سیکٹر میں ملازم ہونے کی بدولت اجتماعیت کا فقدان تھا ۔ ان کے ہاں مالکان کے خلاف اس قسم کا غم و غصہ بھی نہیں پایا جاتا تھا جو عام طور پر دیگر ممالک کے محنت کشوں کے طبقاتی شعور کا حصہ ہے۔مزید برآں انگریزوں میں اجتماعیت کی بجائے انفرادیت کی روایت بہت مضبوط اور مستحکم رہی ہے ۔
انگلستان میں کلبوں اور دوسرے سماجی اداروں کی شکل میں مضبوط اور مربوط سول سوسائٹی کی موجود گی بھی کمیونزم کے پھیلاؤ کی راہ میں حائل ہوئی ۔ اشتراکی تحریک اپنی تمام تر نظریاتی اور عملی کوششوں کے باوجود انگریز محنت کشوں کو اجتماعیت کا قائل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ انگلستان میں ایک مقبول مارکسسٹ پارٹی نہ بن سکنے کے پس پشت انگریز سماج کی مخصوص ساخت اور اقتصادی محرکات کے ساتھ ساتھ عملی سیاست میں شخصی رویوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اس حوالے سے ۔1883میں مارکس کی وفات کے بعد یہ اینگلز ہی تھا جو انگلستان کی اشتراکی تحریک کا نگران اور رہنما بنا ۔ اس حیثیت میں اینگلز نے جو فیصلے کئے ان کی بدولت انگلستان میں کمیونسٹ تحریک اپاہج ہو کر رہی گئی۔
اپنے ساتھیوں کے ساتھ اینگلز کے لڑائی جھگڑوں نے کمیونسٹ تحریک کو کمزور بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہنری ہنڈمین مارکسسٹ سوشل ڈیموکریٹک فیڈریشن کا رہنما تھا اینگلز نے نظریاتی اختلاف کی بنا اس سے قطع تعلق کر لیا تھا ۔ ہنڈمین نے انگلستان کے مزدوروں کو بورژوازی کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف متشدد مظاہروں پر اکسایا تھا ۔ اس کی اس حکمت عملی سے ناراض ہوکر اینگلز نے اس کے بارے میں لکھا ’ اس کے ذہن میں سوشلزم کا تصور لوٹ مار کا ہے ‘۔
فیبین سوشلسٹوں کے بارے میں لکھا ’ یہ ناکارہ لوگوں کا ایسا گروہ ہے جسے ایک دوسرے کی تعریفیں کرنے کے سوا اورکوئی کام نہیں ہے ‘۔ اینگلز کو ولیم مورس سے بہت امیدیں تھیں اور اس کی ایک وجہ دونوں کی قدیم سکینڈے نیوین متھالوجی میں دلچسپی تھی لیکن جب مورس نے انارکسزم میں دل چسپی کا اظہار کیا تو اینگلز نے اسے ’’ سیدھا سادہ جذباتی اور خوابوں میں رہنے والا‘‘ قرار دئے کر تنظیم سے الگ کر دیا ۔ اور جہاں تک بے چارے کیئر ہارڈی کا تعلق تھا تواس کے بارے میں اینگلز کا تبصرہ بہت جارحانہ اور اشتعال انگیز تھا ’ فریبی ،عیار ، ریاکارسکاٹ،سازشی اور بیکار‘۔
اینگلز کے اپنے ساتھیوں کے بارے میں اس قدر شدید غصے اور ناراضی کی وجہ سمجھ آسکتی تھی اگر تحریک کی قیادت کے لئے اس کے پاس زیادہ بہتر متبادل موجود ہوتا ۔اسے انگلستان کی اشتراکی تحریک کی بدقسمتی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اینگلز نے ایڈورڈ ایولنگ کو تحریک کا قائد مقرر کر دیا جو اگرچہ شاندار فلسفی تھالیکن سوشلسٹ حلقوں میں اپنی حرکات کی بدولت بہت ناپسند کیا جاتا تھا ۔ سوشلسٹ کارکنوں کا اس کے بارے میں یہ عمومی خیال تھا کہ وہ چور اور عورتوں میں غیر معمولی دلچسپی لیتا ہے ۔
یہ اینگلز کی تنک مزاجی اور اس کے غلط تنظیمی فیصلے تھے جن کے باعث بر طانیہ میں سوشلسٹ نظریات اور ان سے جڑی سیاست کو پذیرائی نہ مل سکی اور ایک صدی سے زائد گذرنے کے باوجود انگلستان میں جسے مارکسسٹ نظریات کی جنم بھومی کہا جاسکتا ہے وہاں کمیونسٹوں کا سماجی اور سیاسی اثر و نفوذ نہ ہونے کے برابر ہے ۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انگلستان میں کمیونزم کی ناکامی کے پس پشت جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مارکس اور اینگلز نے اپنی زندگیوں کا بڑا حصہ اس ملک میں گذارا اور ان دونوں کے اپنے معاصرین کے ساتھ رویے اور ان کے تنظیمی فیصلوں نے انگلستان کی اشتراکی تحریک کی راہیں کھوٹی کیں ۔
♣