اکرم درانی اور اسلامی نظام

لیاقت علی ایڈووکیٹ

0، بنم89


اکرم خان درانی وفاقی کابینہ میں جمیعت علما اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں اور ہاوسنگ کے وزیر ہیں ۔ ماضی میں درانی صوبہ سرحد کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان کی پسندیدہ شخصیت ہیں اور درانی کے لئے مولانا رول ماڈل ہیں ۔ صوبہ سرحد کا وزیر اعلی بننے سے قبل ان کے چہرے پر داڑھی نہیں ہوتی تھی لیکن وزارت اعلی کا حلف لینے سے قبل ایمر جنسی میں انھیں داڑھی بڑھا نا پڑھی تھی ۔

ایک روز قبل درانی صاحب نے لاہور کے ایک دینی مدرسے میں جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سیکولر ازم نافذ کرنے کی کوششوں کو ہر قیمت پر ناکام بنائیں گے ۔ جو لوگ پاکستان میں سیکولر ازم اور لبرل ازم کا نفاذ چاہتے ہیں ان کو ہم شکست دیں گے اور یہ ملک جو کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آیا ہے یہاں ’اسلامی نظام‘ ہی نافذ ہو گا۔ 

درانی صاحب کو یقیناًاس حیققت کا علم ہوگا کہ پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو ملک کو سیکولر بنانے کا دعوی رکھتی ہو بالخصوص پارلیمنٹ میں تو کسی ایسی جماعت کا کوئی رکن نہیں جس نے اپنے منشور میں پاکستان میں سیکولرازم او ر لبرل ازم کے نفاذ کا عندیہ دیا ہو ۔ تو درانی کس کو تنبیہ کررہے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جن سے ان کو خطرہ محسوس ہو رہا ہے ۔ اکا دکا فیس بک یا سوشل نیٹ ورکنگ کے دیگر صفحات پر کچھ لوگ سیکولر ازم کی حمایت میں فقرے بازی کرتے ہوں لیکن ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ۔ درانی صاحب اور ان کے ہمراہیوں کو گذشتہ سرسٹھ برسوں پاکستان کی ریاست کی کھلی اور خفی تائید و حمایت حاصل ہے اور وہ ملک میں مسلسل’ اسلامی نظام‘ نافذ کر رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ابھی تک ان کی شکم سیری نہیں ہوئی ۔

سیکولرازم کے خلاف اکرم درانی ہی نہیں تمام علماء اور مذہبی جماعتیں اور دائیں بازو کے دانشور وقتاً فوقتاً یہی راگ الاپتے رہتے ہیں ۔ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں سیکولر ازم کے نفاذ کی مضبوط آواز نہیں ہے لیکن وہ ڈرتے ہیں کہ انھوں نے جس’ اسلامی نظام‘ کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا ہوا ہے اب ایسا کرنا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے ۔

لوگ بڑے تیزی سے یہ شعور حاصل کر رہے ہیں کہ پاکستان میں دینی عقیدے کا کوئی تنازعہ نہیں ہے ۔ تنازعہ معاشی اور سماجی ہے ۔ پاکستان کے عوام کو تعلیم ملنا چاہیے ، پاکستان کے عوام کو صحت کی سہولیتیں ملنا چاہیں اور پاکستان کے نوجوانوں کو روزگار ملنا چاہیے ۔ پاکستان کے وفاق میں شامل چھوٹے صوبوں کو ان کے معاشی اور مالی حقوق ملنا چاہیں ۔

دراصل وہ عوام کے ان مطالبات سے خوف زدہ ہیں ۔ وہ ان مطالبات کو دینی عقیدے کے نام پر پس پشت ڈالنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان کے عوام ایک ایسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں جو بلا لحاظ مذہب اور سیاسی وابستگی تمام عوام کے حقوق کے تحفظ کی امین ہو۔ جو دینی عقیدے کے نام پر پاکستان کے شہریوں سے امتیازی سلوک نہ کرے ۔

اگر تمام شہریوں سے مساوی سلوک سیکولر ازم ہے تو یقیناًپاکستان کے عوام سیکولر ازم چاہتے ہیں کیونکہ تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ ہی سے پاکستان مضبوط ہوگا بصورت دیگر پاکستان میں انتشار اور افراتفری ، باہمی قتل و غارت گری سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوسکتا ۔

Comments are closed.