سجاد ظہیر سولنگی
سندھ میں تھرپارکر ایک ایسا علاقہ ہے ، جس کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سماجی پسماندگی جنم لیتی ہے ، جس کو ہماری حکومتیں قحط اور قدرتی آفات کا نام دیکر خاموشی کی نیند سوجاتی ہیں۔سال 2014 ء میں تھر کے ساتھ جو بیتی وہ 1 جنوری 2015 کے اخبارات مین دیکھا جا سکتا ہے۔ جب کہ سال 2015 ء میں جو ہو چکا، اس اس کی تباہی کو جنوری 2016 کے اخبارات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں حکومت ان کو مختلف حربوں سے چھپاتی آرہی ہے ، مگر حقائق یہ ہیں کہ تھر میں ہونے والی انسانی اموات اور بیماریوں کا سب سے بڑا سبب خوراک کابروقت نہ ملنا ہے۔اس تمام پس منظر کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ان تمام میڈیائی خبروں کے بعد تجزیہ کیا جائے توایسے واقعات جن معصوم بچوں کی اموات شامل ہیں ان کا سب سے زیادہ اثر سندھ پر پڑتا ہے ، اس کی سب سے بڑی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ سندھ کا حکومتی نظام جاگیردارانہ ہے۔ ایسا سماج جہاں جاگیریں آباد ہوں وہاں کسی بھی امکانی حادثے سے نپٹنا مشکل بن جا تا ہے ۔ اس بات سے کوئی بھی اختلاف نہیں ہے کہ صحرائے تھر میں آفات ، بیماری اور قحط سالی بغیر کسی پیغام یا بلاوے کے آتی ہیں ،جس کو ہمارے ملک کی سرکار اپنی نااہلی سے چھپاتی ہے، عالمی سطح پر اگر دیکھا جائے توترقی یافتہ ممالک اس آفات یا امکانی حاد ثات کو اپنی صلاحیت سے ا س طرح حل کر لیتے ہیں کہ وہ وہاں کی تاریخ میں بھلا دینے کے واقعات بن جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک یہ ثابت کرکے دکھاتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے شہریوں سے کس حد تک پیار کرتے ہیں۔وہاں ایسے حادثات سے بچنے کا ایک خاص سبب وہاں کی حکومت نظام کا بہتر ہونا ہے ، عوام کے مسائل بروقت حل کرنا وہاں اپنے فرض میں سمجھا جاتا ہے۔عام انسان کی زندگی بہتر بنانے کے لیے وہ ممالک آگے آگے رہتے ہیں کہ عوام کو کسی بھی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہمارے ہاں حکومت تو دور کی بات ہے لیکن نظام نام کی کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ پاکستان کا جاگیردارنہ نظام جس نے عوام کو خیرات مانگنے پر مجبور کر دیا ہے ، وہاں پہلے ہی پسماندگی کے شکار صوبے بیماری اور کسی بھی امکانی حادثے سے کیسے نپٹیں گے۔
اس وقت سب سے زیادہ صوبے سندھ کا ریگستان تھر پسماندگی کا شکار ہے ، جہاں بھوک ، افلاس اور خوراک کی قلت نے بچوں سے لیکر خواتین اور بزرگوں کو بہت متاثر کیا ہے۔ تھر جہاں ہر سال ایسی صورتحال کے باعث ہونے والی اموات نے اسی ریگستانی زمین کو ہجرت اور قحط سالی کی سرزمین بنا دیا ہے ، جب کہ سرکار کی جانب اس صورتحال کو فقط قحط سالی کا نام دے دینا ماسوائے اپنے سر سے در در د کو اتار کر پھینک دینے کے کچھ بھی نہیں ہے۔ تھر کو سندھ کا ایک تاریخی ریگستان کہا جاتا ہے ، تھر میں جاری اس صورتحال پر بات کرنے سے پہلے اس کے جغرافیائی پس منظر پر بات کرنا لازمی بن جاتی ہے۔
صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ 200,000 مربع کلومیٹر اور 77,000 مربع میل ہے۔ اس کا شمار دنیا کے نویں بڑے صحراکے طور پر کیا جاتا ہے، صحرائے تھر بنیادی طور پر ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں سے آباد ہے۔ پاکستانی تھر کے حصہ میں سندھی اور کولہی برادر آباد ہیں۔ ریگستان میں لوگوں کا بنیادی پیشہ زراعت اور گلہ بانی ہے ۔گزشتہ سالوں میں وہاں پر انسانی آبادی کے ساتھ ساتھ کہ جانوروں کی آبادی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ریگستان میں انسانی اور مویشیوں کی آبادی کا اضافہ ماحول میں بگاڑ کی وجہ ہے۔
تھر پر نظر دوڑائی جائے تو ، تھر کے دو(جغرافیائی )حصے ہیں ایک کو “ڈھٹ ” جس کی معنی تھر یا صحرائی ملک ، دوسرا “پٹ” جس سے مراد سخت زمین کا خطہ ہے۔ سخت زمین پارکر کی طرف ہے۔ ہمارے تاریخ دان اس کی دلیل کے لیے شاہ لطیف کو ماخذ کے طور پر پیش کرتے ہیں ، شاہ صاحب کی شاعری میں مندرجہ تشرِیح کی نشاندہی ملتی ہے کہ “تھر” الگ اور “پارکر” الگ الگ ہیں۔ ملک کے انتظامی ڈھانچے کو آسانی سے سمجھنے کے لیے ان دو حصوں کو ملاکر (تھر پار) کا نام دیا گیا ہے۔ جو کہ اب تھر پار ضلعہ کے نام سے لکھا ،پڑھا اور کہا جاتا ہے۔
سندھ کے اس صحرا کی آبادی 1998 ء کی مردم شماری کے مطابق 9 لاکھ 55 ہزار 8 سو 12 کے اعداد پر مبنی ہے ۔، تھر جس کو 6 تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، تھر کا بڑا حصہ صحرا پر مبنی ہے ، یہاں کوئلہ، گیس، مٹی اور گرینائیٹ جیسی معدنیات موجود ہے۔ تھر میں سے لال اور کالے پتھر کی کانیں بھی دریافت کی گئی ہیں۔یہاں بہت سارے مندر بھی ہیں جن کا تعلق ہندو مت ، جین مت اور بدھ دھرم سے ہے۔
اس خطے کو اگر سیاحت کے قابل بنایا جائے تھر میں بہت سارے بیرونی وفود سیر و سفرکے لیے آسکتے ہیں۔جس میں سے سندھ کو بہت سی آمدنی حاصل ہوسکتی ہے اور تھر کی اس پسماندگی کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہر سال بھوک ، بیروزگاری اور خوراک کی کمی کی وجہ سے یہ علاقہ پسماندہ بنتا جارہا ہے۔ سرکار اپنی نااہلی چھپانے کے لیے، اس تمام بحران کو قحط کا نام دیکر اپنی جان چھڑانے کی ناکام کوشش کرتی آئی ہے۔یہاں بہت سی حکومتوں کو بدلتے دیکھا ہے نہیں تو فقط تھر کی صورتحال نہیں بدل سکی، جو آج بھی بھوک اور افلاس کے ماروں کا دیس بنا ہوا ہے۔
خوراک کی کمی کی وجہ سے یہاں کمزور بچے پیدا ہوتے ہیں جو کہ خاص طور پر سردی کے موسم میں مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں وہاں موجود ہسپتالوں اورمحکمہ صحت اس پر کوئی کردار نہیں ادا کرتا کہ جس سے ماں اور بچے کی صحت کو بہتر بنایا جاسکے۔ہر سال خشک سالی جیسی صورتحال نے اس خوبصورت علاقے کو تباہ و برباد کردیا ہے ، میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو حکومت نے 2015 ء کے مارچ میں اس خطے کو آفت زدہ قرار دیا تھا، اسی سال حکومت کی جانب سے اعلان کردہ گندم کی 60 ہزار بوریاں کس کے پیٹ کی خوراک بنی، اس کا حساب کتاب آج تک معلوم نہ ہوسکا اور یہ بات وہاں ختم نہیں ہوتی پچھلے سال سندھ حکومت نے اس بات پر نوٹس بھی لیاتھا۔ امداد کا بروقت نہ ملنے کے بعد چاہے وہ اس سے کیوں نہ دگنی صورت میں ملے وہ کسی کام کی نہیں۔ کیوں کہ زخم پر مرہم وقت پر لگایا جاتا ہے ۔
جائزہ لیا جائے تو تھر میں سب سے بڑا بحران صحت کے حوالے سے ہے ، عام انسان کی زندگیوں کو وقت پر بچانے کے لیے اقدام کیے جائیں تو شاید انسانی زندگیاں اور نا سمجھ بچے اپنی زندگی بچاسکیں۔ پچھلے ماہ صحت کے وزیر نے بھی یہ اعتراف کیا کہ بچوں میں اموات کا سبب ان میں خوراک کی کمی ہے۔ زمینیں کاشت کرنے والی خواتین کی خوراک درست نہیں ہے، اور اس کی وجہ سے وہ مائیں کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر ماں میں خوراک کی کمی ہے تو وہ قصورماں کا ہے یا ہاہماری صوبائی حکومت کاہے، ہر شہری کو بہتر خوراک دینا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے۔
دیکھا جائے تو حکومت اپنے اس پانچ سالہ دور میں تھر کی پسماندگی کو ختم نہیں کر پائی ، سندھ سرکار تھر پار کی اس تباہ کن صورت حال کو بہتر بنانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ لگتا ہے سندھ کے وزیرِ صحت بھول چکے ہیں کہ کہ تھر کی ایسی صورتحال پر آپ کے پارٹی سربراہ کی جانب سے بھی دورے کیے جاچکے ہیں ، مگر بات وہی اٹکی ہوئی ہے۔ پارٹی کے تمام رہنماؤں کے وزٹ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ آمریتوں میں بھی “تھری” اموات کا شکار ہوں اور جمہور میں بھی وہ اپنی جان گنواتے آرہے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ تھر پارکر کی اس پسماندگی کا حل کون نکالے گا ؟جس کی پاداش میں صحرائے تھر میں موت منڈلاتا ہے، اور بہت سے پھول مرجھا جاتے ہیں۔ تھر میں ایسی صورحال کے بعد حکومتی سطح کے منصوبے، کہ جس میں کھاد خوراک اور بہتر پانی سپلائی کے لیے پمپ جیسی اسکیمیں شامل ہیں وہ کس حد تک اہلِ تھر کے لیے کارآمد ثابت ہوئے ہیں؟ اس کا رکارڈ بھی میڈیا میں آچکا ہے۔
اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان ایک مرتبہ پھر قحط زدہ اور پسماندہ علاقوں خصوصاً تھر پارکر کی پسماندگی جیسے علاقوں کے لیے سندھ حکومت کو پابند بنائے تاکہ وہ اسی صورتحال پر عملی اقدام کرے اور اس کا حل جلد از جلدتلاش کرے۔ ماضی میں ہونے والے اعلانات اور امدادی کاموں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن بنائے ، اس میں ملوث لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے کیوں کہ بار بار تھر کی ایسی صورتحال ان غیرذمہ دارانہ عمل اوراقدام کا بولتا ثبوت ہے۔
ملک کے حکمرانوں کو سندھ کے اس پسماندہ خطے کے لیے انصاف صرف بیان بازی تک نہیں بلکہ اس اس کا ثبوت دینے کے لیے عملی مظاہرہ دکھانے کی ضرورت ہے، تاکہ کھاد خوراک کی کمی کے بحران کو ختم کیا جا سکے۔ خاص منصوبہ بندی کہ جس میں ماں کی خوراک بڑھائی جائے تاکہ وہ تندرست بچوں کو جنم دے سکیں۔ جو کمزور بچے پیدا ہوتے ہیں اورجن کو حکومت کمزورکہہ کر اپنی جان چھڑا لیتی ہے، حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وہ ان کو تندرست بنانے کے لیے مقامی سطح پر صحت کے نظام کو بہتر بنائے۔ تاکہ وہ بچے اپنی بہتر صحت پائیں۔حکومتی سطح پر زیادہ سے زیادہ عملی اقدام اٹھائے جائیں تاکہ تھری لوگوں کے ہمراہ صحرائے تھر کا بھی حسن قائم اور دائم رہے۔ اور کوئی بھی بچہ بوکھ سے اپنی زندگی نہ گنوائے۔
♠