بے وقوف کہنے والا بے وقوف بنانے والا ہی ہوتا ہے 

qazi-310x387

فرحت قاضی

مجھے مالک نے کہا:۔
’’
گھر کے کام کاج کے لئے ایک لڑکا چاہئے‘‘
میں گیا
اور ایک نوجوان لے آیا
ابھی مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ مالک نے اسے رخصت کردیا
دوسرا لے آیا
اسے بھی مالک نے دو مہینوں سے زیادہ نہیں رکھا
خیر 
تیسرا پھر چوتھا
ایک دن بالآخر اس سے پوچھا:۔
’’
صاحب جی! کون سا انسان کام کے لئے مناسب ہوگا؟‘‘
اس نے سوچ کر بتایا:
’’
جو
اونٹ کی مانند صابر
کتّے
کے مافق وفادار اور گدھے کی طرح کام کا تکڑا ہو‘‘
میں نے کہا:’’ صاحب جی! پہلے بتادیا ہوتا کہ آپ کو پٹھان خادم چاہئے‘‘
مگر
اس ملازم کو بھی جب چٹھی دے دی تو مجھے نہایت تعجب ہوا وجہ معلوم کرنا چاہی تو جواب ملا:
’’
اس میں عقل نہیں تھی‘‘
میں نے مسکرا کر کہا:
’’
صاحب جی! جس میں عقل ہوتی ہے تو اس میں پھر جانوروں کی یہ صفات نہیں ہوتی ہیں‘‘

ایک مالک نوکر کو بیوقوف کہتا ہے
ایک افسر ماتحت کو احمق کہہ کر بلاتا ہے
ایک مرد عورت کو عقل دشمن سمجھتا ہے
ایک بالادست قوم پسماندہ قوم کے افراد کو میڈیا پر نائب قاصد،چوکیدار،مالی،سپاہی اور دیگر کمتر عہدوں پر دکھاتی ہے نااہل اور بے وقوف ظاہر کرنا چاہتی ہے کیا یہ مالک،افسر،شوہر اور قوم یہ نہیں جانتے ہیں کہ عقل اور شعور کیسے پیدااور آتا ہے اگر یہ واقعی نہیں جانتے ہیں تو قابل معافی ہیں۔

ایک پختون کھیت مزدور اور ناخواندہ ہے وہ بیٹی کے حصول تعلیم کو غیرت اور سماجی اقدار کے منا فی سمجھتا ہے اس لئے اس کو سکول جانے نہیں دیتا ہے تو وہ واقعی قصور وار نہیں ہے اسی طرح مالک،افسراور قوم کے افراد کی نیت و ارادہ میں کوئی کھوٹ نہیں اور یہ محض ان کی حس مزاح ہے جو ان کو نوکر،ماتحت،دیہاتی اور پس ماندہ قوم کا تمسخر اڑانے پر مجبور کردیتی ہے تو یہ سب قصوروار نہیں۔

البتہ ایک مالک،افسر،شوہر اور قوم یہ جانتے ہیں کہ عقل کیسے آتی ہے تو اس کا واضح اور صاف مطلب یہ ہے کہ نوکر،ماتحت،بیوی اور پس ماندہ قوم کے افراد کو بے وقوف بنانے والے یہی لوگ ہیں۔


آج سے صدیوں پہلے کا انسان شایدیہ نہیں جانتا ہو مگر پاکستان کے حکمران،بالادست طبقات اور پڑھا لکھا نوجوان جانتا ہے کہ مخصوص حالات اور مخصوص تعلیمات کا مقصد و منتہا مخصوص افراد پیدا کرنا ہوتا ہے

جسے ڈاکٹر بننا ہے وہ میڈیکل کالج جاتا اور طب پڑھتا ہے۔
اسی طرح صحافت کا پیشہ اختیار کرنے کے لئے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ سے سند حاصل کرتا ہے ہذالقیاس۔
اگر ان دلائل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اور یہ محض قیاس آرائی ہے تو یہ بتاہئے کیا شہری عورت دیہاتی عورت سے مختلف نہیں ہوتی ہے کیا پڑھا لکھا نوجوان ان پڑھ سے الگ نہیں سوچتا ہے کیا مرد عورت سے زیادہ معلومات نہیں رکھتا ہے کیا بالادست اور پس ماندہ قوم کے افراد میں واضح امتیاز نہیں پایا جاتا ہے کیا پختونخوا اور بلوچستان کے باسی صنعتی پنجاب اور صنعتی سندھ کے باسیوں کی طرح ہیں۔

اگر ایک مالک کے خواندہ اور ناخواندہ نوکر ہیں تو اس کا انداز گفتگو اور سلوک دونوں سے الگ الگ ہوتا ہے۔
ایک نوکر، ماتحت،دیہاتی،بیوی اور قوم ناخواندہ اور لاعلم ہوتے ہیں تو اس کا مالک، افسر،شہری،شوہر اور بالادست طبقہ وقوم کو فائدہ بھی پہنچتا ہے نوکر پڑھا لکھا نہیں ہے وہ ملکی قوانین اور آئین سے نابلد ہے اسے اپنے حقوق کا پتہ نہیں ہے تو اس کی لاعلمی اور جہالت کا مالک کو یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ کم اجرت دیتا ہے کبھی سخت رویہ اختیار کرتا اور کبھی رحم دلی کی اداکاری کرتا ہے تو نوکر اس سب کو اپنی قسمت سمجھ کر اس پر قانع رہتا ہے۔

ایک دیہات میں محنت کشوں کے حقوق کا کوئی تصور نہیں ہے اس لئے جاگیردار جوچاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور سرکاری اداروں کے اہلکار بھی وہی کرتے ہیں تو دیہاتی سرجھکاکر جینے پر مجبور ہوتا ہے مگر ایک شہر میں ناخواندہ اور خواندہ محنت کش ٹریڈ یونین میں منظم ہیں اور ان کے لیڈروں کو لیبر قوانین کی جانکاری ہوتی ہے تو مالک محتاط رہتاہے بیوی ان پڑھ ہوتی ہے تو شوہر کو اس سے اپنی مرضی کا سلوک کرنے کی پوری پوری آزادی ہوتی ہے۔

بیٹی اور بہن لاعلم اور جاہل ہے تو باپ اور بھائی اپنی خواہشات کے مطابق ان کی شادی کراسکتے ہیں اور اگر قتل ہوگیا ہے تو ان کو سورۂ ( کفارہ) میں مقتول خاندان کو دے بھی سکتے ہیں اسی طرح پس ماندہ قوم کے رہنماؤں اور افراد کو احساس ہوتا ہے کہ ملکی قوانین اور آئین میں ان کے کیا حقوق اور فرائض ہیں اور عالمی سطح پر کن کن اداروں کے دروازوں پر اپنے حقوق کے لئے دستک دے سکتے ہیں تو بالادست قوم کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا اس کی مجبوری ہوجاتی ہے۔

چونکہ مالک،افسر،شوہر اور قوم ان فوائد سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے ہیں لہٰذا یہی بیوقوف کہنے والے بے وقوف بنانے والے بن جاتے ہیں
مالک، مرد اور بالادست قوم چاہتے ہیں کہ نوکر،عورت اور زیر دست قوم کے افراد معاملہ فہم اور عقل مند نہ ہوں
ان میں اپنے برے اور بھلے
فائدہ اور نقصان کی تمیز نہ ہو
ان میں اپنے حقوق کا شعور نہ ہو

شہری،وکیل،ڈاکٹر،پٹواری اور تھانے دار بھی اس صورت حال سے مستفید ہوتے ہیں القصہ مالک، افسر،شوہر اور بالادست قوم الزامات لگاتے اور نوکر ، ماتحت،بیوی اور زیر دست قوم کی ہنسی اڑاتے اور بے وقوف تو کہتے ہیں مگر ان کو باشعور اور عقل مند بنانے کے لئے کچھ نہیں کرتے ہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی ناسمجھی،لاعلمی اور جہالت سے ان کو ایک سے زائد فوائد پہنچ رہے ہیں

بیٹی اور بہن ناخواندہ اور معاشی لحاظ سے باپ اور بھائی کی دست نگر ہے تو یہ باپ اور بھائی مالی اور دیگر فوائد کے حصول کے لئے اسے بوڑھے دولت مند کے پلے باندھ سکتے ہیں دیہاتی سیدھا سادا ہے تو شہری دو نمبر مال کو ایک بتاکر بیچ سکتا ہے شہری ناخواندہ یا نیم خواندہ ہے تو سپاہی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے موکل ان پڑھ ہے تو وکیل زیادہ فیس طلب کرتا ہے دیہاتی ان پڑھ ہے تو پٹواری فرد نمبر اور انتقال زمین کی زیادہ فیس لیتا ہے۔

ایک قوم کے افراد کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس کے علاقے کے قدرتی وسائل ان کی ملکیت ہیں۔
پہاڑ
دریا
بجلی
گیس
جنگلات
معدنیات
آثار قدیمہ
ان کی مشترکہ ملکیت اور ورثہ ہے تو دیگر اقوام ان پر ریاست،قومیت،مذہب اور وطنیت کے نام پر قبضہ کرلیتی ہیں سپاہی بے وقوف ہوتا ہے اسی لئے اپنے ہی طبقے اور اپنے ہی لوگوں پر گولیاں برساتا ہے دیہاتی نہیں جانتا ہے کہ جن روایات،رواجات،رسومات اور ثقافت پر وہ جان چھڑکتا ہے یہی تو اس کی غربت اور افلاس کے اسباب ہیں وہ یہ نہیں جانتا ہے کہ جدید تعلیم ہی اسے جہالت کے اندھیروں سے نکال سکتی ہے تو تعلیم کی مخالفت پر کمر کس لیتا ہے ناخواندہ عوام کو بادشاہوں کی خدا ترسی اور انصاف کے پس پردہ حالات کا علم نہیں ہوتا ہے تو اسی لئے ایسے حکمرانوں کی آس لگائے رکھتے ہیں۔

فنون لطیفہ میں کیا لطافت ،بالیدگی،ژولیدگی اور انسان دوستی ہے فلمیں ہمیں کیا سکھاتی ہیں وہ یہ نہیں جانتا ہے تو آرٹ،موسیقی اور ادب سے بیر رکھتا ہے
پاکستان جیسے ملک میں مالک نہیں چاہتا ہے کہ اس کا ملازم عقل مند ہو
حکمران نہیں چاہتا ہے کہ عوام کو اپنے حقوق کا پتہ ہو
مرد عورت کو سیکھنے اور سمجھنے کی آزادی دیدے تو کیا پھر اس کی بالادستی اور آمریت قائم رہ سکتی ہے۔

عورت معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے تو کیا شوہر، ساس،نند اور سسر اسے پتھر،لات اور گھونسے مارسکیں گے
میڈیا پر پابندیاں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہوتی ہیں تاکہ عوام کو حقائق کی جانکاری نہ ہو اور عوام تک وہی کچھ پہنچے جو کہ حاکم طبقہ چاہتا ہے
چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نوکر،ماتحت،دیہاتی اور زیر دست قوم کے افراد کو احمق اور بے وقوف بنانے والے یہی مالک، افسر،جاگیردار، شہری اور بالادست قوم کے افرادہوتے ہیں۔

Comments are closed.