حسن مجتبیٰ
منظر پہلا : آپ لوگوں کو پہلے گیارہ بارہ برسوں تک جیلوں، سیف ہائوسز اور شاہی قلعوں میں محبوس رکھیں، انہیں ٹکٹکیوں سے باندہ کر کوڑے لگائيں، پھانسیوں پر لٹکائيں، لٹکانے کے بعد انکی شلواریں اتار کر مسلمانی چیک کرنے کو تصویریں نکال کر بڑی سرمے وال سرکار کو بھیجیں۔ بیبیوں تک کو ڈنڈے مار کر انکے سر پھاڑ دیں انکو لمبی مدت تک نظربندیوں اور حبس خانوں میں قید کر رکھیں۔ مردوں کو صرف یہ کہ انکی شادی کس سے ہوئي ہے دس دس برس قید کر کر انکے بچوں کو انکی نظروں کے سامنے بڑا ہوتا دیکھنے سے بھی محروم کر رکھیں۔ پھر ان سے اپنی مسند اور کھال بچانے(مشرف نے وردی کو اپنی کھال کہا تھا) کے لیے مذاکرات کریں، باعزت جیلوں سے نکال کر حلف وفاداری لیکر تخت پر بٹھادیں۔ پھر وہ ملک کے ساتھ وہی کریں گے جو شاید انیس سو سترہ میں بھوکے ننگے پرولتاریوں نے زار کے محل کیساتھ بھی نہیں کیا ہوگا۔ تو پھر کیسی شکایت کیسا احتساب؟
منظر دوسرا: 1979-80کے سالوں میں جب فوجی آمر ضیاءالحق کا جاسوس اعظم اور سابق گورنر پنجاب جنرل جیلانی صرف بھٹو اور اسکی پارٹی دشمنی میں انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے اس قومیائے گئےکچھ صنعتی یونٹوں والے خاندان کے بڑے سے اس خاندان کے نالائق لیکن اپنے والدین کے انتہائي فرمانبردار نوجوان کا ہاتھ مانگ کر پنجاب کا وزیر خزانہ بنا رہا تھا یہ اسکے فرشتوں نے بھی نہ سوچا ہوگا کہ شریف خاندان کا یہی نوجوان اپنے ہی تماشگروں سے ٹکراجائے گا۔ یعنی کہ نظام کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانوں نے انہی کی بھٹی سے کندن بن کر نکلنے والے والے نواز شریف کے متعلق اس دن کا سوچا ہی نہ تھا جب وہ کہے گا ” ڈکٹیشن نہیں لوں گا نہ ہی استعفی دوں گا” ۔
جنرل جیلانی کی طرف سے نواز شریف کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنانا ایسے ہی تھا جیسے معزول مرحوم شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے پاکستان کے اپنے ایک دورے کے دوران بھٹو سے جام صادق علی جیسے سیاست کے شاطر شاہ شطرنج باز کا ازراہ تفنن ہاتھ مانگآ تھا کہ وہ انہیں وہ کشور ایران کا وزیر خزانہ بنانا چاہیں گے۔ تو بھٹو نے بھی ازراہ تفنن جام سے کہا تھا شاہ کو کیا خبر کو تم جیسے آدمی کو ایران کے وزیر خزانہ بنانے کے بعد اک دن شاہ ایران ایلفی (ہائے کہ تب کراچی کا یہ دل ایلفی ابھی زیب النساء اسٹریٹ نہیں بنی تھی) پر بھیک مانگتے دکھائي دے گآ!۔
اسی جام صادق علی کو آپ کو یاد ہوگا کہ بھٹو نے کہا تھا “جام صرف قائد اعظم کے مقبرے کا خیال رکھنا“۔ لیکن بھٹو کے بھی فرشتوں کو خبر نہ ہوگی کہ اسکے نام پر تیسری بار حکومت کرنے والے سندھ میں قائد اعظم کے مقبرے کو بھی بحریہ ہاوسنگ اسکیم والے کھرب پتی ملک ریاض کو کوڑیوں کے مول نہ بیچ دیں (جیسے انہوں نے کراچي کے قدیمی گاوں گوٹھوں کی ہزاروں ایکڑ زمین جس پر لاکھوں نفوس سندھی اور بلوچ آبادیوں کی صورت میں صدیوں سے اباد ہیں اور سپر ہائی وے کے متصل ان گوٹھوں اور بستیوں میں کئی تاریخی آثار و مقامات، مقبرے اور یادگار ہیں الاٹ کردی ہے ۔ خیر اس موضوع پر پھر کبھی سہی)۔
تیسرا منظر: اس سے بھی بہت پہلے بہت پہلے مگر ، دوسری جنگ عظیم کے دوران شاید میاں شریف کی چھوٹے فاونڈریز یونٹ پر (جو انہوں نے اپنے بڑے بھائي سے شروعاتی سرمایا پانچ سو روپے ادھار لیکر قائم کی تھی) پر بطور فورمین بھرتی کیے جانے والے اس انگریز فورمین نے بھی سوچا نہ ہوگا کہ ریلوے کی پرانی اسکریپ خرید کر پگھلانے والی یہ فاونڈری والے اسکے بعد شاید پھر پیچھے کی طرف نہ صرف مڑ کر کبھی نہیں دیکھیں گے۔
لیکن برصغیر میں نہ فقط نئے مغل فرمانروا بن جائيں گے بلکہ1990کی دہائی کے وسط تک ہر جرنیل (شاید سوائے آصف نواز جنجوعہ کے) کے نجی گھر کی تعمیرات میں اسی اتفاق فائونڈری کا مفت اسٹیل استعمال کیا ہوا ہوگا! لیکن اس سے قبل جنریلوں اور ججوں کا احتساب حرام ٹھہرا ۔ اس ملک میں صرف احتساب ہوا ہے تو ان سیاستدانوں کا ہی ہوا ہے جنہوں نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا ہو۔ وجوہات وحقائق کچھ بھی ہوں۔ یہاں جہاز کی سیٹ سے باندہ کر ہتھ کڑی میں وزیر اعظم لائے گا نہ کہ فوجی آمر۔
چلو مانا کہ نواز شریف کرپٹ ہے لیکن جس بھٹی سے وہ کندن بنا کر نکالا گيا تھا اسکے بھٹیارے شاید اس سے بھی زیادہ کرپٹ لیکن کون کہے کہ شیر رے شیر تیرے منہ میں خون کی بو!۔
ایسے شیروں نے رنگ ماسٹر سدھائے ہیں کاغذی شیر بنائے ہیں۔ سرکس لگائی ہے۔ بڑے بڑے بگ تماشے کیے ہیں۔ تماشگر کبھی پردے کے پیچھے اور کبھی پردے سے نظریہ ضرورت کی طرح باہرنکل کر آئے ہيں۔ جیسے وہ اب پردے سے نکل کر باہر آنے کو بے چین ہوئے جاتے ہیں۔ بقول شخصے مری ہی جاندے نیں۔ کتنا نہ اچھا کہا ہے افتخار عارف نے کہ:۔
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب کہانی ختم ہوگی
جرنیلوں نے بندوق چلائی ہے منصفوں نے اسپر مہر تصدق ثبت کی ہے تو مصنفوں نے میراثیوں کے پیٹ پر لات ماری ہے۔ سیاستدانوں کو پھانسیو ں پر لٹکائے جانے کے فیصلوں والے قلم سیاستدانوں کو تحفے میں دیئے گئے ہیں۔جی اب بھی کچھ ایسی ہی سرکس لگائي جارہی ہے۔ کہ دے دھرنا دھرنے پہ دھرنا۔
پاکستان کے چیف جسٹس حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی سفارشات کی تعمیل کب کی گئی۔ بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے جب کمیشن کی رپورٹ کے کچھ حصوں کو ٹی وی پر نشر کرنے کی جسارت کی تھی تو جی ایچ کیو میں بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھی گئی تھیں۔ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں ان سینئر افسروں کے قتل عام اور لوٹ کھسوٹ، آتش زنی اور بنک لوٹنے میں ملوث ہونے پر انکے خلاف اقدامات کی سفارش کی گئئ تھی۔
انکے خلاف اقدامات تو کجا پھر ایسے کئی بھی تھے جو بعد میں آرمی چیف ، گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی بنائے گئے۔ اگر حمود الرحمان کمیشن کے سفارشات پر ہی عمل درآمد ہی ہوتا تو ہم آج بنگلہ دیش کو ایک چور کی طرح نہیں ڈانٹ رہے ہوتے اپنے حوالداروں کے خلاف اقدامات اٹھائے ہوتے تو۔ میاں صاحب تھوڑ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ نکلواکر اس پر سے جھاڑ پونچھ کریں کوئی اس پر بھی ٹی آو آرز ہوجائيں نہ! لیکن مقتول کے پیاروں اتنا ظرف تھا لیکن کہاں!۔
مشرف کو صرف انصاف کے “ریوالونگ دروازے” سے گذارنے کی کوشش کی بلی نے انکے یہ لہو لہاں حال کردیے ہیں۔ اور اب نواز شریف پرائم ٹارگیٹ ہے تو متحدہ حزب مخالف ریت کی بوری اور اس بندوق کا کندھا ہے جسکی پہلی گولی آزاد میڈیا اور ازاد عدلیہ (اگر یہ واقعی آزاد ہیں تو) اور جمہوری اداروں نے کھانی ہے۔ پانامہ پیپرز تو بس ایسے میں یوں آگئے کہ جیسے سندھی میں کہتے ہیں کہ مخبوط الحواس کتیا سور کے منہ میں۔
آخری منظر چوتھا: کراچی کے پبلک پارک فرئیر پارک میں ایک فلم کی شوٹنگ راتوں کو جاری ہے۔ پارک پر سیکورٹی اداروں نے شوٹنگ کی لوکیشن پر پہرہ قائم کیا ہوا ہے۔ ایسی شوٹنگ اک عظیم الشان محل یا جگہ کے طور پر باتھ آئی لینڈ میں واقع سابقہ کور کمانڈر ہاوس میں بھی کی گئی۔ اگر کوئی اور فلمساز ہوتا تو ایک تو ایسے مقامات پر آسانی سے رسائی اور سہولیات نہ ہوپاتيں اور اسکی فیس لاکھوں میں ہوتی لیکن مذکورہ فلم کی شوٹنگ کیلیے ریاستی سیکیورٹی ادارے یعنی رینجرز کے پہرے سمیت سب کچھ مفت میں مہیا کیا گیا کیونکہ فلم بنانے والا کوئی اور نہیں سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کا داماد تھا۔ داماد بچارہ کتنا قومی خزانے پر بوجھ بن سکتا ہے۔
(پردہ گرتا ہے)